Friday, November 6, 2009

آندھی ہے تلاطم ہے مصیبت ہے بلا ہ
شعلے ہیں شرارے ہیں جہنم کی ہوا ہے
نفرت کا یہ موسم ہے تعصب کی فضا ہے
محشر سے بہت پہلے یہاں حشر بپا ہے

سجدے بھی کیےخاک پہ مانگی ہے دعا بھی
ناراض ہے اس قوم سے شاید کہ خدا بھی
ہر سمت یہاں نالہ و فریاد و فغاں ہے
بستی کہاں بستی ہے قیامت کا سماں ہے
دنیا کی ہے یہ شکل کہ دوزخ کا گماں ہے
اے مالکِ کونین ترا رحم کہاں ہے

برہم ہوئے انسان غم و رنج و الم سے
مایوس نہ کر اِن کو عنایت سے کرم سے
افسوس کہ آپس میں ہیں ہم بر سرِ پیکار
روتے ہیں یہاں لوگ تو خوش ہوتے ہیں اغیار
اِس قوم کو کیا جانئے کیا لگ گیا آزار
انجام سے ڈرتا ہوں کہ اچھے نہیں آ ثار

حالات سے ہر ایک ہے بے چین پریشان
اِس ملک میں چلتا ہے کسی اور کا فرمان
حیران ہوں یہ لوگ بھی انسان ہیں یا رب
جاتے ہیں جہاں موت کا سامان ہیں یا رب
چلتا ہوا پھرتا ہوا طوفان ہیں یا رب
دنیا کی نظر میں یہ مسلمان ہیں یا رب

بندے ہیں ترے دہر میں یہ کام کیا ہے
ہر دیس میں اسلام کو بدنام کیا ہے
اس طرح کے بے رحم بھی ہوتے ہیں مسلمان
دکھ درد سے بےحس ہیں کہ جیسے کوئی بے جان
دیندار ہیں ایسے کہ نہیں دین کی پہچان
رکھتے ہیں تمنا کہ ہر اک شہر ہو سنسان

کوتاہی افکار ہے اور ذہن ہیں بیمار
دوزخ کے ہیں معمار یہ جنت کے طلبگار
ظالم ہیں کہ مظلوم ہیں کیا جانئے کیا ہیں
یہ اہلِ ستم ہیں کہ گرفتارِ بلا ہیں
بیداد کی تصویر ہیں نفرت کی ادا ہیں
بت خانہ عالم میں پرستارِ خدا ہیں

مرنے کے سوا کوئی تمنا نہیں رکھتے
بیمار ہیں پر شوقِ مسیحا نہیں رکھتے
گزری ہے کچھ ایسی کہ زمانے سے ہیں بیزار
پھولوں سے نہیں گلشنِ ہستی میں سروکار
ہر موجِ صبا کرتی ہے اک درد کو بیدار
مرنے کو ہیں تیا ر یہ نا واقفِ اسرار

پیدا ہوئے جس دن سے مرے ہیں نہ جئے ہیں
بے خوف و خطر جسموں سے بم باندھ لئے ہیں
جا کر کسی مسجد میں اڑا دیتے ہیں خود کو
بچوں کے سکولوں میں جلا دیتے ہیں خود کو
قاتل ہیں کچھ ایسے کہ مٹا دیتے ہیں خود کو
نفرت کی یہ حد ہے کہ بھلا دیتے ہیں خود کو

مل جائے گا کیا اِن کو اگر سوگ بہت ہوں
مرتے ہیں وہاں جا کے جہاں لوگ بہت ہوں
مقصد ہے کہ شہروں میں تباہی سی مچا دیں
اونچی ہیں سروں سے جو عمارات گرا دیں
بارود کے شعلوں میں گلستاں کو جلا دیں
مٹنا ہے اگر خود تو ہر اک چیز مٹا دیں

جیتے رہے کچھ اور تو کیا اِن کو ملے گا
وہ زخم ہے دل پر نہ مٹے گا نہ سلے گا
مانا کہ بڑے قہر سے گزرے ہیں بچارے
ماں باپ بہن بھائی مرے جنگ میں سارے
بمباریاں اِن پر ہوئیں برسے ہیں شرارے
احباب جو باقی تھے وہ جنت کو سدھارے

دو بار قیامت تو بپا ہو نہیں سکتی
دکھ ایسے ملے ہیں کہ دوا ہو نہیں سکتی
کس سمت کو جانا ہے بتاتا ہے کوئی اور
یہ راہِ ستم اِن کو دکھاتا ہے کوئی اور
مرنے کے یہ انداز سکھاتا ہے کوئی اور
آگ اپنی ہے پر اِس کو لگاتا ہے کوئی اور

ناقص ہیں جو چلتے ہیں سہارے پہ کسی کے
سب کارِ نمایاں ہیں اشارے پہ کسی کے
دنیا نے ہمیں جو بھی کہا مان لیا ہے
حکام نے امداد کا احسان لیا ہے
خیرات پہ جینا ہے یہی ٹھان لیا ہے
غیروں نے ہر اک رمز کو پہچان لیا ہے

مسجد میں یونہی جاتے ہیں راحت کے پجاری
پیسوں سے یہ بن جاتے ہیں ظالم کے حواری
رستہ کوئی واضح ہے نہ منزل کا نشاں ہے
سب نفع کے پیچھے ہیں یہی سب کا زیاں ہے
سونے کی نظر ہے یہاں پیسے کی زباں ہے
ارزاں ہے کوئی چیز تو اک خواب گراں ہے

الجھی ہوئی باتوں میں بہت پیچ ہیں خم ہیں
بت خانہ مذہب میں تخیل کے صنم ہیں
لازم ہیں ترقی کے لئے صنعت و ا یجاد
اب علم پہ ہے قوتِ اقوام کی بنیاد
ہوتی ہے سدا مفلس و کمزور پہ بیداد
ہم قیدِ غلامی میں ہیں اب تک نہیں آزاد

یہ بات نہ سمجھیں گے اسیرانِ روایات
جاری ہیں لبِ واعظ و ملا پہ حکایات
اوپر کوئی دنیا ہے کہ حوروں سے بھری ہے
کیا گیسو و رخسار ہیں کیا جلوہ گری ہے
ہر شاخ گلستانِ تمنا کی ہری ہے
واعظ کا مصلیٰ نہیں لالچ کی دری ہے

کچھ فکر نہیں سب پہ مصیبت کی گھڑی ہے
دوزخ میں ہے دنیا اِسے جنت کی پڑی ہے

Wednesday, October 21, 2009

موت کا عدد - - - سچ تو یہ ہے۔


موت کا عدد - - - سچ تو یہ ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

چائینیز کمیونٹی میں چار کے عدد کو موت کا عدد سمجھا جاتا ہے کیونکہ چائینیز زبان میں چار کو سیئی (سے ئی)بولا جاتا ہے جب کہ چائینیز لوگ مغرب (ویسٹ )اور موت (ڈیتھ) کو بھی کچھ زیر زبر یا پیش کے فرق کے ساتھ سیئی ہی بولتے ہیں یوں وہ چار یعنی کہ سیئی کو موت ہی سمجھتے ہیں اور اس عددکو اتنا منحوس گردانتے ہیں کہ چائینیز کمیونٹی کے افراد اس عدد سے ہمیشہ ہی دور ہی رہتے ہیں اسی لئے آپ کو ملک چین اور چینی کمیونٹی کی اکثر بلڈنگز میں چوتھا فلور نہیں ملے گا اور ہر فلور پر چوتھا فلیٹ بھی نہیں ملے گا۔ بلکہ کچھ بلڈنگز میں چودہ چوبیس چونتیس علیٰ ہذاالقیاس چار سے جڑا ہوا کوئی بھی عدد نہیں ملے گا۔

عیسائی بھی تیرہ کے عدد کو منحوس قرار دیتے ہیں اور دل چسپی کی بات تو یہ ہے کہ علم الاعداد والے (نیومرالوجی) تیرہ کے عدد کو بھی چار گردانتے ہیں وہ ایسے کہ تیرہ کے تین کو تیرہ کے ایک میں جمع کریں تو چار کا عدد بنتا ہے دراصل علم الاعداد والوں کے نزدیک بنیادی اعداد صرف نو ہیں یعنی کہ وہ ایک سے لے کر نو عدد کو ہی اصل اعداد قرار دیتے ہیں یوں وہ ہر عدد کو خواہ وہ اکیلا ہو یا پھر سیکنڑوں اعداد پر مشتمل ہو اس کو آپس میں جمع کرتے جاتے ہیں کہ وہ کثیر عددی عدد جمع ہوتے ہوتے ایک عدد یعنی کہ اکائی کا روپ دھار لیتا ہے۔

اس قسم کے تواہم وسوسے اور واہیات خیالات آپ کو ہر ملک اور ہر کمیونٹی میں ملیں گے اگر نہیں ملیں گے تو پکے سچے مسلم افراد میں نہیں ملیں گے مسلمین کے نزدیک کوئی بھی عدد منحوس یا سعد نہیں ہے سارے اعداد صرف گنتی کے لئے ہیں یا پھر کسی خاص عدد کی تصدیق یا تردید قرآن کریم یا احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوتی ہے تو وہ عدد ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے وہ بھی صرف خاص خاص مواقع کے لئے ہے ان مواقع کی وضاحت اور صراحت قرآن کریم یا احادیث مبارکہ میں کر دی گئی ہے ورنہ ہم مسلمین ہر عدد کو کسی تعصب کے بغیر صرف گنتی کے لئے ہی استعمال کرتے ہیں۔ ہم پاکستانی مسلمانوں میں بھی تواہمات اور واہمات کثرت سے پائے جاتے ہیں جو کہ ہندو کلچر سے قربت کا نتیجہ ہیں۔

بہت ساری کمیونٹیز میںیہ واہمات اور تواہمات نسل در نسل چلتے ہیں جیسے کہ چینی نسل کے لوگوں کی اکثریت تاؤ ازم یا تھاؤ ازم کی پیرو کار تھی مگر جب ماؤ زے تنگ کی کیمونسٹ حکومت بر سر اقتدار آئی تھی تب کیمونسٹ حکومت کے زیر اثر چینوں نے کسی اللہ، گاڈ ،ایشور، بھگوان کے وجود سے تو انکار کردیا تھا مگر ان تواہم کو وہ اپنے اذہان سے کھرچ نہ سکے تھے جو کہ نسل در نسل ان میں چلے آرہے تھے انہی تواہم کا اثر یہ ہے کہ ہن یا ہان نسل کا چینا خواہ کرسچیئن ہو جائے یا یہودی بن جائے۔

وہ سکھی اختیار کرلے یا پھر ہندو مت میں غرق ہوجائے ۔وہ خود کو مسلم کہلوانا شروع کردے یا پھر اپنے آپ کو بے دین تصور کرے وہ چینا(چائینیز) ہی رہتا ہے ۔ یعنی کہ پہلے اور بنیادی طور پر وہ ایک چینا ہے اور پھر اس کے بعد ہی وہ کچھ اور ہے۔
ملک ِچین کی اکثریت بے دین تصور کی جاتی ہے اور وہ کسی بھی مالک اور خالق کے منکر ہونے کا دعویٰ بھی کرتی ہے ۔ان کا یہ دعویٰ محض دعوے کی حد تک ہی ہے ورنہ اندر سے تو ہر ہن یاہان نسل کا مرد اور عورت تاؤ ازم کا قائل ہے کوئی شعوری طور پر اور کوئی غیر شعوری طور پر۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ چینی نسل کے امرا اورملکِ چین کے اعلیٰ عہدے دار بشمول کیمونسٹ پارٹی کے لیڈرز فنگ شی کے دل سے قائل ہیں اور انہوں نے جب بھی کوئی اہم کام کرنا ہوتا ہے یہ لوگ لاکھوں ڈالرز فنگ شی کے ماہرین کی نذر کرتے ہیں اور ان کے علم سے استفادہ حاصل کرتے ہیں ۔

ان استفادہ کرنے والوں میں ہر عقیدے کے چینی نسل کے لوگ شامل ہوتے ہیں ایک خالق اور مالک کے قائل بھی اور متعدد خداؤں کو ماننے والے بھی یہاں تک کے کسی خالق کی ذات کے منکر بھی۔

یہ فنگ سی یا فونگ شی کیا ہے؟ یوں سمجھیں کی جس طرح سے ہندو بچاری یا برہمن نجس یا سعد بتاتے ہیں چینی نسل کے تھا ؤ ازم کے پروہت بھی یہی کام کرتے ہیں ۔ سبھی لوگ جانتے ہیں کہ چین ایک کیمونسٹ ملک ہے اور کیمونسٹ تو مذہب کو افیون قرار دیتے ہیں اور کسی خالق کے قائل بھی نہیں ہیں ایسے بے دین یا ایتھیسٹ لوگوں کو تو سعد اور نجس کا قائل ہی نہیں ہونا چاہئے مگر دل چسپی کی بات تو یہ ہے کہ چین کے چھوٹے ہی نہیں کیمونسٹ پارٹی کے بڑے بڑے عہدے دار بھی کسی نہ کسی وہم اور وسوسے کا شکار رہتے ہیں اس لئے وہ کوئی بھی بڑا یا چھوٹا کام کرنے سے قبل فنگ شی کے ماہرین سے رائے ضرور طلب کرتے ہیں۔

یہاں ہانگ کانگ میں وفاقی حکومت یعنی کہ بیجنگ والوں کی بے شمار بلڈنگز ہیں اور ہر بلڈنگ کی تعمیر سے قبل کیمونسٹ چین کے اعلیٰ عہدیدارو ں نے فنگ شی(فونگ شوئی) کے ماہرین سے رائے ضرور طلب کی ہے ۔ان دو تین صفحات میں ان سبھی بلڈنگز کی مثالیں دینا تو ناممکن ہے اس لئے ایک ہی بلڈنگ کی مثال دینا ہی مناسب ہے اور یہ عمل درست بھی ہے کیونکہ سیانے کے آدمی کے لئے ایک مثال ہی کافی ہوتی ہے جب کہ بے وقوف کے سامنے توا گر آپ ساری کی ساری ہیر وارث شاہ پڑھ بھی ڈالیں گے تو ہیر وارث شاہ کے خاتمے کے بعد بے وقوف آپ سے یہ سوال ضرور بہ ضرور کرے گا کہ ہیر مرد تھی کہ عورت تھی ؟ میری یہ تحریر ویسے بھی بے وقوف لوگوں کے لئے نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میرا مخاطب تو ہمیشہ ہی سیانے اور سمجھدار لوگ ہی ہوتے ہیں۔

ہر ملک میں بنک اور بنکاری نظام اس ملک کی معیشت اور اقتصادی نظام کے استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔چین میں بھی بنکاری نظام دنیا کے دیگر ممالک کے بنکوں کی طرح سے جدید ترین ہی ہے بنک آف چائنا چین کا ایک اہم بنک ہے اس نے ملک کے تمام بڑے شہروں بشمول ہانگ کانگ میں بڑی بڑی اور بلند وبالا عمارات تعمیر کروائیں ہیں ۔ہانگ کانگ میں بنک آف چائنا کا ریجنل ہیڈ کوارٹر ہے جو کہ فارایسٹ کے علاقے کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس ریجنل ہیڈ کوارٹر کی عمارت دنیا کے دیگر بڑے بڑے بنکوں کی عمارات کے درمیان ہی سینٹرل میں بنائی گئی ہے جو کہ ہانگ کانگ آئی لینڈ کی سب سے مشہور اور مہنگی ترین جگہ ہے اور یہیں پر ہی دیگر عالمی اداروں اور بنکوں کے ہیڈ کورٹرز اور ان کی ذاتی عمارتیں بھی ہیں۔

جب اس بنک کو تعمیر کرنے کا مرحلہ آیا تھا تو اس بنک کے کرتا دھرتا لوگوں اور ڈائریکٹرز نے تعمیر سے قبل فنگ شی کے ماہرین سے مشورہ کیا تھا انہوں نے جو مشورہ دیا تھا اس مشورے کی روشنی میں بنک آف چائنا کی جو عمارت تعمیر کی گئی ہے اس کی شکل تلوار نما ہے اس عمارت کے چار کونوں کی بجائے تین کونے ہیں اس طرح سے فنگ شی والوں نے اس طرز تعمیر سے دو مقاصد حاصل کئے ہیں پہلا تو یہ کہ عمارت چارکونوں والی نہیں ہے یعنی کہ سیئی کوک (چکور)نہیں ہے بالفاظ دیگر چار کے عدد یعنی کہ موت سے اجتناب کیا گیا ہے دوسرا یہ کہ اس عمارت کے ہر کونے کو کسی دوسری اہم عمارت کی طرف یوں رکھا گیا ہے کہ اگر ہم بنک آف چائنا کی اس عمارت کو دور سے اور کسی بلند مقام سے دیکھیں تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ ایک عظیم اور تیز دھاری تلوار ہے جو کہ ارد گرد کی عمارتوں کو اپنی تیز دھار سے کاٹنے کو تیارکھڑی ہے ۔فنگ شی کے ایک ماہر کے مطابق اس طرح سے یہ اپنے خزانے کی حفاظت کر رہی ہے۔

پس چینی قوم کے لوگو ں کی اکثریت دنیا کی دوسری کافر اقوام کی طرح سے وہمی ہی ہے ان کی اس وہمی طبیعت اور عادت کا مجھے علم ہے اسی لئے میں عام چائینیز تو ایک طرف رہے فنگ شی کے ایک ماہر کو بھی دہلائے رکھتا ہوں جیسے چائنیز لوگ آٹھ کے عدد کو بہت لکی سمجھتے ہیں اس لئے وہ ایسی گاڑی جائداد یا کوئی اور ایسی ہی چیز پسند کرتے ہیں جس میں ایک آدھ آٹھ کا عدد ضرور آتا ہو ۔میں ایسے چینوں کو یوں ڈراتا ہوتا ہوں کہ اگر ہم آٹھ کو سپلٹ کر دیں تو دو چار یعنی کہ دو سیئی ( دو اموات ) ہوتے ہیں ۔اب جب کہ دوہزار گیارہ قریب ہی ہے تو میں کئی چینوں بشمول ایک فنگ شی کے ماہر کو یہ کہتا ہوتا ہوں کہ ٹو تھاؤزنڈ الیون (2011) 1+1+0+2 =4کا سنگل ڈجٹ چار بنتا ہے یہ سال تمہاری قوم کے لئے بہت سخت ثابت ہوگا تو ان کے چہرے اتر جاتے ہیں۔

میری اپنی قوم میں بھی وہمی لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ہمارے ملک میں وہمی لوگوں کی جتنی اوسط متوسط طبقے کے افراد میں ہے غربا میں یہ اوسط متوسط طبقے سے دوگنی سے بھی زیادہ ہے اور غربا میں جتنے لوگ وہمی ہیں وہ تو ان لوگوں کا عشر عشیر بھی نہیں ہےں جتنے لوگ ہمارے امر اءاور حکمران طبقات میں پائے ۔سچ تو یہ ہے کہ ناجائز حربوں سے ترقی پانے والے اور دوسرے انسانوں کا حق مار کر زرو دولت اکھٹی کرنے والے سبھی لوگ وہمی اور کمزور اعصاب کے مالک ہوتے ہیں ان کو دولت مندی اور اعلیٰ رتبوں کی بلندی سے نیچے گرنے کا وہم اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ ہر سچے جھوٹے پیر فقیر کے پاس جاتے ہیں اور ہر دربار اور آستانے پر سجدے کرتے نظر آتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر طبقے کی خواتین اپنے ہی طبقے کے مردوں کی بہ نسبت بہت ہی زیادہ وہمی اور کمزور ایمان والی ہوتی ہیں اور ایسی کمزور ایمان والی عورتوں سے نام نہاد جعلی اور دنیا دار پیر فقیر اور مرشد بڑا کچھ حاصل کر لیتے ہیں جس کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔

کچھ نوجوان میرے سے یہ سوال بھی کیا کرتے ہیں کہ کفار کی دعائیں بھی قبول ہو جاتی ہیں اور مشرکین کی منتیں بھی با مراد ہوتی ہیں ؟ تو میں ان کویوں سمجھاتا ہوتا ہوں کہ رب کو کسی بھی بشر نے نہیں دیکھا اس لئے ہر شخص کو رب اپنے گمان جیسا ہی دکھائی دیتا ہے اور اللہ رازق کل جہاں کے رب ہیں اس لئے وہ کو ہر شخص کو اس کے ایمان اور عقیدے کے مطابق ہی عطا فرماتے ہیں۔ خواہ و ہ شخص ایمان لے آئے یا کفر و شرک کرے عطا کرنا رب کریم کی ربی صفت ہے اور یہی شان ربوبیت ہے۔

ہمارے ملک میں جیسے جیسے معاشرتی اور معاشی تفاوت بڑھتی جارہی ہے ویسے ویسے درمیانہ طبقہ معدوم ہوتا جا رہا ہے یوں لگتا ہے کہ جلد ہی ہمارے ملک سے درمیانہ طبقہ ختم ہو جائے گا اور پھر پاکستان میں صرف اور صرف دوطبقات یعنی کہ انتہائی غریب اور انتہائی امیر رہ جائیں گے تب ہمارے ملک میں اخلاقیات کا کیا حشر ہوگا ؟ اس کے تصور سے ڈر لگتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک یا معاشرے میں درمیانے طبقے کے لوگ ہی اخلاقی اور مذہبی قدروں کے پابند ہوتے ہیں اور وہی اپنی قوم و ملت کی اخلاقی اقدار کے محافظ بھی ہوتے ہیں اگر ہمارے ملک میں درمیانہ طبقہ ہی نہ رہا تو ان مذہبی اور اخلاقی اقدار کی حفاظت نہ تو امرا کریں گے اور نہ ہی وہ لوگ کریں گے جن کے تن پر پوراکپڑا نہ ہوگا اور نہ ہی پیٹ میں پوری روٹی ہوگی۔

ہمارے موجودہ حکمران اس وقت صہیونیوں کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے درمیانے طبقے کو نیست ونابود کرنے پر تلے ہوئے ہوئے ہیں اور ہمارے ملک میں مہنگائی بدامنی اور لاقانونیت حکومتی کاروبار بن گئی ہے ایسے میں درمیانے طبقے کے لوگ بھی مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں اور امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے ہیں ۔میرا تعلق بھی درمیانے طبقے سے ہی ہے اس لئے میں اپنے طبقے کی مایوسی رنج وغم اور صدمے کی حالت کو محسوس کر سکتا ہوں جو کہ اصلاح معاشرہ کے قائل درمیانے طبقے کے لوگ محسوس کر رہے ہیں میں ان کو مایوسی سے نکالنے کے لئے کہتا ہوتا ہوں کہ دیکھو ! انسانوں اور قوموں کی زندگی میں چالیس کا عدد بہت اہم ہو تا ہے جیسے کہ ہمارے دین میں بھی ہے وہ یوں کہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی چالیس سال کی عمر میں نازل ہوئی تھی اور جب بنی اسرائیل نے اللہ مالک کے حکم کو نہ مان کر موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں جہاد کرنے سے صریحاً انکار کر دیا تھا تو اللہ قہار نے اس بھٹکی ہوئی قوم کو مزید چالیس سال تک صحراؤں میں بھٹکائے رکھا تھا۔ میں درمیانے طبقے کے اصلاح پسندوں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کرتا ہوں کہ دوہزار گیارہ میں سقوط ڈھاکہ کو چالیس سال مکمل ہو جائیں گے یوں ہماری جدوجہد کا چلہ مکمل ہو جائے گا ۔

(دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ چالیس اور دوہزار گیارہ کا حاصل واحد عدد چار ہی بنتا ہے جو کہ کفار کے نزدیک موت کا عدد ہی ہے ۔یہ بات میں ایمانی کمزوری کی بنا پر نہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کہتا ہوتا ہوں) اگر ہم مایوسی کا شکار نہ ہوں اور امید کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اپنی ذاتی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کی فلاح کا کام بھی کرتے رہیں گے تو ہوسکتا ہے اور یہ عین ممکن بھی ہے کہ اللہ مسبب الاسباب ہماری نیک نیتی اور خلوص دیکھ کر ہماری مدد کو آسمان سے فرشتے نازل فرمائیں اور ہمیں مکمل فتح عطاءفرمائیں اور مسلمین کے دشمنوں کو موت سے ہم کنار کردیں کیونکہ دوہزار گیارہ کمزور ایمان اور منافقین کے عقیدے کامطابق موت کا سال ہے اور اللّٰہ عالم الغیب ہر شخص کو اس کے عقیدے اور ایمان کے مطابق ہی عطاءفرماتے ہیں۔

یہودیت کی سیاہ کاریاں اور مہذب دنیا کی ڈیوٹی


یہودیت کی سیاہ کاریاں اور مہذب دنیا کی ڈیوٹی
صہیونیوں و یہودیوں نے اپنی مرکرنیوں و شاطریوں سے ایک طرف امریکہ سمیت مغرب کے زرائع ابلاغ، اقتصادیات صنعت و حرفت اور مالیاتی اداروں پر دادا گیری قائم کررکھی ہے تو دوسری طرف روئے ارض پر ہونے والے غیر قانونی کاروبار، انسانی اعضاوں کی تجارت و منشیات کی اسمگلنگ کا مذموم و غیر انسانی دھندے کا کریڈٹ بھی صہیونیوں کو حاصل ہے۔

حال ہی میں کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ منشیات کی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کو کنٹرول کرنے اور گلوبل اقتصادی نظام کو چلانے والے ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔امریکہ میں انسانی اعضاوں کی سمگلنگ کے الزام میں دھر لئے جانے والے یہودیوں نے انکشاف کیا کہ اسلحے منشیات اور منی لانڈرنگ کے کاروبار میں امریکہ کے کئی بنک شریک کار ہیں۔ منشیات کی سمگلنگ سے حاصل کئے جانیوالے کالے دھن کو صہیونیوں کے بنک تحفظ دیتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ اور اٍسرائیل نے دوسرے ممالک پر جارہیت کے لئے ہمیشہ کالے دھن کو استعمال کیا۔افغان جنگ میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لئے امریکہ اور روس کے صہیونیوں نے منشیات سے کمائی جانے والی دولت کو خوب استعمال کیا۔ افغان سوویت جنگ کے زمانے میں سی ائی اے کے سربراہ کیسی نے اپنی سوانح عمری میں تسلیم کیا ہے کہ افغان وار کے بے بہا اخراجات منشیات کی سمگلنگ سے حاصل کئے گئے۔

طالبان نے اپنے دور میں ڈرگز و پوست کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی تو امریکہ کے صہیونی مافیا پر سکتہ طاری ہوگیا۔مغربی تجزیہ نگاروں نے افغانستان پر امریکی حملے کو صہیونی مافیا کا کارنامہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ منشیات کے صہیونی تاجروں نے افغانستان کو دوبارہ پوست کی کاشت کا گڑھ بنانے کے لئے بش انتظامیہ کو کابل پر جنگی شب خون مارنے کے لئے اکسایا۔

کابل میں کرزئی کے سربراہ سلطنت ہونے کے بعد پورے دیس میں پوشت کی کاشت و منشیات کی سمگلنگ کا کاروبار زوروں پر ہے۔کرزئی کے بھائی کے ساتھ ساتھ افغان پارلیمنٹ کے اسی فیصد ممبران اور وزرا منشیات کے سمگلر ہیں۔منشیات کے تاجر جنگوں میں کیوں دلچسپی رکھتے ہیں یہ ایسا سوال ہے جس پر بحث ہونی چاہیے۔

امریکی ریاست میکسیکو کو مغرب میں منشیات مافیا کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے جہاں حالات اٍتنے گھمبیر ہوچکے ہیں کہ منشیات مافیا اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان آئے روز مسلح جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔میکسیکو کو منشیات کے کاروبار کا ہیڈ کوارٹر کہنا بے جا نہ ہوگا کیونکہ یہاں کے ڈرگ مافیاز کے تانے بانے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے نیٹ ورکس سے جا ملتے ہیں۔میکسیکو کی ریاستی حکومت تو منشیات کے اسمگلروں کو زنجیروں میں جکڑنا چاہتی ہے مگر امریکہ کو اٍس سے کوئی دلچسپی نہیں۔

میکسیکو کے صدر فلپ تو پچھلے تین سالوں سے منشیات کی تجارت کا قلع قمع کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کررہے ہیں مگر اسے کامیابی نہ مل سکی۔میکسیکو کی سرحدوں پر خانہ جنگی ہورہی ہے۔میکسیکو میں منشیات کا کاروبار پچھلے چالیس برسوں سے جاری ہے جسکی بنیاد امریکن میڈیا میں گاڈ فادر کے نام سے شہرت پانے والے صہیونی غنڈے میر لین سکائی نے رکھی تھی۔

میکسیکو کے صدر فلپ نے حال ہی میں اوبامہ سے مطالبہ کیا کہ وہ حکومتی کیمپ میں موجود ان کالی بھیڑوں کو نکالا جائے جو ڈرگ مافیا کی پشت پناہی کرتے ہیں۔فلپ نے وائٹ ہاوس کو طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بھی ڈرگز مافیا کے اٍعانت کندگان و بہی خواہ موجود ہیں۔

صدر فلپ نے اوبامہ سے ملاقات کے دوران آہ و فغاں کرتے ہوئے پشین گوئی کی کہ اگر امریکہ نے اپنے قوانین تبدیل نہ کئے تو میکسیکو ہمیشہ کے لئے جہنم بن جائے گا اور اٍس جہنم پر ڈرگ مافیاز کے ایجنٹ حکومتی دربان کا کردار نبھائیں گے۔صہیونی ڈرگ مافیاز کی قوت کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں امریکی انتظامیہ کے اعلی عہدیداروں نے ڈرگ مافیا اور میکسیکو حکومت کے درمیان ڈیل کی کوششیں کیں جو صدر فلپ نے پائے حقارت سے مسترد کردیں۔

صدر فلپ کی داستانٍ غم سے یہ بات اشکار ہوتی ہے کہ منشیات کے بے نکیل اسمگلروں اور وائٹ ہاوس میں براجمان صہیونی سرمایہ کار وں و بینکرز کے درمیان چولی دامن کی رشتہ داری و قربت موجود ہے۔میکسیکو کے ایک فوجی کرنل نوفل نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ منشیات مافیا عالمی تنظیم کا روپ دھار گئی ہے جس میں لاکھوں ایجنٹ شامل ہیں جنہیں حکومتی اداروں کے مقابلے میں زیادہ تنخواہیں دی جاتی ہیں۔

پاکستان میں میکسیکو کی طرح سوات میں پاک فوج کے ساتھ لڑنے والے انتہاپسندوں کو بھی بھاری تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں منشیات فروشی کے نیٹ ورکس پر سی ائی اے و موساد کا اہنی کنٹرول ہے۔ڈرگ مافیاز کی مدد سے ہی ویت نام، عراق و افغان جنگ لڑی گئی۔عراق ایران جنگ میں روس امریکہ اور تل ابیب کے ڈرگ مافیاز نے اہم کردار ادا کیا۔

ڈرگز، منشیات،منی لانڈرنگ اور غیر قانونی اسلحے کی سمگلنگ کو صرف ایک ہی عنصر تقویت دیتا ہے اور وہ ہے بنکنگ و مالیاتی نظام و انتصرام۔کالے دھن سے کمائی گئی دولت کو صہیونیوں کے بنک و اٍدارے مطلوبہ اہداف تک بااسانی پہنچاتے ہیں۔امریکی فیڈرل ریزرو بنک کے درجنوں سیکنڈلز میڈیا کی زینت بنے جن میں ڈرگ مافیاز بھی شامل تھے۔

یہ ڈرگ مافیاز ہی ہیں جنکے کرتے دھرتے امریکی حکومت گرانے کی طاقت رکھتے ہیں اور اٍن ڈرگ مافیاز کو صہیونیوں نے قابو کررکھا ہے۔سی ائی اے دنیا اور خاص طور پر امریکی قوم کو دھوکہ دینے کے لئے گاہے بگاہے ہالی وڈ کو استعمال کرتی رہتی ہے ۔فلموںمیں باور کروایا جاتا ہے کہ امریکی ریاستوں میں ہونے والی گڑ بڑ میں دوسرے ملکوں کے ڈرگ مافیاز ملوث ہیں۔

1939 سے ہی انڈر ورلڈ کی ڈوریں صہیونیوں کے سپرد ہیں۔نومبر2002 میں امریکی اخبار ابزرور نے اپنی رپورٹ میں صہیونیوں کی ابلیسیت کو عیاں کرکے تہلکہ مچادیا کہ یہودی و صہیونی اقوام میں قابل عزت سمجھے جانے والے تلموزی یہودی ڈرگ مافیاز کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ابزرور نے ہی لکھا تھا کہ صہیونی بنکار ڈرگ مافیاز کی دولت کو اسرائیل منتقل کردیتے ہیں۔

امریکی مصنف سیلے دیتون نے اپنی کتاب BLUE GRASS CONCIPIRACY میں صہیونی ڈرگ مافیاز کی بد اعمالیوں کو اجاگر کیا تو سیلے کو ڈرگ مافیاز کی سفاکیت کا صدمہ سہنا پڑا اور وہ قتل ہوگئے۔امریکی مصنف سالویڈر کی کتابopium lords میں درج ہے کہ تل ابیب ڈرگ مافیا کا ہیڈ کوارٹر ہے اور امریکی صدر کینڈی کو بھی صہیونی ڈرگ مافیا نے ہلاک کروایا۔

یروشلم پوسٹ نے اگست کی اشاعت میں لکھا کہ دنیا میں جتنے بھی ڈرگ مافیاز کے ڈان ہیں وہ عبرانی زبان پر عبور رکھتے ہیں اور اٍس کرہ ارض پر جتنے ملک ہیں وہاں کے ڈرگ مافیاز کو ایف بی ائی کنٹرول کرتی ہے اور ایف بی ائی کو موساد ہدایات جاری کرتی ہے۔یاد رہے کہ سی ائی اے کے دو سرخیلوں wilium j kasi کو1986 جبکہ edegar hover کو1972ء میں صہیونی ڈرگ مافیا مرواچکا ہے۔

اسرائیل اسلحے سے لیکر منشیات اور انسانی اعضاوں سے لیکر عورتوں کی سمگلنگ کا ہیڈ کوارٹر بن چکا ہے۔دنیا بھر میں ہونے والے تمام غیر قانونی بزنس اور جرائم کو اسرائیل میں تحفظ ملتا ہے۔امریکہ کا کوئی صدر صہیونیوں کی معاونت کے بغیر وائٹ ہاوس میں داخل نہیں ہوسکتا اور یہ وہی صہیونی لابی ہے جو ایک طرف ڈرگ مافیا کی دادا گیر ہے تو دوسری طرف یہی لابی انٹرنیشنل اور امریکن اقتصادیات و مالیات کو اپنے بنکوں کے ذریعے اپنے خونخوار جبڑوں میں جکڑے ہوئے ہے۔

دنیا میں اس وقت تک جرائم، جنگوں، دنگوں اور اسلحے کی سمگلنگ کا خاتمہ نہیں ہوسکتا جب تک صہیونی سرمایہ داروں کا تخلیق کردہ مالیاتی نظام ختم نہیں ہوجاتا۔یہودی دولت کے حصول کے لئے دنیا کا کوئی مکروہ ترین کاروبار کرنے سے نہیں چوکتے۔

صہیونی ڈرگ و مالیاتی مافیاز کو ختم کئے بغیر اللہ کی زمین پر امن قائم نہیں ہوسکتا۔مہذب دنیا جس میں چاہے گورے ہوں یا کالے یورپین ہوں یا ایشیائی وہ فلپ کی شکل میں میکسیکو کا صدر ہو یا ایران کے احمد نژاد کے روپ میں وہ پاکستان کا شہری ہو یا سعودی عرب کا مسلمان۔صہیونیوں کی فتنہ گریوں کو روکنے کے لئے ساروں کو متحد ہونا پڑے گا ورنہ ایک طرف منشیات انسانیت کو سسکا سسکا کر مارتی رہے گی تو دوسری طرف دنیا کے کونے کونے میں خون کے سمندر بہتے رہیں گے۔

کیا یہ ساری دنیا کی بد نصیبی نہیں کہ روئے ارض پر موجود چھ ارب سے زائد انسانوں کو کل ابادی میں س صرف0.2 کا حصہ رکھنے والے یہودیوں و صہیونیوں نے یر غمال بنا رکھا ہے۔

Monday, October 19, 2009

عمروبن عاص ByMuhammadAmirSultanChishti923016778069

عمروبن عاص
:
عمروبن عاصنام
667ئتاریخ پیداءش
وجھ شھرت
عمروبن عاص نے شام اور فلسطےن کو بھی فتح کےا ?لےکن آپ کا اصل کارنامہ مصر کی فتح ہے۔ ےہی آپ کی وجہ شہرت بھی بنی۔
خود رسول اکرم نے سریہ ذات السلاسل کی امارت کے لیے عمروبن عاص کو منتخب فرمایا

آپ قریش کے ایک مشہور قبیلہ سہم سے تھے ۔ یہ قبیلہ کعب پر آکرپیغمبراسلام علےہ الصلوة والسلام کے نسب سے جا ملتا ہے۔ شعر وادب اور سخاوت ومہمان نوازی اس قبیلے کا امتیازی وصف ہے عمروبن عاص کی ولادت واقعہ فیل سے چھ سال بعد مکہ میں ہوئی۔ آپ کے والد عاص کی دو بیویاں تھےں۔ ایک سلمہ دوسری ہرملہ مگر اسلام کی سعادت صرف سلمہ ہی کے اس بیٹے عمروبن عاصکونصیب ہوئی فتوحات اسلامی مےمی جن کا نام خاص طور پر نمایا ں ہے ۔ اگرچہ اس زمانے میں لکھنے پڑھنے کا کوئی خاص رواج نہ تھا۔ تاہم عمروبن عاص نے باقاعدہ طور پر لکھنا پڑھنا سیکھ لیا اور اس میں کافی حد تک مہارت بھی پیدا کرلی تھی ۔ نیز معاملہ فہمی?دوراندیشی?عزم و استقلال?ہمت اور اولوا لعزمی توانہیں ورثے میں ملی تھی۔اسلام سے عداوت اور دشمنی قریش کے دوسرے قبیلوں کی طرح بنی سہم کو بھی خاص طور سے تھی ۔ عاص بن دائل اور خود عمروبن عاص کا نام جہالت کے ایام میں اسلام کے دشمنوں کی فہرست مےں تھا حتی کہ عمروبن عاص نے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی تھی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اب ان کی عداوت اور دشمنی کا رخ کفر کے مٹانے کی طرف پھر گیا۔ انہوں نے اس بات کا عہد کیاکہ اب اس کے بعدمیری تمام ذہنی اور جسمانی صلاحیت اسلام ہی کی خدمت اور مسلمانوں ہی کی ترقی اور حفاظت میں صرف ہوگی

یہ بات عمروبن عاص کے اسلامی جذبات ہی کانتیجہ تھی کہ انہیں حضورنے بعض اہم غزوات وسرایا کی امارت سپرد فرمائی۔ صحیح بخاری مےں لکھا ہے بلکہ یہ بات خود عمروبن عاصہی نے بیان کی کہ ایک مرتبہ پیغمبراسلام نے مجھے کہلا بھیجاکہ مےں فوج کی وردی اور ہتھیار پہن کر ان کی خدمت میں حاضر ہوجاو?ں۔ خود رسول اکرم نے سریہ ذات السلاسل کی امارت کے لیے عمروبن عاص کو منتخب فرمایا اور انہیں اپنے دست مبارک سے ایک سفید علم بھی عنایت کےا۔ جب اسلام کا لشکر سر جذام کے چشمے?سلاسل ? پہنچا تو معلوم ہوا کہ معرکہ سخت اور دشمنوں کی فوج اسلام کے لشکر کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ حضرت عمروبن عاص نے اس کی اطلاع حضور کی خدمت مےں بھجوائی اور حضور نے اسی وقت دوسو صحابہ کو جن مےں سیدناابوبکر صدیق ?سیدنا عمرفاروقاور حضرت ابو عبیدہ ابن الجراح ایسے جلیل القدر صحابہ بھی شامل تھے بطور کمک بھیج دیا اور نصیحت فرمائی کہ سب مل جل کر رہنا ?کسی سے کوئی اختلاف نہ کرنا۔بلاذری نے لکھا ہے کہ قضاعہ کے علاقے میں پہنچ کر حضرت عمروبن عاصنے ایسی شجاعت اور بے جگری سے حملہ کےا کہ دشمن بری طرح پسپاہوا۔ ہزاروں آدمی مارے گئے اوربے شمار مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا ۔ اس مہم سے فارغ ہونے کے بعد عمروبن عاص ایک اور مہم پر بھیجے گئے ۔ یہ سریہ سواع تھا?جو بنی بذیل کے مشہور بت خانے سے متعلق تھا ۔ یہ بت?جوایک عورت کی شکل پر تھا ۔ مکہ سے تین میل کے فاصلے پر تھا۔ قبیلہ بذیل کے لوگ اس کو خدا سمجھتے تھے ۔ حضور نے اس بت کو ڈھانے کے لئے عمروبن عاصکو مقرر فرمایا۔

اس مہم کے بعد پھر عمروبن عاص کو کئی ایک قبیلوں سے خراج وصول کرنے کی مہم پر مقرر فرمایا گیا۔ جن مےں نجرین?سعد ہذیم?عذرہ?جذام ?جدس اور خزارہ ایسے قبیلے شامل تھے ۔ جنہوں نے جذیہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ حضرت عمروبن عاصان قبائل کے پاس گئے اور ان سے رقمیں وصول کیں اور پائی پائی لاکر حضور کی خدمت اقدس میں پیش کردی۔حضرت عمروبن عاص تنہا شجاعت اور تلوائی کے دھنی نہ تھے ۔ فہم وفراست ?تدابیروسیاست میں بھی قدرت کا وافر حصہ پایا ۔ چناچہ حضورنے ان کی جنگی مہارت اور سیاسی بصیرت کو دیکھتے ہوئے اہلیت اور صلاحیت پر انہیں اسلامی سفارت کا عہدہ بھی تفوض فرمایا۔حضور کی رحلت کے بعد ابوبکر صدےق خلیفہ ہوئے تو بے حد نازک وقت تھا ۔ جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور انہیں ذاتِ رسالت مابکی بابرکت صحبت میسر نہ آسکی ۔ وہ اسلام کی تعلیمات کو پورے طور پرنہ سمجھنے کے باعث دین سے پھر گئے اور ان سب نے بیک زبان زکوةدینے سے انکار کردیا۔ ہر چند ان حالات نے ابوبکر صدیق کو بڑی مشکل مےں ڈال دیا تھا ۔ تاہم انہوں نے نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے کی پورے طور پر ٹھان لی۔

حضرت ابوبکر صدیقنے حضرت عمروبن عاص کو بارگاہ خلافت میں طلب کیا اور وہ حکم کی تعمیل مےں عمان سے مدینے کو چل کھڑے ہوئے۔ راستے میںبنو عامر کے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔زکوة کے منکروں کی سرکوبی کے بعد حضرت عمروبن عاصمدینے سے ہوکر پھر عمان چلے گئے۔ لیکن ابوبکر صدیق کو جلد ہی پھر ان کی ضرورت پڑگئی اور انہیں بلا بھیجا۔ چنانچہ حضرت عمروبن عاصپھر مدینے پہنچ گئے ۔یہ موقع شام کی مہم کا تھا۔ ابوبکر صدیق نے شام کی مہم پر جانے والے لشکر کوچار حصوں میں تقسیم کیا۔ جب عمروبن عاص اپنے لشکر کے نو ہزار سر فروش مجاہدوں کو لے کر مدینے سے چلنے لگے ، تو سیدنا ابوبکرصدیق نے انہیں چند باتیں نصیحتوں کے طور پر اشارہ فرمائیں اور آخرمیں فرمایا ?اے عمروبن عاص جاو? اﷲ کی برکت اور اس کی رحمت تمہارے ساتھ ہے۔جب دونوں طرف سے فوجوں کی صف بندی ہوچکی اور ابتدائی انتظامات مکمل ہوئے?تب جنگ کا آغاز ہوا۔ جونہی رومیوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا وہ ان کے حملے کا بڑھ بڑھ کر جواب دینے لگے۔ حتی کہ لڑائی تمام دن جاری رہی۔ آخر مسلمانوںنے رومیوں کو بھگا دیا ۔ لیکن رومیوں کے بھاگتے ہوئے سپاہیوں نے پلٹ کے پیچھا کرنے والے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ اس حملے مےں حضرت عمروبن عاص کے سوتیلے بھائی سعیدبن خالد شہیدہوگئے ۔ جن کے صدمے سے آپ بے حد ملول ہوئے اور مسلمانوں کو للکاراکہ?اے بھائیو!سعید بن خالد بھی عالم بقامےں چل دیے ہےں اور اب مےں بھی جاناچاہتاہوں۔ تم مےں سے کوئی ایسا ہے جو میرا ساتھ دے گا۔?اس پر صحابہ کی اےک جماعت مستعد ہوگئی اور ایسی بے جگری سے لڑی کہ اےک ہی حملے مےں پندرہ ہزار سپاہیوں کو کاٹ کے رکھ دیا۔ اور سر زمےن فلسطین فتح کرلی۔ اس لڑائی مےں جو مسلمان شہید ہوئے۔ مورخےن ان کی تعداد صرف ایک سوتین بیان کرتے ہیں ۔

عمروبن عاص نے شام اور فلسطےن کو بھی فتح کیا?لیکن آپ کا اصل کارنامہ مصر کی فتح ہے۔ یہی آپ کی وجہ شہرت بھی بنی۔ مسلمانوں کو ڈر بھی تھا کہ روم کاقیصراب مصر کی طرف سے شام تک ملک پر حملہ کرے گا۔ عمروبن عاص نے اس خطرے کو ٹالنے کے لئے ضروری سمجھا کہ مصرفتح کر لیا جائے ۔ اس زمانے میں چونکہ طاعون کی وبا سے نجات ملے، مسلمانوں کو تھوڑی ہی مدت گزری تھی ۔ اور اس کے اثرات ابھی پورے طور پر زائل نہ ہوئے تھے ۔ اس لئے عمر فاروق ان حالات مےں اسلام کی فوج کو باہربھیجناپسند نہ کرتے تھے مگر حضرت عمروبن عاص کااصرار بڑھا ہوا تھا ۔ اس لئے دشمن کے خطرے کو سامنے رکھتے ہوئے رضا مند ہوگئے اور حضرت عمروبن عاص کو ایک ہزار فوج دے کر مصرکی طرف بھیج دےا۔ عمروبن عاص وادی العریش کے رستے مصر کی سرحد مےں داخل ہوئے۔ پہلے آپ نے عریش ور مح وغیرہ فتح کئے۔ پھر ایک قدیم اور تاریخی شہر فرما کو فتح کیا۔ یہ شہر کسی زمانے مےں اپنی سنگین فصیلوں? گرجوں? کلیساو?ں اور بلندعمارتوںکے لحاظ سے ساری دنیامیں مشہور تھا۔ فرماکے بعد شہر یلیں کو فتح کیا۔ جو مصر سے تیس میل کے فاصلے پر فرماکے جنوب مےں واقع ہے۔ عمروبن عاص دریائے نیل کے مغربی علاقوں کو فتح کرنے کے لئے آگے بڑھے ۔چنانچہ ?منف?پر حملہ کیا جس مےں مصریوں نے سخت شکست کھائی۔اس کے بعد انہوں نے شہر ہنساپر حملہ کےا ۔ جس میں رومی فوج کے سراغ رسانوں کی بہت بڑی تعداد مےدان جنگ مےں کام آئی اور مسلمانوں نے اس قلعے کا محاصرہ کرلیا جو کافی عرصے تک جاری رہا۔ مسلمانوں کے ڈر سے رومی قلعے میں ہی پڑے رہے۔

عین الشمس کی فتح کے بعد حضرت عمروبن عاص نے رومیوں کے مشہور قلعہ بابلیوں کا محاصرہ کرلیا۔یہ قلعہ انتہائی مضبوط اور وسیع تھا اور مصر کا بادشاہ مقوقس یہیں رہتاتھا۔اب دشواری یہ تھی کہ عمروبن عاص کے پاس نہ تو قلعہ شکن توپیںتھیں نہ زیادہ سامان حرب ۔اور مصری کھل کر سامنے آتے نہیں تھے اور اگر کبھی آتے تھے تو ایک آدھی معمولی جھڑپ کر کے پھر قلعے میں گھس جاتے تھے۔عرض اسی حال میں سات مہینے گزر گئے ۔آخر کار مقوقس گھبرا گیا اور درباریوں کی رضا مندی سے اس نے اسلامی سفیر کو طلب کیا۔عمروبن عاص نے حضرت عبادہ بن صامت کو دس آدمیوں کے ہمراہ بھیجا۔ حضرت عبادہ بن صامت کے واپس چلے آنے کے بعد مقوقس نے اپنے درباریوں سے پھر کہا کہ میرا دل کہتا ہے ۔مسلمان ہمارا قلعہ ضرور فتح کرلیں گے اس لئے مناسب یہی ہے کہ ان سے صلح کرلی جائے ۔لیکن رومی اس کی بات سن کر پھر غصے سے بپھر گئے اور اسی وقت آگ بگولہ ہو کر قلعے سے باہر نکل آئے اور آتے ہی مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔مسلمانوں کی خواہش تھی کہ رومی قلعہ سے باہر نکلیں اور کھل کر مقابلہ کریں۔اب ان کے آنے سے بہت خوش ہوئے اور بڑھ بڑھ کر داد شجاعت دینے لگے۔ حتی کہ رومیوں کے قدم اکھڑگئے اور بھاگ نکلے ۔ان انہیں بھی یہ احساس پیداہوگیا کہ مقوقس کی رائے ٹھیک ہی تھی ۔مسلمانوں سے صلح کر لینا ہی مناسب ہے۔چنانچہ مقوقس اپنے دوباریوں کے ہمراہ صلح کی درخواست لے کر عمروبن عاص کی خدمت میں حاضر ہوا۔عمروبن عاص نے اس کا نہایت فراخدلی سے استقبال کیا اور قدرے نرم لہجے میں فرمایا:?آپ بذات خود تشریف لائے ہم آپ کے ممنون ہیں۔?اس کے جواب میںمقوقس نے بھی سرجھکاتے ہوئے کہا??بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کویہ سر زمین عطا فرمادی ہے۔اب میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ رومیوں کے خلاف بالکل کوئی جنگ نہ کریں ۔?

صلح کر نے کے بعد مقوقس نے اس واقعے کی اطلاع قیصر روم کو بھجوا دی ۔ مگرقیصر روم خط دیکھتے ہی آگ بگولا ہوگیا اور اس نے فورا ایک فوج مسلمانوںسے لڑنے کے لئے مصر کی جانب روانہ کر دی۔ مقوقس یہ صورت حال دیکھ کر قلعے سے باہر چلاگیااور عمروبن عاص کو کسی سے کہلوابھیجا کہ میں اپنے عہد پر بدستور قائم ہوں۔ پھر اسی دوران میں اطلاع پہنچی کہ قیصر روم ہر قل مر گیا تو لوگوں نے کہا یہ سزا ہے مقوقس کی بات نہ ماننے کی جو خدا نے ہر قل کو اجل کے سپرد کردیا۔ اب اس کے بعد مسلمانوں نے بڑے جوش وخرش کے ساتھ رومیوں پر حملہ آ ورہونے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں جو صاحب سب سے آگے بڑھے وہ حضور کے پھوپھی زاد بھائی زبیر ابن العوام (حضرت عبد اﷲ بن زبیرکے والد ) تھے۔ انہوں نے رومیوں پر حملہ کرنے سے پہلے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا :?اے مسلمانو! میں اپنی جان اﷲ کے سپرد کر تا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اﷲ اس کے بدلے میں مسلمانوں کو ضرور فتح عطافرمائے گا۔?اوریہ کہتے ہی پھر قلعہ کی فصیل پرسیڑھی لگائی اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ جب میں نعرہ تکبیر بلند کروں تم پوری قوت کے ساتھ جواب دینا ۔ آپ تلوار ہاتھ میں لے کر نہایت پھرتی کے ساتھ دیوار چڑھ گئے اور نہایت بلند آواز سے تکبیر کہی جس کا باہر سے مسلمانوں نے پورے جوش وخروش سے جواب دیا۔ رومیوں نے اب جو تکبیر کے نعروں کاشوروغل سنا تو سمجھے کہ مسلمانوں نے قلعے کو فتح کرلیا? چنانچہ وہ اپنی جانیں بچانے کے لئے بدحواس ہوکر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ حضرت زبیر ابن العوام نے آگے بڑھ کر قلعہ کادروازہ کھول دیا۔

مہم سے فارغ ہو کر حضرت عمروبن عاص سکندر یہ کی طرف چل کھڑے ہوئے ۔اس مرتبہ آپ کی فوج میں قبطی بھی شامل تھے ۔اب عمروبن عاص ایک ماہ میں سکندر یہ ایسے مشہور تاریخی مقام کی فتح کے لئے جا پہنچے جسے مشہور عالم فاتح سکندر نے بحرابیض پر تعمیر کیا تھا۔اس موقع پر اسلامی فوج کی تعداد آٹھ ہزار یا زیادہ سے زیادہ بارہ ہزار تھی۔لیکن رومی فوج پوری پچاس ہزار تھی۔اسلامی فوج کے پاس نہ قلعہ شکن آلات حرب تھے نہ بحری جنگ کے لئے جہاز ۔رومی پورے طور کیل کانٹے سے لیس اور سر سے لے کر پیر تک لوہے میں غرق تھے۔جنگ شروع ہوگئی اور متواتر دومہینے تک جاری رہی۔ایک روز قبیلہ مہرہ کے ایک مجاہد اسلام دشمن رومیوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے اور ان کا سررومی کاٹ کر ساتھ لے گئے۔مہریوں نے عمروبن عاص سے آکر شکایت کی اور کہا کہ جب تک ہمارے بھائی کا سرواپس نہیں ملے گا ہم لاش کو دفن نہیں کریں گے۔عمروبن عاص نے کہا??بھلا رومیوں کو تمہارے غم وغصے کی کیا پروا۔اب تو ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ تم بھی کسی رومی کاسر کاٹ کر لے آو?۔جب وہ اس کی واپسی کا تقاضاکریں تم بھی واپسی کا تقاضا کردینا۔وہ اگر تمہیں سر واپس کر دیں تم بھی انہیں واپس کردینا۔?چنانچہ دوسرے ہی دن مہریاں نے رومیوں کے ایک سردار کو موقع پا کر مار گرایااور اس کا سر کاٹ کر لے آئے۔

اب رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان مسلسل جنگیں برپا ہوتے ایک سال دو مہینے پورے ہوئے۔حضرت عمرفاروق فتح کا مثردہ سننے کے لئے بے چین رہنے لگے۔حتی کہ جب انتظارکی مدت حد سے گزر گئی تو آپ نے حضرت عمروبن عاص کو لکھا :?معلوم ہوتا ہے تم بھی آرام طلب رومیوں کی طرح اب آرام پسند ہوگئے۔ورنہ فتح میں اتنی دیر کیوں ہے ۔?حضرت عمروبن عاص نے اسلامی فوج کو خط کے مضمون سے مطلع کیا۔پھر حضرت عباد ہ بن صامت سے ان کانیزہ لے کر اپنا عمامہ اتارا اور اس نیزے سے باندھ دیا?پھر اسے علم بناکر حضرت عبادہ صامت کو واپس کر دیا اور کہا??آج سے آپ علم بردار ہیں ۔? اس کے بعد حضرت زبیر ابن العوام کو حضرت مسلمہ کی فوج کا ہر اول مقرر کیا اور ساری فوج کے آگے آگے ننگی تلوار لئے خود رومیوں کی طرف بڑھے اور ایسا میدان کار راز گرم کیا کہ جب تک دشمن رومیوں کی بری اور بحری فوجوں کو شکست فاش نہ دے دی جنگ برابر جاری رکھی۔

فتح مصر کے علاوہ حضرت عمروبن عاص کا ایک قابل ذکر کارنامہ نہر سویز کی تعمیر ہے جسے انہوں نے حضرت عمرفاروق کے حکم پر بنانا شروع کیاتھا اور بہت جلدپایہ تکمیل کو پہنچا دیا۔اس نہر نے دریائے نیل کے پانی کو بحرا احمر کے پانی سے ملادیا اوراس کے ذریعے سے مصر کے غلے کو عرب کی بندرگاہ پر بھیجنے میں بڑی آسانی ہوگئی ۔اسی برس تک یہ نہر کار آمد رہی لیکن بعد میں ریت سے بھر جانے کے باعث بیکار ہوگئی۔
کتاب المعارف ابن قیتبہ اور اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ عمروبن عاص کی رحلت کاوقت جب قریب آیا تو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہوئے اور کہا:?اے اﷲ!تو نے حکم دیا میں نے سرتابی کی تو نے ممانعت کی ?میں نے نافرمانی کی۔اگر تو مجھے معاف کر دے تو مجھ پر تیرا کرم ہے اور اگر سزا دے تو میں اپنے اعمال کی بدولت اس کا مستحق ہوں ۔تاریخ وفات 667ءہے نوے سال کی عمر پائی۔

ابو عثمان عمر وبن بحر الفقیمی 923016778069


ابو عثمان جاحظ
ابو عثمان عمر وبن بحر الفقیمینام
776ئتاریخ پیداءش
وجھ شھرت
اسکی تصانیف میں سب سے زیادہ اہم کتاب ?الحیوان ?ہے جو اس نوعیت کی پہلی کتاب تھی۔اس نے جاحظ کی شہرت کو چار چاند لگا دیے
جاحظ ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔لیکن اﷲ تعالیٰ نے خزانہ کی کنجی ہاتھ میں دے کر اس کو دنیا میں بھیجا تھا

جاحظ کا نام سائنسدانوں کے بہت کم تذکروں میں ملتا ہے بعض کتابوںمیں اس کا نام ایک عالم دین اسلام ،دانا اور ایسے ادیب کی حیثیت سے درج ہے ۔جس کو عربی نثر لکھنے میں کمال حاصل تھا اس لئے یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ جاحظ کا سائنسدانوں میں شمار کہاں تک درست ہے کیونکہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ اس کا فکری رجحان سائنس سے زیادہ ادب کی طرف ہے ۔اس کی اکثر تصانیف ،یہاں تک کہ کتاب الحیوان تک پر بعض دفعہ یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ تفریح طبع کے لئے لکھی گئی ہے ۔اس کے باجود انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ علم الحیوانات کے میدان میں اس کی کوشش کو نظر اندازنہ کیا جائے ۔ابو عثمان عمر وبن بحر الفقیمی 776 ءمیں عراق کے شہر بصرہ میں ایک حبشی خاندان میں پیدا ہوا ۔پیدائشی طور پر اس کی انکھوں کے ڈھیلے باہر نکلے ہوئے تھے اس لئے لوگوں نے اسے جاحظ کہنا شروع کر دیا ۔اس کی ابتدائی تربیت گاہ بصرہ ٹھری ،جس نے اس پر ایسا رنگ جمایا کہ ایک عمر گزارنے کے بعد بھی وہ اس کے سحر سے آزاد نہ ہو سکا ۔جاحظ ایک معمولی گھرانے میںپیدا ہوا تھا جہاں نہ روپے پیسے کی ریل پیل تھی اور نہ علم اور فصاحت وبلاغت ہی کے دریا بہتے تھے ۔لیکن اﷲ تعالیٰ نے خزانہ کی کنجی اس کے ہاتھ میں دے کر اس کو دنیا میں بھیجا تھا ۔وہ بے پناہ ذہین تھا اور اس کے تجسس کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا ۔علم وحکمت کو ہم درسگاہوں کی چاردیواری یا کتابوں کے اور اق میںقیدنہیں کر سکتے ۔جاحظ کے لئے کل دنیا اور زندگی درسگاہ تھی ۔اس کو نت نئے لوگوں سے ملنے اور باتیں کرنے کا چسکا تھا ۔کبھی وہ ملاحوں سے ان کے پیشے اور زندگی کے بارے میں سوال جواب کرتا اور کبھی خانہ بدوشوں سے ان کے نظریات اور طرز زندگی کے بارے مےں گفتگوکرتا نظر آتا جب یہ ممکن نہ ہوتا تو مسجد مےں جابیٹھتاجہاں لوگ جمع ہو کر محتلف مسائل پر اظہارخیال اوربحث ومباحثہ کیا کرتے تھے پہلے تو کسی نے اس طرف دھیان نہےں دیا لیکن رفتہ رفتہ لوگوںنے غور سے بات سننے والے لڑکے کی موجودگی کو سنجیدگی سے محسوس کرنا شروع کر دیا۔ شایدیہی وجہ ہے کہ زندگی کے محتلف شبعوں ، پیشوں طبقات اور نظریات کے متعلق اس کی رائے بڑی صائب ہے کچھ ہی دنوں میں وہ لسانی تحقیقاتی اور اسی طرح کے دوسر ے علمی اور ادبی حلقوں میں شرکت کرنے لگایہ سب تو اس کی عملی تعلیم کا قصہ ہے ۔اس کے علاوہ اس کو مطالعہ کا جنون تھا۔ جو کتاب ہاتھ لگتی اسے پڑہے بغیرنہ چھوڑتا تھا۔یونانی تعلیمات اس کے لئے اجنبی نہیں تھیں اور وہ ارسطو سے متاثر تھا ۔خوش بختی سے اس کو الاصبعی ،ابوعبید اور ابو زیدجیسے با کمال اساتذہ سے فیض اٹھانے کا موقع ملا ۔ بعد مےں کسی وقت وہ بصرے سے بغداد چلا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کابیشتر وقت بغداد اور سامرہ مےں گزرا ۔بغداد اس وقت اپنے عروج پر تھا
وہاں کی علمی فضا کاجاحظ کی شخصیت کی تراش خراش میں بڑا حصہ رہا ۔اگراس کی فکری تاریخ میں بصرے کی چھاپ انمٹ تھی تو بغداد کا نقش بھی کچھ کم گہرا نہیںتھا جو بیج بصرے میں بویا گیا تھا اس کی آبیاری بغداد میں ہوئی ۔فکری اعتبارسے جاحظ کا تعلق معتزلہ سے تھا۔اس کے اس ملک کو بغدادمیں مزید تقویت ملی ۔وہ عقلیت پرست ہے اور ہر بات کو تسلیم کرنے سے پہلے عقلی دلائل طلب کرتا ہے ۔اس کو روایت پرستی سے نفرت ہے اور کسی کے قول کو بغیر تفتیش وتحقیق کے نہیں مانتا بلکہ ان لوگوں پر کڑی تنقید کرتا ہے جو آنکھ بند کر کے ہر ایک کی بات کایقین کر لیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس کے نظریات وعقائد اکثر ہمعصروں کے نظریات وعقائد سے برسرپیکار نظر آتے ہیں۔

عربی کتب میں جاحظ کی تقریبا دو سوتصانیف کا تذکرہ ملتا ہے جن میں سے بیشتر وستبرد زمانہ ہو گئیں ۔اب با مشکل تیس دستیاب ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی تصانیف بڑے لوگوں کے ناموں سے منسوب کر کے ان سے معقول رقمیں وصول کیا کرتا تھا ۔بہر حال یہ طے ہے کہ اس نے جو کچھ کمایا اپنے زور قلم سے کمایا ?کیونکہ اس کی مستقل ملاز مت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔اگرچہ اسے گاہے گاہے دربار سے وظیفے ملتے رہتے تھے اور ایک طرح کا غیر رسمی مشیر تھا ۔اس کے علاوہ خلفاءکے ساتھ نہیںلیکن امراءاور سربرآوردہ شخصیتوں کے ساتھ اس کے گہرے مراسم تھے ۔ اس کی تصانیف ہر قسم کی اور مختلف موضوعات پر مبنی ہیں ۔ بعض بہت طویل ہیں کچھ بہت محتصر اورکچھ کی خضامت اوسط درجہ کی ہے اس کے پسندیدہ موضوعات ادب ?الہیات مذہب اور سائنس ہیں ۔ نظریات اور تجربات کی حد تک اس کو کیمیامیں بھی دخل ہے لیکن سونا بنانے میں وہ کوئی خاص دلچپسی ظاہرنہیں کرتا اس کی تمام تصانیف کو دو حصوں میں تقسیم کیاگیا ایک حصہ تو دوسرے ادییوں اور مصنفوں کی تحریروں کے انتخاب اور ان کے تبصروں پر مبنی ہے دوسرا حصہ طبعزاد تصانیف اورمقالات پر مشتمل ہے ۔یہ تصانیف اپنے عنوانات کے تنوع کے اعتبار سے نہایت دلچسپ ہیں :
کتاب الحیون ? کتاب البیان والطیبین ? کتاب العثمانیہ? المعادالمعاش ? السر وحفظ اللسان? کتاب الردعلی الضاری ? رسالہ فی مناقب اترک اور کتاب الربیع والقدویر
ان تصا نےف میںسب سے زیادہ اہم کتاب الحیوان ہے ۔ہمارے علم میں یہ اس مو ضوع پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب تھی ۔یہ خضیم کتاب سات حصوں پر مشتمل اور نا مکمل ہے ۔اس کے کئی ایڈ یشن شائع ہو چکے ہیں ۔اگرچہ ان میں سے ایک بھی مستند نہیںہے ۔اس کے باوجود اس کا انگریزی ہسپانوی اور دوسرے یورپی زبانوںمیںترجمہ ہو چکا ہے ۔کتاب کی ضخامت اور موضوع دیکھ کر قاری کوخیال ہوتا ہے کہ یہ علم الحیوان کے بارے میں کوئی جامع تصنےف ہو گی ۔لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔کہ جا حظ نے صرف ان جانوروں کا تذکرہ کیا ہے جن سے اسکو خود دلچسپی ہے یا جو اسکے مشاہدے میں باآسانی آتے ہیں،باقی تمام جانوروں کویکسر نظر انداز کر دیا ہے ۔مثلا بڑے ممالیہ جانوروں ،کچھ پرندوں اور حشرات یعنی مکھیوں ? مچھروں ?بچھوو?ں اور جوو?ں کا ذکر ہے لیکن مچھلیوںکا تذکرہ نہیںہے۔شاید اس کی یہ وجہ ہو کہ اس کے پاس مچھلیوں کے بارے میں مستند مواد نہیں تھا ۔وہ ارسطو کے نظریہ حیوانات سے متاثر نظر آتا ہے لیکن اس پر مکمل انحصار نہیں کرتا اس کتاب میں بھی ادبی اور ثقافتی رنگ نمایاں ہے ۔اس نے جانوروں کے بارے میں تمام قصے ?کہانیاں ?لطیفے اور توہمات بھی بیان کی ہیں جو عربوں میں مشہورہیں ۔


ان سب باتوں کے باوجود جاحظ کے مطالعہ کی گہرائی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔اس نے جن حیوانات کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں نہایت دلچسپ اور قابل قدر معلومات مہیاکی ہیں کہ کون سے جانور دوڑتے ہیں ?کون سے رینگتے ہیں کون سے تیرتے ہیں اور کون سے اڑتے ہیں۔اس نے ممالیوں کی جگالی کے عمل کی بھی وضاحت کی ہے ۔وہ جانور کو ضرر رساں اور بے ضرر کے خانوںمیں تقسیم کرنے کے خلاف ہے ۔وہ کہتا ہے کہ ضروری نہیںوہ جانور جن کو انسان نقصان دہ سمجھتا ہے نقصان دہ ہی ہوں۔ہو سکتا ہے کہ ان جانور وں سے کسی اور مخلوق کو کسی اور طرح فائدہ پہنچتا ہو ۔اس کا ایمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کوئی چیز بغیر کسی وجہ کے پیدا نہیںفرمائی ۔ہر مخلوق کا کا رو بار دنیا میں کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے اس لئے اﷲ کی کسی مخلوق کو نقصان دہ قرار دینا غلط ہے ۔اس کے بجائے وہ جانوروں کو ان کی خوراک کی بنیاد پر یعنی گوشت خور سبزی خور کے گروہوں مےں تقسیم کرتا ہے ۔پرندوں کو اس نے شکاری اور اپنا بچاو? نہ کر سکنے والے پرندوں میں بانٹا ہے ۔اس کو جانوروں کی اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت میں دلچسپی ہے اس نے ایک اور نظریے پر بھی بحث کی ہے اس کے خیال میں اﷲ تعالیٰ کے نظام میں بغیر ماں باپ کے پیدا ہونے کی گنجائش موجود ہے ?ورنہ برف میں سے مینڈک بر آمد نہ ہوتے ۔اس نے جانوروں کی جنسی زندگی اور جنسی بے قاعدگیوںمیں بہت دلچسپی لی ہے ۔اپنے ان تمام موضوعات کی وضاحت کے لئے اکثر وہ تصویروں کا سہار ا لیتا ہے ۔سوائے ایک تصویر کے باقی تمام تصویریں ایک رنگ کی ہیں رنگین تصویر میں ایک شتر مرغ کو انڈوں پربیٹھا دکھایا گیا ہے ۔ جاحظ کا خیال ہے کہ جانور جو آوازیں نکالتے ہیں ?وہ بے معنی شور نہیں بلکہ باقاعدہ بولیاں ہیں جن کے یقینا کوئی نہ کوئی معنی ہوتے ہیں ۔اس کے خیال میں انسان میں ہر جانور کی کوئی نہ کوئی خصوصیت موجود ہے ۔اس لئے انسان کو ایک چھوٹی سی کائنات کہا جا سکتا ہے ۔

بیسویں صدی عیسوی نے جہاں اور بہت سے کام کئے وہاں ماضی کے دفینوں کو منظر عام پر لانے کا کارنامہ بھی سر انجام دیا ہے ۔ علم کے متلاشی پرانے مخطوطات کی کھوج میں رہتے ہیں ۔جاحظ کے بہت سے قیمتی نسخے دریافت ہو کر شائع ہو چکے ہیں ۔امید ہے کہ ایک نہ ایک دن ?کتاب الحیون? کا بھی کوئی مستند نسخہ ضرور شائع ہو گا

غازی علم الدین شیہد ByMuhammadAmirSultanChishti923016778069


غازی علم الدین شیہد
غازی علم الدین شیہدنام
دسمتاریخ پیداءش
وجھ شھرت
غازی علم الدین شہید ایک گستاخِ رسول ہندو راجپال کو کتے کی موت مار کر خود تختہ دار پر چھڑھ گئے۔
کچھ لوگ چھوٹی سی زندگی میں اتنا بڑا کام کر جاتے ہیں کہ ان کا نام تا قیامت زندہ رہتا ہے انہیں میں سے ایک غازی علم الدین شہید تھے۔

غازی علم الدین شہید 3دسمبر 1908ءکو محلہ چابک سواراں لاہور میں پیدا ہوئے ۔والد کا نام میا ں طالع مند تھا جو نجاری یعنی لکڑی کا کام کرتے تھے غازی علم الدین نے نجاری کا فن اپنے والد سے اور بڑے بھائی میاں محمدا لدین سے سیکھا ۔پھر 1928ءمیں کوہاٹ چلے گئے اور والد کے ساتھ بنوں بازار کوہاٹ میں فرنیچر کا کام کرنے لگے۔ غازی علم الدین نے مشہور بدنام زمانہ کتاب ?رنگیلا رسول ?کے ناشر راج پال کو ٹھکانے لگایا اور تختہ دار پر چڑھ گئے ۔اس واقعہ کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے ہندوو?ں کی شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں کو یاد رکھنا ضروری ہے جو 1920ءکی دہائی میں شروع کی گئی تھیں ۔اس سلسلہ میں ہندوو?ںنے دلآزار لڑیچر شائع کرنا شروع کیا ۔مہاشہ کرشن مدیر ?پر تاپ ?لاہور نے ایک کتاب ?رنگیلا رسول ?کے نام سے لکھی ۔مصنف نے مسلمانوں کے غم و غصہ سے بچنے کے لئے اپنی بجائے پروفیسر چمپوپتی لال ایم اے کا فرضی نام بطور مصنف لکھ دیا ۔تاہم اس کتاب پر راج پال ناشر ہسپتال روڈ لاہور کا نام درست اور واضح لکھا ہوا تھا۔مسلمانوں نے اس کتاب کو تلف کرنے کی درخواست کی ۔اس کے انکار پر مسلمانوں نے دفعہ 153الف کے تحت فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا ۔مجسٹریٹ نے ناشر کو چھ ماہ قید کی سزا دی۔مگر اس نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کردیا۔

اس سلسلے میں مسلمانوں نے جلسے کئے۔متعدد جلوس نکالے لیکن حکومت نے دفعہ 144نافذ کر کے مسلمان لیڈروں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔فرنگی حکومت کے انصاف سے مایوس ہونے کے بعد
مسلمانوں نے اپنی قوت بازو سے کام لینے کا مصمم ارادہ کیا ۔چنانچہ راج پال کو ٹھکانے لگانے کے لئے سب سے پہلے ایک نوجوان غازی عبد العزیز کوہاٹ سے لاہور آیا۔پوچھتا پوچھتا ناشر کی دوکان پر جا پہنچا ۔اتفاق سے اس وقت دوکان پر راج پال نہیں بیٹھاتھا بلکہ اس کی جگہ اس کا ایک دوست جتندر موجود تھا۔عبد العزیز نے ایک ہی وار میں اس کا کام تما م کردیا ۔انگریزی حکومت نے کچھ قانونی تقاضوں اور مصلحتوں کے پیش نظر عبدالعزیز کو چودہ سال کی سزا دی ۔راج پال اپنے آپ کو ہروقت خطرے میں محسوس کرتا ۔اس کی دراخوست پر دو ہندو سپاہی اور ایک سکھ حوالداراس کی حفاظت کے لئے متعین کئے گئے ۔راج پال لاہور چھوڑ کر ہردوا ?کاشی اور متھرا چلاگیا لیکن دوچار ماہ بعد واپس آکر اپنا کاروبار دوبارہ

شروع کردیا۔چنانچہ غازی علم الدین 6اپریل 1929ءکو لاہور آئے اور ایک بجے دوپہر راج پال کی دوکان واقع ہسپتال روڈ انار کلی نزد مزار قطب الدین ایبک پہنچ کر آپ نے راج پال کو للکارا اور کہا ?اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور دلآزار کتاب کو تلف کردواور آئندہ اس قسم کی حرکتوں سے باز آجاو?۔?راج پال اس انتباہ کوگیڈر بھبکی سمجھ کر خاموش رہا ۔اس پر غازی علم الدین نے ایسا بھر پور وار کیا کہ وہ اف تک نہ کرسکا۔اس وقت دوکان میں دو ملازم بھگت رام اور کدار ناتھ بھی موجود تھے ۔کدار ناتھ نے انار کلی پولیس سٹیشن میں قتل کی اطلاع درج کروائی ۔پولیس نے لاش پر قبضہ کرکے کدار ناتھ ?بھگت رام اور دیگر گواہوں کے بیانات لئے ۔چونکہ ملزم اقبالی تھا اس لئے مقدمے کی تفتیش اور چالان میں نہ توکوئی دقت پیش آئی نہ کوئی رکاوٹ ہوئی ۔اس واقعہ کے بعد شہر میں خاصاخوف وہراس پھیل گیا تھا ۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے دفعہ 144نافذ کر کے ہندو مسلم کشیدگی پرقابو پانے کی کوشش کی۔تاہم ہندوو?ں نے راج پال کی ارتھی کا جلوس نکالا اور پورے احترام کے ساتھ رام باغ نزد بادامی باغ نذر آتش کر کے اس کی راکھ کو دریائے راوی میں بہا دیا ۔مقدمہ مسٹر لوئیس ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا۔انہوں نے ملزم پر فرد جرم عائد کر کے اس کا بیان لیا اور بغیر صفائی کے مقدمہ سیشن کے سپرد کردیا۔

مسٹر نیپ سیشن جج تھے ۔مسٹر سلیم بارایٹ لاءنے غازی علم الدین کے حق میں معقو ل دلائل پیش کئے مگر عدالت نے دفعہ 302کا فرد جرم عائد کرکے مورخہ 22مئی 1929ءکو پھانسی کی سزا کا حکم سنایا ۔مسلمانان لاہور میں کئی جلسے کر کے فیصلہ کیا کہ سیشن جج کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل ضرور کی جائے ۔مسٹر محمد علی جناح اس مقدمے کی پیروی کی غرض سے بمبئی سے لاہور آئے ان کی معاونت مسٹر فرخ حسین بیر سٹر نے کی ۔مقتول کی طرف سے جے لال کپور اور دیوان رام لال سرکا ر کی طرف سے پیش ہوئے ۔مسٹر براڈوے اور مسٹر جان سٹون جج ہائی کورٹ میں اپیل کی سماعت کی ۔15جولائی 1929ءکوغازی علم الدین کی اپیل خارج کردی اور سیشن کورٹ کے فیصلے کو بحال رکھا۔ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ جب غازی علم الدین کو جیل میں سنایا گیا تو انہوں نے مسکراکر کہا ?شکرو الحمد ﷲ۔میں یہی چاہتاتھا ۔بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں گلنے سڑنے کی بجائے تختہ دار پر چڑھ کر رسول برحق رسالتمابپر اپنی حقیر جان کو قربان کرنا موجب ہزار ابدی سکون وراحت ہے۔

مسلمانوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پریوی کونسل لندن میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا اس اپیل کا مسودہ قائد اعظم کی نگرانی میں تیار ہوا لیکن پریوی کونسل نے بھی اپیل نامنظور کردی غازی علم الدین کو جونہی اس فیصلے سے آگاہ کیا گیا انہوں نے حسب سابق خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔صوبے کے امن وامان کوملحوظ رکھتے ہوئے حکام وقت نے فیصلہ کیا کہ غازی علم الدین کو فوری طور پر صوبے کی کسی محفوظ اور دوردراز جیل میں منتقل کردیاجائے ۔چنانچہ اس مقصد کے لئے میانوالی جیل کو منتخب کیا گیا۔4اکتوبر 1929ءکو آپ کو لاہور سے منتقل کر کے میانوالی لے جاےاگیا اور 31اکتوبر 1929ءکو بروز جمعرات آپکوپھانسی دی گئی۔مجسٹریٹ نے آپ سے پوچھا ?آپ کی آخری خواہش کیا ہے۔?آپ نے کہا ?صرف دو رکعت نماز شکرانہ ادا کرنے کی اجازت دی جائے ۔?اس پر آپ نے دورکعت نفل پڑھے اور خود سوئے دار بصدشوق چل پڑے ۔انگریز حکومت کا خیال تھا کہ اگر غازی علم الدین کی لاش کو لاہور بھیجا گیا تو یقینا ہندو اور مسلمان مشتعل ہو کر فساد پر آمادہ ہوجائیں گے۔اس لئے اس کی پاک میت کو بغیر جنازہ ایک گڑھے میں دبادیا گیا ۔لیکن مسلمانوں نے ان کی میت کو لینے کے لئے شدید مطالبہ کیا۔اور لاہور میں مسلسل جلسے جلوس اور ہڑتالیں ہوتی رہیں۔4نومبر1929ءکو مسلمانوں کا ایک وفد گورنر پنجاب سے ملا ۔اس وفد میں سر میاں محمد شفیع ?میاں عبدالعزیز ?مولاناظفرعلی خاں ?سر فضل حسین ?خلیفہ شجاع الدین ?میاں امیر الدین ?سر محمد اقبال ?اور مولاناغلام محی الدین قصوری سرفہرست تھے۔گورنرنے سخت شرائط پر نعش کی واپسی کی اجازت دی۔مسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مرزا مہدی حسن مجسٹریٹ کی قیادت میں 13نومبر کو میانوالی پہنچا دوسرے دن علی الصبح نعش کو گڑ ھے سے نکال کر ڈپٹی کمشنر راجہ مہدی زمان خان کے بنگلے پر لایا گیا وفد اور میانوالی کے لوگوں کا بیان ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود نعش میں ذرا بھی تعفن نہیں تھا۔بلکہ جسم صحیح وسالم تھا۔چہرے پر جلا ل وجمال کا امتزاج تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔نعش بذریعہ ٹرین 15نومبر1929ءکو لاہور چھاو?نی کے پاس پہنچی۔محکمہ ریلوے نے یہ نعش محکمہ جیل کے احکام کے حوالے کی اور محکمہ جیل نے وہ صندوق مسلم لیگ کے دونمائندوں سر محمد شفیع اور سر محمد اقبال کے حوالے کیا۔

غازی علم الدین کے جنازے پر ایک محتاط اندازے کے مطابق چھ لاکھ انسان شامل ہوئے۔اخبار انقلاب کے مطابق جنازے کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا ۔نماز جنازہ قاری محمد شمس الدین خطیب مسجد وزیر خاں نے پڑھائی ۔باقی نمازیں دیگر علماءکرام نے پڑھا کر فرض کفایہ ادا کیا ۔ مولانا دیدار شاہ اور علامہ محمد اقبال نے میت کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا ۔لوگوں نے عقیدت سے اتنے پھول نچھاور کئے کہ میت ان میں چھپ گئی۔اس کے بعد کچی اینٹوں سے تعویذ کو بند کر دیا گیا اور کلمہ شہادت اور کلمہ تمجید پڑھ کر قبر پر مٹی ڈال دی گئی۔غازی علم الدین شہید کا مقبرہ میانی صاحب قبرستان میں بہاولپور روڈ کے کنارے نمایاںمقام پر ہے۔ مزار کے چاروں طرف ایک مسقف بر آمدہ ہے مگر خود مزار بغیر چھت کے ہے۔ مزار کے مشرق میں غازی کے والد، والدہ اور رئو ف احمد بھتیجے کی قبریں ہیں ۔ تایا میاں میر بخش اور ان کی اہلیہ کی قبریں مغرب کی طرف ہیں۔ تعویذ کے شمال میں سنگ مرمر کا ایک کتبہ ہے جس کے اندرون رخ پر غازی کی تاریخ پیدائش 3دسمبر 1908ءاور تاریخ وفات 31اکتوبر1929ءدرج ہے۔ کتبے پر پنجابی اور اردو میں بے شمار اشعار کندہ ہیں۔

حضرت خالد بن ولید حضرت امام شافعی ByMuhammadAmirSultanChisahti923016778069


حضرت خالد بن ولید
حضرت خالد بن ولیدنام
583تاریخ پیداءش
645تاریخ وفات

حضرت خالد بن ولید کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا اور آپ کا شجرہ نسب ساتویںپشت میں رسول اﷲ اور خلیفہ اول ابوبکر صدیق سے مل جاتا ہے۔

حضرت خالد بن ولید کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا اور آپ کا شجرہ نسب ساتویںپشت میں رسول اﷲ اور خلیفہ اول ابوبکر صدیق سے مل جاتا ہے۔آپکا خاندان بنی فخروم اہل قریش میں بہت مشہوراور سرکردہ تھا۔
خالد بن ولید کے سن ولادت سے متعلق مورخین میں اختلاف ہے۔قےاس ہے کہ وہ سید نا عمرفاروقکے بچپن میں ان کے ساتھ کھیلتے کودتے تھے ا ور ایک مرتبہ ہنسی مذاق میں انہوں نے حضرت عمر فاروق کی پنڈلی توڑ دی تھی اس لئے ضرورہے کہ وہ ان کے ہم عصر ہوں گے۔
اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ دونوں ہم عمر تھے تو اس حساب سے حضرت خالد بن ولید کاسن ولادت 583ءپیغمبر اسلام کے سن ولادت سے بارہ سال کے بعد کا عرصہ قرار پاتا ہے۔
حضرت خالد بن ولید ایک امیر کبیر باپ کے بیٹے تھے جس کے مکے سے طائف تک بے شمار باغات تھے اور روپے پےسے کی کسی طرح کمی نہیں تھی ۔ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں خالد نے شاہانہ اندازمیں پرورش پائی۔وہ عام طور پر امراءکے لاڈلے بیٹوں کی طرح گھوڑ سواری اور گھوڑ دوڑوغیرہ دلچسپ مشغلوں میں لگے رہتے تھے اور چونکہ وہ قریش کے بنی مخزوم ایسے ایک مشہور خاندان سے تھے ?جسے قریش کی طرف سے فوجی کیمپ کا انتظام اور فوجوں کی سپہ سالاری کی خدمت سونپی گئی تھی۔لہذاجب خالد بن ولید جوان ہوئے تو ان کے قبیلے بنی مخزوم نے یہ خدمت انہی کی تفویض کی۔واضح رہے کہ خالد بن ولید کے باپ ولید نے ہجرت نبویکے تین مہینے بعد پچانوے برس کی عمر میں انتقال کیا۔خالد فنون حرب میں لاجواب تھے۔سارے عرب میں کوئی ان کے پائے کاسپہ سالار اور تلوار کادھنی نہیں تھا۔انہوں نے اگر کہیںتربیت تو وہ صرف میدان جنگ میں?جہاں وہ اپنے باپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر دادشجاعت دیاکرتے تھے۔یہ اسی تربیت کا اثر تھا کہ خالد بن ولید نہایت دلیر?بہادراور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑنے والے نڈر سپاہی بن گئے۔
جنگ احد جس میں پہلے پہل میدان جنگ مسلمانوں نے سر کر لیا تھا?خالد بن ولید ہی کے مسلمانوں پر اچانک حملہ کرنے سے ان کی فتح شکست میں بدلی۔ جنگ احد سے ایک مدت بعد جنگ خندق کا واقعہ پیش آیا تو ان موقع پر بھی خالد بن ولید اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے میں پیش پیش تھے۔وہ خندق کے کنارے کنارےتمام دن گشت کرتے رہے?جس سے انہیں یہ معلوم ہوسکے کہ آیا خندق کا کوئی حصہ کہیں سے ایسا کمزور بھی ہے کہ جہاں سے مسلمانوں پر آسانی سے حملہ کیا جا سکے۔
اگرچہ حضرت خالد بن ولید کے اسلام لانے سے متعلق مختلف روایات ہیں ۔تاہم ان سب سنین میں صحیح 8ہجری ہے?جس میں آپ مشرف بہ اسلام ہوئے۔حضرت خالد بن ولید نے اسلام کیسے قبول کیااس کا سبب خود ان کی زبانی سنئے فرماتے ہیں :?جب اﷲتعالیٰ نے مجھ پر فضل وکرم کرنا چاہا تو اس نے مےرے دل میں اسلام کی طرف لگاو? پیداکر دیا اور مجھے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بخشی۔?
جب حضرت ابوبکرنے عنان خلافت سنبھالاتو ایک طرف باغی اور مرتد لوگو ں نے آفت برپا کی ہوئی تھی اور دوسری طرف ایسے لوگوںکا زور بڑھ رہا تھاجو نبوت کے جھوٹے مدعی بنے بیٹھے تھے۔سیدنا ابوبکر صدیق نے اس کٹھن ساعت میں کمال ہمت اور استقامت سے کام لیا اور آپ کی نگہ انتخاب نے منکرین زکوة اور مرتدین کی سر کوبی کے لئے اولوالعزم صحابہ رسول کو مقرر کیا۔ان میں حضرت خالد بن ولید ?سیف اﷲ کا نام بھی فہرست تھا۔
حضرت خالد بن ولید سب سے پہلے طلیحہ کی سر کوبی کے لئے بھیجے گئے جس نے حجتہ الوداع کے بعد حضور پیغمبر اسلام کو بستر علالت پر دیکھ کر اپنی نبوت کا دعٰوی کر دیا تھا ۔طلیحہ کی مہم سے فارغ ہونے کے بعد خالد بن ولید نے بنی تمیم کا رخ کیا جس میں بنی یر نوع کے خاندان کی ایک عورت سجاع نبوت کا دعوی رکھتی تھی اور اس کا سردار مالک بن نویرہ تھا۔
اب خالد بن ولید کو حکم ملا کہ وہ مسیلمہ بن کذاب کی سر کوبی کریں ?جس نے حضور پیغمبر اسلام کی حیات مبارکہ ہی میں نبوت کا جھوٹا دعوی کردیا تھا اور حضور کی خدمت میں لکھا تھا تو آپ مجھے اپنی رسالت اور نبوت میں شریک کرلیں اور نصف حکومت میرے حوالے کردیں ۔
مرتدین اسلام اور منکرین زکوة سے فراغت پانے کے بعد اب حضرت خالد بن ولیدکی ان فتوحات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ جو اسلام کی حفاظت اور مدافعت کے نتیجے میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔انہیں عراق کی مہم کا سپہ سالار بنایا گیا۔
اسی دوران میں جب ہرمز کو حضرت خالد بن ولید کے آنے کا پتہ چلا تو اس نے فورا شہنشاہ ایران ارد شیر کو مدد کے لئے لکھ بھیجا اور خود ایک لشکر جرار لے کر حفیر کی طرف روانہ ہوا۔حفیر مقام بصیرہ سے چار میل کے فاصلے پر ہے۔ہرمز نے حفیر کے مقام پر اپنے لشکر کو ترتیب دیا جس میں سے لشکر کے ایک حصے نے اپنے آپ کو زنجیروں سے جکڑلیا تاکہ وہ میدان جنگ میں جم کے لڑ سکیں۔اس ثناءمیں حضرت خالد بن ولید بھی حفیر میں پہنچ گئے اور ان کے آتے ہی لڑائی شروع ہوگئی۔ہرمز نے اپنے لشکر سے باہر نکل کر حضرت خالد بن ولید کو مبارزت کی دعوت دی جسے حضرت خالد بن ولیدنے فوراقبول کر لیا۔چنانچہ دونوں میں دست بدست لڑائی کا آغاز ہو گیا۔ہرمز کی نیت یہ تھی کہ حضرت خالد بن ولید گھیرے میں لے کر شہید کر دیے جائیں ?چنانچہ ہرمز کے آدمیوں کو اس مقصد کی تلقین بھی کردی تھی لیکن حضرت خالد بن ولید نے اس سے پہلے کہ ایرانی سورماانہیں گھیرے میں لےنے کے لئے آئیں?تلوار کے ایک ہی وار میں ہرمز کا کام تمام کردیا اور پھر اس کے سورماو?ں کو موقع دیے بغیر کہ وہ حملہ کریں کمال چستی اور دانائی سے لشکر میں واپس آگئے۔ہرمز کے مارے جانے کے بعد ایرانی فوج کے حوصلے پست ہوگئے یہاں تک کے وہ میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔حفیر کے بعد پھر مسلمانوں اور ایرانیوں کی جنگ دلجہ کے مقام پر ہوئی فتح کے بعد حضرت خالد بن ولیدنے اس علاقہ کے کا شتکاروں سے کوئی تعرض نہ کیا۔ان سے محض جزیے کا مطالبہ کیا جس کی ادائیگی کا انہوں نے وعدہ کرلیا۔
اس جنگ میں چونکہ قبیلہ بکر بن وائل کے بھی کئی عربی نسل کے عیسائی مارے گئے تھے اس لئے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ایران کے دربار میں فریاد کی اور شہنشاہ اور شہنشاہ ایران ارد شیر نے بہمن جادو یہ ایک نامی گرامی ایرانی سورما کو ان کی مدد کے لئے لشکر دے کر روانہ کی۔جادویہ نے الیس کے مقام پر پہنچ کر وہاں کے حاکم حبان کو ایرانی فوج سونپ دی اور خود شہنشاہ ایران سے مشورہ کرنے مدائن چلاگیا۔
ادھر جب حضرت خالد بن ولید کو ایرانیوں کے نئے حملے کی تیاریوں کا پتہ چلا تو وہ بھی لشکر لے کر مقابلے کو چل دیے اور الیس کے مقام پر پہنچتے ہی لڑائی شروع کر دی اور اس کے پہلے کہ بہمن جادویہ واپس آئے مسلمانوں نے موقع غینمت جان کر نہایت جوش وخروش کے ساتھ بھر پور حملہ کردیا ۔ الیس کی مہم سر کرنے کے بعد اب غحرت خالد بن ولید امینیشیاکی طرف بڑھے لیکن یہاں کے باشندے غحرت خالدکی صرف اطلاع پاکر بھاگ نکلے حتی کہ شہر بالکل خالی ہوگیا۔مسلمانوں کو یہاں سے اس قدر مال غنیمت ہاتھ آیا کہ اتنا جنگ ذات السلاسل کے بعد بھی حاصل نہیں ہوا تھا۔غنیمت میں ہر سوار کو پندرہ سو درہم ملے ۔دیگر مجاہدین کو جو رقمیں ملیں وہ اس کے علاوہ تھیں۔جب حضرت خالد بن ولید نے مال غنیمت کا پانچواں حصہ فتح کی خوشخبری کے ساتھ سیدناابوبکر صدیقکی خدمت میں بھجوایا تو وہ بہت خوش ہوئے۔امینشیاکی فتح کے بعد حضرت خالدبن ولیدنے حیرہ کا رخ کیا۔وہاں کے حاکم اراذبہ نے جب دیکھا کہ خالد بن ولیدکے جنگ کے ذریعے رستگاری نہیںمل سکتی۔اس نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ وہ دریائے فرات میں بند باندھ کر اس کا سارا پانی روک لے اور دریا سے نکلنے والی نہروں میں چھوڑدے۔چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا ?جس کا نیتجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی تمام کشتیاں دلدل اور کیچڑ میں پھنس کر رہ گئیں ۔
حضرت خالد بن ولید اب یہ صورت حال دیکھ کر اراذبہ کی طرف لپکے اور ناگہانی طور پر مسلمان اس کی فوج پر حملہ آور ہوئے۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ مسلمان اپنی کشتیوں کودلدل میں چھوڑ کر بجلی کی طرح اس کی فوج تک پہنچ جائیں گے۔مسلمانوں نے اس پامردی سے ان کا مقابلہ کیا کہ ان کا ایک فرد بھی زندہ بچ کر نہ جاسکا۔حیرہ کے عیسائی معززین شہر حضرت خالد بن ولیدکی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ ان معززین کی وساطت سے ہر قلعے کے لوگوں سے ایک ایک کر کے ملے اور کہا۔افسوس ہے تم پر لوگو!تم نے اپنے آپ کو کیا سمج رکھا ہے۔اگر تم عرب ہو تو کیا تم کو زیب دیتا ہے کہ تم اپنی ہی ہم قوم لوگوں کا مقابلہ کرو۔آخر کیا وہ شے ہے کہ جس نے تمہیں اس پر ابھارا ہے اور اگر تم عجمی ہو تو کیا تم سمجھتے ہو کہ ہمارے مقابلے میں جیت جاو?گے؟
اس کے بعد حضرت خالد بن ولیدنے فرمایا ۔ہم تمہارے سامنے تین چیزیںرکھتے ہیں۔اول یہ کہ تم اسلام قبول کر لو۔دوم یہ کہ مسلمان ہونا منظور نہ ہو تو جزیہ دو ۔سوم یہ کہ اگر تمہیں یہ بھی منظوز نہ ہو تو آو?میدان جنگ میں نکل کر اپنی قسمت کا فیصلہ کر لو۔عےسائیوں نے یک زبان ہو کر کہاکہ ہم صلح کی درخواست پیش کرتے ہیں اور ایک لاکھ نوے ہزار دوہم سالانہ ادا کرنے کا اقرار کرتے ہیں۔
چنانچہ حضرت خالد بن ولیدنے اسے بہ طیب قبول کرلیا اور بڑے بڑے عیسائی سرداروں نے صلح نامہ لکھ کر ان کے حوالے کیا۔اس کے بعد عراق کے زمیندار آئے۔مصالحت کی درخواست پےش کی۔چنانچہ فلالیج سے ہرمز تک کے علاقے کے لئے بیس لاکھ درہم پر صلح ہوگئی۔اس کے علاوہ یہ بھی طے پایا کہ ال کسری کی تمام املاک مسلمانوں کی ملکیت ہوگی۔
خالدبن ولید نے عراق کا ایک بڑا حصہ فتح کرلیااور دریائے فرات کے تمام مغربی ساحل کو دشمن کے وجود سے پاک کردیا ۔حیرہ کو اسلامی مفتوحہ علاقوں کا دارالحکومت بنایا۔اب یہ لازم تھا کہ مفتوحہ علاقوں کاجونظام جنگ کے دنوں تباہ برباد ہوا۔اسے پھر سے قائم کیاجائے۔چنانچہ حضرت خالدنے اس غر ضکے لئے مختلف امراءمقرر کئے۔خراج وصول کرنا ?شہر کا نظم ونسق درست رکھنااور سرحدوں کی حفاظت کرنا ان کا فرض منصبی ٹھہرایا۔
مفتوحہ علاقوں کے انتظامات سے فراغت پانے کے بعد حضرت خالدحیرہ سے چل کر نلوجہ پہنچ گئے اور پھر وہاں سے انبار گئے?جوبغداد کے دس میل کے فاصلے پرواقع ہے۔اہل انبار کو جب خالدبن ولیدکے آنے کا پتہ چلا تو انہوں نے شہر کے اردگرد خندقیں کھود کر قلعے کے دروازے بند کر لئے اور اپنے آپ کو مضبوط سمجھتے ہوئے قلعہ بندہو کر بیٹھ گئے۔حضرت خالد بن ولیدکے حکم سے مجاہدین نے اونٹوں کو ذبح کرکے ان کی لاشوں سے خندق کو پاٹ دیا اور اس سے پل کاکام لیتے ہوئے خندق کے پار ہوگئے۔اب جونہی مجاہدین آگے بڑھے دشمن کے سپاہی پسپا ہوگئے۔
حضرت خالد بن ولیدعراق میں ایک سال دو مہینے تک رہے۔ اس تھوڑی سی مدت میں انہوں نے رومیوں اور ایرانیوںسے نئے نئے سازو سامان جنگ سے لیس لشکروں سے پندرہ لڑائیاں لڑیں اور باوجود سامان جنگ اور مجاہدین کی قلت ہونے کے سبب لڑائیوں میں مظفر ومنصور ہوئے۔
مختصراًیہ کہ حضرت خالدبن ولیدتمام دن اور رات رومیوں سے جنگ کرتے رہے ۔یہاں تک کہ رومیوں کے سالار اعظم کے خیمے تک پہنچ گئے اور یرموک فتح کرلیا۔عمرفاروقکی طرف سے معرکہ یرموک کے اختیام پردمشق کے محاصرے کے دوران سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کیے جانے کا حکم مل گیا اور آپ نے بے چون وچراتسلیم کرلیا اور بال برابر بھی دل میں کوئی فرق نہیں آنے پایا۔وہ پہلے جس جو ش و خر و ش کے ساتھ ایک سپہ سالارکی حیثیت سے دادشجاعت دیتے رہے?اب بھی اسی طرح سے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے ایک سچے مسلمان سپاہی کی طرح دشمن سے نبردآزمارہے۔
اصل میں بات اتنی تھی کہ خالد بن ولیدکا طریقہ جنگ کچھ اتنا سخت تھا کہ اسے سیدنا عمرفاروقپسند نہیں کرتے تھے اور ایک دو مرتبہ ان سے کچھ بے اختیاطی بھی ہوگئی۔اس کے علاوہ ایک شاعر کو آپ نے ایک ہزار دینارعطاکردیے تھے۔سیدنا عمرفاروقکو جب اس واقعہ کا پتہ چلا توانہوں نے خیال کیا کہ رقم کہیں مسلمانوں کے مال سے نہ سی گئی ہوجو سب مسلمانوںکی امانت ہے۔چنانچہ انہوں نے حضرت خالدبن ولیدسے وضاحت طلب کی لیکن ان کی جانب سے تاخیر ہوئی تو انہوں نے معزولی کا پروانہ بھیج دیا۔پھر جب حضرت بلال نے انہی کے عمامہ سے ان کی ہاتھ باندھ دیے توحضرت خالدنے عمرفاروقسے کہا کہ میں نے دورقم صرف اپنی جیب خاص سے دی ہے۔اس پر ان کا عذر تسلیم کر کے ان کے ہاتھ کھول دیے گئے۔
حضرت خالد کے انتقال کے بار ے میں اختلاف ہے۔کوئی کہتا ہے کہ مدینے میں فوت ہوئے اور اکثر کہتے ہیں کہ آپاپنی معزولی کے بعد حضرت عمرفاروقسے ملنے مدینے آئے اور پھر ان سے مل کر شام چلے گئے?جہاں حمص میںانہوں نے مستقل سکونت اختیار کرلی اور 21ھ بمطابق 645ءمیں آپ کا وہیں انتقال ہوا۔


حضرت امام شافعی
2
حضرت امام شافعینام
804تاریخ پیداءش
آپ بحرشریعت و طریقت کے تیراک اور رموز حقیقت کے شناسا تھے فراست و ذکاوت میں ممتاز اور نفقہ فی الدین میں یکتائے روزگار تھے۔

آپ نے تیرہ سال کی عمر میں ہی بیت اللہ میں فرما دیا تھا کہ جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو 'اور پندرہ سال کے سن میں فتویٰ دینا شروع کر دیا تھا۔ حضرت امام احمد بن حنبل آپ کابہت احترام اور خدمت کیا کرتے تھے۔ جب کسی نے یہ اعتراض کیا کہ آپ جیسے اہل علم کے لئے ایک کم عمر شخص کی مدارات کرنا مناسب نہیں آپ نے جواب دیا کہ ''میرے پاس جس قدر علم ہے اس کے معانی و مطالب سے وہ مجھ سے زیادہ با خبر ہے 'اور اسی کی خدمت سے مجھے احادیث کے حقائق معلوم ہوتے ہیں۔

اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو ہم علم کے دروازے پر ہی کھڑے رہ جاتے اور فقہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند رہ جاتا۔ اور اس دورمیں وہ اسلام کا سب سے بڑا محسن ہے۔ وہ فقہ معانی اور علوم لغت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا اور حضور اکرم کے اس قول کے مطابق کہ ہر صدی کی ابتدامیں ایک ایسا شخص پیدا ہو گا کہ اہل علم اس سے علم دین حاصل کریں گے اور اس صدی کی ابتدا امام شافعی سے ہوئی ہے ''

حضرت سفیان ثوری کا قول ہے کہ امام شافعی کے دور میں ان سے زیادہ دانشور اور کوئی نہیں۔ حضرت بلالخواص کا قول ہے کہ میں نے حضرت خضر سے پوچھا کہ امام شافعی کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے !فرمایا کہ ان کا شمار اوتاد میں ہوتا ہے۔

امام شافعی ابتدائی دور میں کسی کی شادی یا دعوت میں شریک نہ ہوتے 'مخلوق سے کنارہ کش ہو کر ذکر الہی میں مشغول رہتے 'حضرت سلیم راعی کی خدمت میں حاضر ہو کر فیوض باطنی سے فیض یاب ہوتے اور آہستہ آہستہ ایسے عروج کمال تک رسائی حاصل لی کہ اپنے دور کے تمام مشائخ کو پیچھے چھوڑ دیا۔عبدا? انصاری کا قول ہے کہ گو میرا شافعی مسلک سے تعلق نہیں لیکن امام صاحب کے بلند مراتب کی وجہ سے ان کے عقیدت مندوں میں ہوں۔

آپ کی والدہ بہت بزرگ تھیں اور اکثر لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس بطور امانت رکھوا دیتے۔ ایک دفعہ دو آدمیوں نے کپڑوں سے بھرا ہوا ایک صندوق آپ کے پاس بطور امانت رکھوایا۔

اس کے بعد ایک شخص آکر وہ صندوق لے گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد دوسرے شخص نے آکر صندوق طلب کیا تو آپ نے کہا کہ میں تمہارے ساتھی کو وہ صندوق دے چکی ہوں۔ اس نے کہا جب ہم دونوں نے ساتھ رکھوایا تھا تو پھر آپ نے میری موجودگی کے بغیر اس کو کیسے دے دیا ؟اس جملہ سے آپ کی والدہ کو بہت ندامت ہوئی لیکن اسی وقت امام شافعی بھی گھر میں آگئے اور والدہ سے کیفیت معلوم کر کے اس شخص سے کہا کہ تمہارا صندوق موجود ہے لیکن تم تنہا کیسے آگئے 'اپنے ساتھی کو ہمراہ کیوں نہیں لائے ہو۔ پہلے اپنے ساتھی کو لے آئو۔ یہ جواب سن کر وہ شخص ششدر رہ گیا۔


جس وقت آپ امام مالک کے پاس پہنچے تو آپ کی عمر سترہ سال تھی چنانچہ آپ ان کے دروازے پر اس نیت سے کھڑے رہتے۔ جو شخص امام مالک سے فتوے پر دستخط لے کر نکلتا تو آپ بغور اس کا معالعہ کرتے۔ اگر جواب صحیح ہوتا تو اس شخص کو رخصت کر دیتے اور کوئی خامی نظر آتی تو واپس امام مالک کے پاس بھیج دیتا اوروہ غور کرنے کے بعد نہ صرف اس خامی کو دور کر دیتے بلکہ امام شافعی کے عمل سے بہت مسرور ہوتے۔

خلیفہ ہارون رشید اور اس کی بیوی میں کسی بات پر تکرار ہو گئی تو زبیدہ نے کہا کہ تم جہنمی ہو اور ہارون رشید نے کہا کہ اگر میں جہنمی ہوں تو تیرے اوپر طلاق ہے۔ یہ کہہ کر بیوی سے کنارہ کشی اختیار کر لی لیکن محبت کی زیادتی کی وجہ سے جب جدائی کی تکلیف برداشت نہ ہو سکی تو تمام علماء کو بلا کر پوچھا کہ میں جہنمی ہوں یا جنتی ؟لیکن کسی کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔

امام شافعی بھی کم سنی کے باوجود ان علماء کے ساتھ تھے چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اگر اجازت ہو تو میں اس کا جواب دوں اور اجازت کے بعد خلیفہ سے پوچھا کہ آپ کو میری ضرورت ہے یا مجھے آپ کی ؟خلیفہ نے کہا کہ مجھے آپ کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم تخت سے نیچے آجائو کیونکہ علما ء کا مرتبہ تم سے بلند ہے۔ چنانچہ اس نے نیچے آکر آپ کو تخت پر بٹھا دیا۔ پھر آپ نے سوال کیا کہ تمہیں کبھی ایسا موقع بھی ملا ہے کہ گناہ پر قادر ہونے کے باوجود محض خوف الہی سے گناہ سے باز رہے ہو ؟اس نے قسمیہ عرض کیا کہ ہاں ایسے مواقع بھی آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم جنتی ہو۔ علماء نے اس کی حجت طلب کی تو فرمایاکہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ قصد گناہ کے بعد جو شخص خوف خدا سے گناہ سے رک گیا اس کا ٹھکا نہ جنت ہے ''

ایک روایت کے مطابق حاکم روم کچھ رقم سالانہ ہارون رشید کے پا س بھیجاکرتاتھا لیکن ایک مرتبہ چند راہبوں کو بھیج کر یہ شرط لگا دی کہ اگر آپ کے دینی علماء مناظرے میں ان راہبوں سے جیت گئے تو میں اپنی رقم جاری رکھوں گا ورنہ بند کر دوں گا۔ چنانچہ خلیفہ نے تمام علماء کو مجتمع کر کے حضرت امام شافعی کو مناظرہ پر آماد ہ کیا۔ آپ نے پانی کے اوپر مصلی بچھا کر فرمایا کہ یہاں آکر مناظرہ کرو۔ یہ صورت حال دیکھ کر سب ایمان لے آئے۔ جب اس کی اطلاع حاکم روم کو پہنچی تو اس نے کہا کہ یہ بہت اچھا ہوا 'اس لئے اگر وہ شخص آجاتا تو پورا روم مسلمان ہو جاتا۔

امام شافعی حافظ نہیں تھے اور کچھ لوگوں نے خلیفہ سے شکایت کر دی کہ آپ حافظ نہیں ہیں۔ اس نے بطور آزمائش رمضان میں آپ کو امام بنا دیا۔ چنانچہ آپ دن بھر میں ایک پارہ حفظ کر کے رات کو تراویح میں سنا دیا کرتے تھے۔ اس طرح ایک ماہ میں پورا قرآن حفظ کر لیا۔

آپ ایک حسینہ پر فریفتہ ہو گئے اور اس سے نکاح کرنے کے بعد صرف صورت دیکھ کر اور مہر ادا کرکے طلاق دے دی امام شافعی نے امام حنبل سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ آپ کے نزدیک عمداََنماز ترک کر دینے والا کافر ہو جاتا ہے تو اس کے مسلمان ہونے کی کیا شکل ہے ؟انہوں نے جواب دیا کہ نماز ادا کرے۔ امام شافعی نے جواب دیا کہ کافر کی تو نماز ہی درست نہیں۔ یہ سن کر آپ ساکت رہ گئے۔

ایک شخص نے آپ سے نصیحت کی درخواست کی تو فرمایا کہ دوسروں کے برابر دولت جمع کرنے کی سعی مت کرو بلکہ عبادت میں برابری کی کوشش کرتے رہو کیونکہ دولت تو دنیا میں رہ جاتی ہے اور عبادت قبر کی ساتھی ہے کبھی کسی مردے سے حسد نہ کرو کیونکہ دنیا میں سب مرنے کے لئے آئے ہیں۔

ایک مرتبہ آپ گزرے ہوئے وقت کی جستجو میں نکلے تو صوفیا کی ایک جماعت نے کہا کہ گزرا ہوا وقت تو ہاتھ نہیں آتا 'لہذا موجودہ وقت ہی کو غنیمت جا نو۔ آپ نے فرمایا کہ مجھ کو مراد حاصل ہوگئی کیونکہ تمام دنیا کا علم مجھ کو حاصل نہیں ہوا اور میرا علم صوفیاء کے علم تک نہیں پہنچا اور صوفیا ء کا علم انہیں کے ایک مرشد کے اس قول تک نہیں پہنچا کہ موجودہ وقت شمشیر قاطع ہے۔

عالم نزع میں آپ نے وصیت نامہ میں تحریر کر دیا تھا اور زبانی بھی لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ فلاں شخص سے کہنا کہ مجھے غسل دے۔ لیکن وفات کے بہت عرصہ بعد وہ شخص مصر سے واپس آیا تو لوگوں نے وصیت نامہ اور زبانی وصیت اس تک پہنچا دی۔
چنانچہ وصیت نامہ میں تحریر تھا کہ میں ستر ہزار کا مقروض ہوں۔ یہ پڑھ کر اس شخص نے قرض ادا کیا اور لوگوں سے کہا کہ غسل سے آپ کی یہی مراد تھی۔

ابو علی الحسنین ابن عبداللہ ا بن سینا ByMuhammabAmirSultanChishti923016778069


ابن سینا
ابو علی الحسنین ابن عبداللہ ا بن سینانام
980ئتاریخ پیداءش
وجھ شھرت
وہ ریاست کافلسفی اور طبیب تھا
ابن سینا اسلامی اور قرون وسطی کے عیسائی فلسفہ دانوں کی روایت میں تمام مسلم فلسفیوں سے زیادہ تا ثر انگیز تھا ۔


ابن سینا کی پیدائش ایک اسماعیلی گھرانے میں ہو ئی اور اس کا با پ ،جو خود بھی با علم شخص تھا ،اس نے اپنے بیٹے کی تعلیم پر خصوصی تو جہ دی ۔سیکھنے میں غیر معمولی قا بلیت کا مظا ہرہ کر کے ابن سینا نے بہت چھوٹی عمر میںاپنی تعلیم شروع کی ۔دس سال کی عمر میں پہنچنے تک وہ قرآن پاک اور بہت سی عربی صرف ونحو حفظ ہو چکا تھا۔ پھر اس نے ابو عبداللہ الظیلی کے سا تھ منطق اور ریا ضی کا ،اور ابو سحل امسیحی کے سا تھ طبیعیات ،ما بعدالطبیعیات اور طب کا مطالعہ کیا ۔ اپنے دور کے تمام علوم میں کمال حاصل کر لینے والا ابن سینا اس وقت تک کہ اس وقت تک ارسطو کی ما بعد الطبیعیا ت کو سمجھ نہ پا یا جب تک کہ اس کتاب پر الفارابی کی تفسیر نہ پڑھی ۔اس تفسیر نے ابن سینا کی مشکلات کو دور کر دیا ۔ اس وقت ابن سینا کی عمر اٹھارہ برس تھی ۔یہ اس کے علم کی عمق اور وسعت ہی تھی جس کے لیے بعد میں وہ شیخ الر ئیس ،حجتہ الحق ،یا طبیبوں کاشہزادہ ،کہلایا ۔

اپنے وطن میں طوائف الملو کی کی گرم بازاری نے ابن سینا کو بھی چھولیا اور وہ کوئی پناہ ڈھونڈنے کے لیے جر مان کو روانہ ہو گیا۔متعدد در باروں میں جانے اور شمس الدولہ کے دور میںبحیثیت وزیر چند سال گزارنے کے بعد وہ اصفہان میں قیام پذیر ہو گیا ،جہاں اس نے امن اور شا نتی کے پندرہ بر س گزارے جن میں حملہ اصفہان کی وجہ سے تعطل آیا ۔ابن سیناواپس ہمد ان آیا اور وہا ں وزیر ہو گیا ۔ بعد میں اپنے انتظامی فرائض کی ادائیگی جاری رکھنے سے انکار کرنے پر اسے قید کر دیا گیا ۔اس نے کنج قفس میں ہی آنتوں کے تکلیف دہ تشنج سے وفات پائی ۔
ابن سینا کے با رے میں کہا جا تا ہے کہ وہ ایک بے نظیر قو ت ارتکاز کا مالک تھا اور اس نے جنگ میں بادشاہ کے پیچھے پیچھے گھوڑے کی کمر پر بیٹھے ہی متعددفلسفیانہ رسائل مرتب کئے ۔اتنے زیادہ عقلی اور روحانی پہلو بہت کم لو گو ں میں ہو نگے ۔وہ ایک وقت میں ایک ریاست کافلسفی اور طبیب تھا ۔اس نے طب کی سقراطی اور گلیلائی روایت کا تجزیاتی جائزہ لیتے ہو ئے قرون وسطی کے فلسفہ کی بنیاد رکھی ۔وہ علم طب کو کم گہرا علم خیا ل کر تا تھا۔

الفارا بی کی طر ح ابن سینا بھی یہ دلیل دیتا ہے کہ کائنات ظہورکی پیداوار ہے ۔ ماخذوجود ، یعنی خدا، عقل اول سے ہی عقل ثانی کا صدور ہو تا ہے ۔ یہ سلسہ چلتے چلتے دسویںعقل تک پہنچتا ہے جو تحت قمری دنیا پر حکمران ہے ۔آخری ?عقل فعال ?ارضی مادے ،مجسم صورتوں اور نفس انسانی کو پیدا اور ان کی تشکیل کرتی ہے ۔ مندرجہ بالا معقول سلسلہ کے ذریعہ ابن سینا نے پیچیدہ مسئلہ حل کر نے کی کو شش کی کہ تکثیر ت والی دنیا کا ظہور وحدت میں سے کیسے ہوا ۔مندرجہ بالا دلیل سے موجو دات میں ایک تقسیم پیدا ہوتی ہے ، جو یوں ہے :واجب ممکن اور نہ ممکن۔ابن سینا کے خیال میں اس تصورکا موجودات کے درمیان ایک اور اہم فرق کے ساتھ قریبی تعلق ہے ،یعنی جوہر یا ماہیت اور وجود کے درمیان فرق ۔معروض کی الگ شنا خت کے طور پر ?جوہر ?اور تمام فعالیت کی مشترک خصوصیات کے طور پر ?وجود ???کے درمیان اہم فرق کو قرون وسطی کے بیشتر فلسفیوں ،عیسائی اور مسلمانوں ، نے اپنے فلسفہ میں شامل کیا ۔?وجود کا فلسفی ?کا خطاب وصول کر نے والے ابن سینا نے جو ہر پر وجود کو مقدم قراردیا ۔ ابن سینا کے نظریہ ہست کے مختلف پہلوئوں کے درمیان پیچیدہ تعلق داری کو یہ ظاہر کرنے کے لیے تر کیب دیا گیا ہے کہ واحد واجب الوجود
(خدا سے دنیا ظاہر ہو ئی جو ایک طرف تو عارضی )(کیونکہ اس کا وجود ظہور پرمنحصر ہے )اور دوسر ی جا نب واجب ہے ،کیونکہ اس کا ما خذبھی واجب ہے ۔

اپنی تکو ینیات (Cosmolojy )میںابن سینا وحدت اور کثرت کے درمیان موجود تواتر اور تکثیرت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ایسا کرتے ہو ئے وہ ?ایک میں سے صرف ایک ہی وجود میں آسکتا ہے ?کے اصول کی خلاف ورزی کئے بغیر وحدت سے ظاہر ہونے والی کثرت کے با وجود کی و ضاحت کر نے کے لیے نو فلا طونی طریقہ کار میں رہتے ہوئے ملائک کے شفا عتی وظائف پرانحصار کر تا ہے ۔ابن سیناخدا میں سے ظہور کے عمل اور جسم افلاک کے درمیان ایک ربط وآہنگ پیدا کرتا ہے ۔ عقل اول ، جس کا تعلق رئیس الملائکہ سے ہے ، عقل دوم کو ظاہر کرتی ہے جو فلک اول کی جسم وروح ہے ۔ عقل دوم میں سے ظاہر ہونے والی تیسری عقل ،بالترتیب دوسرے فلک کی روح اور جسم بناتی ہے عقل ظاہر ہو نے میں ایک اور روح جسم کو بنانے کے لیے استعمال ہونے والی پا کیزگی دسویں عقل یا عقل فاعل کے ظہور تک آتے آتے کم ہو جاتی ہے اور مزید کوئی فلک پیدا نہیں ہو پا تا ۔یہیں پر پیداوار اور بگاڑ کی مادی دنیا عقل فاعل کے اندر باقی ماندہ ممکنات سے وجود میں آتی ہے

عقل فاعل کو طبعی دنیا اور عقول کی دنیا اور عقول کی دنیا اور خدا کے درمیان وسیلے کے طورپر ?واجب الصورہ ?قراردیاگیا ۔کسی چیز کے معرض وجود میںآنے پر عقل فاعل ایک صورت (ممتازکردار )مجسم کرتی ہے اور کسی چیز کے فنا ہو جانے پر صورت کے ساتھ بدل دیتی ہے فعل فاعل کا دوسرا کام ذہنوں کا معنور کرنا ہے ۔عقل فاعل کے ملکوتی ذہن میں صورتی مادے میں ظاہر ہوتی ہے اور ذہن انسانی عمل بصیرت کے ذریعہ صورت کا مادے سے علیحدہ ادراک کرنے کے قابل ہوتا ہے :مادے اور صورت کا امتزاج کسی موجود شے کی باہری تجسیم کی صورت گری کرتاہے ۔وحدت اور کثرت کے درمیان ملائکہ کا بطور وسیلہ استعمال کر کے ابن سینا نے یہ مسئلہ حل کردیا ہے کہ کثرت وحدت میں سے کیسے باہر نکلی۔ یہ مقدس تکونیات کے لیے بنیاد مہیا کرتی ہے جس میں ابن سینا عالم اصغر کو سمجھنے کے لیے عالم اکبر کا مطالعہ کرنے کی دلیل دیتا ہے ۔اس کے نتیجہ میں اسلام میں حروف کا علم پیدا ہوا جسے ?جفر?( jafar)کہتے ہیں ۔اس میں عربی حروف تہجی کے الفاظ تکوینیات کے قاعدوں سے مربوط ہیں ۔نفسیات پر ابن سینا کے خیالات علمیات (نظریہ علم )پر خیالات کے ساتھ بلاواسطہ طور پر متعلق ہیں۔وہ کہتاہے کہ انسان تین استعدادیںرکھتا ہے ،۔۔۔نباتاتی ،حیواناتی اور استعدلالی ۔یہ استعدادیںباہم منسلک اور خارجی حالات پرمنحصرہیں ۔ نباتاتی نفس کا معدنیات پر ،حیواناتی نفس کا نباتاتی نفس پر اور استدلالی نفس کا انحصار حیوانی نفس پر ہو تا ہے ۔

سلطان شمس الدین التمشByMuhammadAmirSultanChishti923016778069


سلطان شمس الدین التمش
سلطان شمس الدین التمشنام
وجھ شھرت
نیک اور رحمدل بادشاہ
التمش نہایت صحیع الاعتقاد، راسخ العقیدہ اور صالح شخص تھا۔ وہ راتوں کو جاگتا اور عبادت کرتا تمام عمر اس کو کسی نے سوتے نہیں دیکھا۔


التمش نہایت صحیع الاعتقاد، راسخ العقیدہ اور صالح شخص تھا۔ وہ راتوں کو جاگتا اور عبادت کرتا تمام عمر اس کو کسی نے سوتے نہیں دیکھا۔ وہ اگر تھوڑی دیر کے لیے سو جاتا تو جلدی بستر سے اٹھ جاتا۔ عالم تخیّر میں کھڑا رہتا۔ پھر اٹھ کر وضو کرتا اور مصّلے پر جا بیٹھتا۔

اپنے ملازموں میں سے رات کے وقت کسی کو نہ جگاتا۔ کہتا کہ آرام کے ساتھ سونے والوں کو اپنے آرام کے لیے کیوں زحمت دی جائے۔ وہ خود ہی تمام کام سر انجام دے لیتا۔ وہ رات کو گدڑی پہن لیتا۔ تا کہ اس کو کوئی پہچان نہ سکے۔ ہاتھ میں سونے کا ایک ٹنکہ اور توشہ دان ہوتا۔ وہ ہر مسلمان کے گھر پر جاتا۔ ان کے حالات معلوم کرتا اور ان کی مدد کرتا۔

واپسی میں ویرانوں اور خانقاہوں سے ہوتا ہوا بازاروں میں گشت کرتا اور وہاں کے رہنے والوں کو آسائش پہنچاتا اور پھر ان سے طرح طرح کی معذرت کر کے چپ چاپ چلا جاتا اور ان سے کہہ جاتا کہ اس مدد کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔

دن کو التمش کے دربار میں عام اجازت تھی کہ جو مسلمان رات کو فاقہ کرتے ہیں وہ اس کے پاس آئیں اور امداد پائیں۔ پھر جب غریب و حاجت مند لوگ اس کے پاس آتے۔ ان کی ہر طرح سے دل جوئی کرتا اور ایک ایک کو قسمیں دے دے کر کہتا کہ دیکھنا فاقہ نہ کرنا۔ تمہیں جب کسی شے کی ضرورت پڑے۔ مجھ سے آکر بیان کرو۔

اگر کوئی شخص تم سے بے انصافی کرے اور تم پر ظلم و ستم ڈھائے یہاں آکر زنجیر عدل ہلائو تمہاری فریاد سنی جائے گی۔ اور تمہارا انصاف کیا جائے گا۔پھر لوگوں سے رہ رہ کر کہتا۔ کہ اگر تم مجھ سے آکر اپنی شکا یت نہ کہو گے۔ تو کل قیامت کے دن تمہاری فریاد کا بوجھ مجھ سے نہ اٹھایا جاسکے گا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی ByMuhammadAmirSultanChishti923016778069


سلطان صلاح الدین ایوبی
Updated On : 2006-10-02
سلطان صلاح الدین ایوبینام
1156ئتاریخ پیداءش
وہ کرد نسل سے تھا۔ تاہم سلطان کا باپ نجم الدین آذربائیجان کار ہنے والا تھا


وہ جوانی میں بغداد سے چلا آیا? جہاں اپنی ذہنی صلاحیت اور جسمانی قابلیت سے اسے قلعہ تکر یت کی قلعداری کا منصب مل گیا۔ لیکن اسے قلعہ داری چھوڑنی پڑی اور وہ مصیبت اور پریشانی کے عالم میں اپنے چھوٹے بھائی اسدالدین شیر کوہ کوساتھ لے کر موصل کے حاکم اتابک شہید زنگی کے پاس چلا گیا۔ اتابک کے معنی اتا لیق کے ہیں ۔ اصل میں حکومت ان غلاموں کی تھی جنہیں سلجو قیوں نے اپنی وسیع وعریض سلطنت کے دوردارعلاقوں میں فوج کے مختلف مناسب پر مقرر کرنے کے لیے خریداتھا۔ جب سلاطین سلاجقہ کمزور ہو گئے اور خانہ جنگیوں سے سلطنت کی بنیادیں ہلنے لگیں اور یہی غلام جنہیں اتا بک کہا جاتا ہے ? شہزادگان سلاجقہ کے سیاسی اتالیق بن گئے اور تھوڑے ہی دنوں بعداپنی حیثیت سے فائدہ اٹھاکر سلطنت کے مالک بن گئے ۔سلطان صلاح الدین تکر یت نامی ایک شہر میں ? جو بغداد اور موصل کے درمیان دریائے دجلہ کے مغربی کنارے پر آباد ہے ? 1156ءمیں پیداہوا جس زمانے میں اس کے باپ نجم الدین کو قلعداری سونپی گئی اس کی عمر گیارہ سال کی تھی ۔ یہ زمانہ مصر میں فاطمیوں کی خلافت اور بغداد میں عباسیوں خلافت کا تھا۔ 1182ءمیں مصر کے وزیرشاد راور مصر کے سابق وزیر ضرغام کے درمیان معر کہ آرائی جس میں شادرنے شکست کھائی اور وہ بجائے مصر کے پھر د مشق کے حاکم عمادالدین کے بیٹے نور الدین زنگی کے پاس چلا گیا۔ نور الدین زنگی نے اس کی بڑی عزت افزائی کی اور اس کی مدد کے لیے اسدالدین شیر کوہ کو فوج دے کر مصر کی طرف روانہ کر دیا ۔ اس لڑائی کے بعد اسد الدین شیر کوہ اپنے بھتیجے صلاح الدین کے ہمراہ1183ء میں دمشق واپس آگیا اور شادر نہایت شان وشوکت سے مصر میں وزارت کا کام پھر سے کرنے لگا ۔ شادر نے سلطان نورالدین زنگی سے وعدہ کیا تھا کہ لڑائی میں کامیاب ہونے پر فوج کشی کا خرچ اور مصر کی آمدنی کا تیسرا حصہ اسد الدین شیر کوہ کو پیش کرے گا لیکن اب وہ اپنے وعدے کو بھول گیا اور فرانس کو اپنا دوست بنالیا۔جب سلطان کو شادر کی بد عہدی اور فرانس کے عیسائیوں سے دوستی کا پتہ چلا تو اس نے اسد الدین شیر کوہ اور اس کے ساتھ اسکے بہادر بھتیجے صلاح الدین کو فوجیں دے کر مصر کی طرف روانہ کر دیا اور خود فرانس کی طرف چل پڑا۔اسد الدین شیر کوہ اور صلاح الدین نے مصر اور فرانس کی فوجوںکاخوب ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ حتی کہ سب کو مار بھگایا۔ یہاں سے فارغ ہو کر اسد الدین سکندر یہ کارخ کیا اور اسے فتح کرکے صلاح الدین کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑ ھ گیا اور شہر صعید میں جاکر ٹھہر گیا۔ دومہینے بعد شادر نے اسنکدریہ کے عیسائیوں سے مل ملا کر اور شیر کوہ کے خلاف سازش کر کے سکندریہ پر چڑھائی کردی ۔ شیر کوہ کو جب اس کاروائی کا پتہ چلا وہ صعید سے اس کے مقابلے آگیا۔ آخر کار فیصلہ اس پر ہوا کہ سکندریہ کو پچاس ہزار دینارپر واپس کر دیا جائے ۔ پھر شیر کوہ اور صلاح الدین سکندریہ چھوڑ کر دمشق واپس چلے گئے ۔جب فاطمی خلیفہ عاضد الدین اللہ نے مصر کے اندرونی حالات کا یہ نقشہ دیکھا اور مصر کی بیرونی حالت یہ تھی کہ شہر سے باہر عیسائیوں کی فوجیں ڈیرے ڈالے پڑی تھیں تو اس نے سلطان نور الدین کے نام ایک خط لکھا کہ عیسائیوں نے مصر کا محاصر ہ کیا ہوا ہے اور چاہتے ہیں کہ مصر پر قبضہ ہو جائے ۔ ایسے نازک موقع پر جبکہ خلافت سخت خطرے میں ہے میں آپ سے حمیت پر مدد چاہتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ اگر مصیبت مصر سے ٹل گئی تو سلطنت کا تیسرا حصہ مدد کرنے کے لیے آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا ۔ اس کے علاوہ شیر کوہ مصر افواج کا افسر اعلی مقرر کیا جائے گا۔
عیسائیوں نے جب اپنے مخبروں کی زبانی سنا کہ شیر کوہ اوراس کا بھتیجا صلاح الدین لشکر لیے مصر کی طرف آرہے ہیں تو وہ مصر چھوڑ کر بھاگ نکلے اور صلاح الدین ساٹھ ہزار کا لشکر لیے فاتحانہ شان سے مصر میں داخل ہو گئے ۔ مگر شیر کوہ وزارت پر فائز ہونے کے بعد کچھ دن تک جینے کا موقع نصیب ہو سکا ۔ 1188ءمیں دنیا سے چلا گیا? مگر جاتے ہوئے اپنی غیر معمولی شجاعت اور انداز تدبر کی دھاک ضرور دلوں پر بٹھاتا گیا۔ فاطمی خلیفہ عاضد نے تمام دعویداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے مصر کی خلافت کا قلمدان صرف صلاح الدین ہی کے سپرد کر دیا اور ملک النا صر کا خطاب دیا۔
اس زمانے میں جب صلاح الدین کو مصر کی خلافت ملی اس کی عمر بتیس برس تھی ۔ صلاح الدین نے وزارت کی مسند پر بیٹھتے ہی سب پہلا کام یہ کیا کہ اس کے چچا شیر کوہ نے جس قدر دولت جمع کی ہوئی تھی سب کی شام کے لشکر میں تقسیم کردی اور مصر کے خزانے سے بھی مصر کی فوج کی تالیف قلوب کے لیے مال و دولت اور جاگیر یں عطا کیں ۔ اس کے علاوہ فوجی افسروں کے عہدوں میں بھی ترقیاں کیں ۔
صلاح الدین کی وزارت میں جو سب سے بڑا کارنامہ انجام دیا گیا ۔ یہ تھا کہ رعیت کی جان و مال کی حفاظت اور ان کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا۔ ان پر عدالت کے دروازے ہمہ وقت کھول دیے ? ان کاموں سے عوام کے دلوں میں صلاح الدین کی محبت نے گھر کر لیا۔ مسلمانوں کی باہمی نااتفاقی کے سبب جو علاقے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے ? جب ان کے واپس لینے کی آرزو ئیںصلاح الدین کے دل میں چٹکیاں لینے لگیں تو 1190ءمیں صلاح الدین ایک فوجی منتظم اور سپہ سالار کی حیثیت سے بڑھا اور ایک ایک کر کے وہ تمام علاقے لیتا چلا گیا جو مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکے تھے ۔ صلاح الدین نے سب سے پہلے عسقلان کا رخ کیا۔ کچھ ہی فاصلے پر شاہ فرانس اور مختلف عیسائی گروہوں کے لشکر وں کے درمیان معرکہ آرائی ہوئی ۔ شاہ فرانس اور عیسائی لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا اور صلاح الدین فتح ونصرت کے شادیانے بجاتا ہوا اعسقلان کی مہم کو یہیں چھوڑ کر ایلہ پر حملہ کی تیاری کرنے کے لیے مصر واپس چلا گیا۔ ایلہ 1190ءمیں صلاح الدین کے قبضے میں آگیا۔ ایلہ کی مہم سے فارغ ہونے کے بعد صلاح الدین نے دوبرس مصر کے اندرونی نظم و نسق کا جائزہ لینے اور اس کی خرابیوںکو دور کرنے میں صرف کیے ۔ بحری اور بری فوجوں کو درست کیا اور ایک حد تک مالیات کے صیعے کی بھی اصلاح کی ۔ اس کے بعد 1192ءمیں شام کی جانب شہر کر ک پر چڑھائی کی ۔ مگر بعض ملکی معاملات کی پیچیدگیوں کے سبب اسے محاصر ہ اٹھانا اور مصر واپس آنا پڑا۔ صلاح الدین 1194ءمیں دمشق جا پہنچا ۔ ایسے موقع پر جبکہ مسلمانوں میں تخت نشینی کے مسئلہ پر سخت نزاع برپا ہو رہا تھا ? صلاح الدین کی آمد مسلمانوں کے لیے عید سے کم نہ تھی ۔ عیسائیوں کے ساتھ سلطان کے مجاہدات کا آغاز 1198ءمیں ہو اجب عیسائیوں نے ایک لشکر جرارلے کرد مشق کار خ کیا۔ صلاح الدین ایوبی نے انہیں روکنے کے لیے اپنے بہادر بھیتجے فرخ شاہ کو ایک لشکر دے کر بھیج دیا اور پھر خود بھی لشکر لے کے عیسائیوں کے حملے کی جواب دینے کے لیے کسی دوسرے راستے سے چل دیا ۔ تاہم ? عیسائی سلطان کے پر جوش حملے کی تاب نہ لا کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ قلعے پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ۔ 1203ءمیں سلطان نے بیسان پر چڑھائی کی ۔ یہاں کے عیسائی شہر خالی کر کے پہاڑوں پر چلے گئے اور وہیں سے تیر پھینکنے لگے ? چار پانچ دن اسی حالت میں گزرگئے۔بالاخر مسلمانوں نے بیسان پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد سلطان جالوت نام کے ایک شہر کی سرحد میں داخل ہوا۔ جس روزسلطان اپنے لشکر کو لے کر پہنچا تھا اس کے آنے کا عیسائیوں کے دلوں پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ تمام دن خیموں میں پڑے رہے اور خوف کے مارے باہر نہ نکل سکے ? اور دوسرے دن لڑائی سے طرح دے کر اپنے اپنے مقامات کی طرف نکل بھاگے 1206ءتک سلطان نے عیسائیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی عداوت اور مخالفت کو روکنے کے لیے متعدد شہروں کو فتح کیا ۔ 1207ءمیں سلطان ایک بہت بڑے معرکے کے لیے تیار ہواَ اپنے بیٹے ملک الافضل کو سپہ سالار مقر ر کیا ۔ فوج کا ایک دستہ اپنے ساتھ لے کر اسلامی لشکر عکا کی طرف بڑھنے کا حکم دیا اور خود بصر ے کی طرف چل پڑا ۔ پرنس آرنلڈوالئی ار تاط نہایت بد عہد تھا۔ وہ اکثر حاجیوں کے قافلے لوٹ لیتا ۔ اس راستے سے چونکہ مسلمانوں کا ایک قافلہ نکلنے والا تھا اس لئے سلطان کے بروقت پہنچ جانے سے پرنس آرنلڈ کے ہوش و حواس درست ہو گئے اور قافلہ صحیح و سلامت وہاں سے گزر گیا۔
اب سلطان صلاح الدین جود مشق اور مصر سے بیت المقدس تک کے تمام راستوں اور اس کے شہروں پو قبضہ کرتے ہوئے آگے بڑھا ہے تو بیت المقدس کے غربی جانب جا پہنچا ۔ اس وقت عیسائیوں کا بیت القدس پر نہایت مضبوظ اور مستحکم قبضہ تھا اور شہر میں ایک لاکھ عیسائی موجود تھے ۔ سلطان نے پانچ روز تک خود چل کر فصیل کا معائنہ کیا۔ مگر فسیل کوہر جگہ سے مضبوظ اور مستحکم پایا۔ آخر کار شمالی جانب ایک مقام پر تجویر کیا گیا۔ جس کے بالکل سامنے کلیسائے صیحون واقع تھا ?اور نیایت چپکے چپکے رات کی تاریکی میںمورچے قائم اور منجنیق نصب کر لیے صبح ہوتے ہی مسلمانوں نے منجنیق سے پتھر پھنکنے شروع کر دیے تین دن اسی طرح گزر گئے ۔ عیسائیوں نے مسلمانوں کاخوب مقابلہ کیا۔لیکن بالاخر انہیں مسلمانوں سے صلح کر تے ہی بنی ۔ چنانچہ انہوں نے صلح کی درخواست پیش کی ۔ اس موقع پر سلطان کی بار گاہ میں روانہ کیا، جہان اس نے حاضر ہو کر سلطان کی خدمت میں صلح کی درخواست پیش کیا۔ اس موقع پر سلطان نے عفوردرگزر کرنے کو انتقام لینے پر ترجیح دی اور حکم دیا کہ فی مر دوس دینا ر ? فی عورت پانچ دینار اور فی بچہ دو دو دینا فدیے کے طور پر لے کر بیت لمقدس کے تمام عیسائیوں کو رہائی دی جاسکتی ہے اس کے علاوہ جو شخض اپنی رضا و رعبت سے مسلمانوں ہونا چاہیے وہ اسلام قبول کر کے ہمارا بھائی بن سکتا ہے۔ اس کے حقوق بھی وہی ہوں گئے جو ہمارے ہیں اس کے بعد سلطان دمشق واپس آگیا۔ اور دمشق اسے کچھ ایسا پسند آیا کہ پھر کبھی مصر جانے کا خیال بھی نہ کیا۔ 1213ءمیں ستاون برس کی عمر میں سلطان اللہ کو پیارا ہو گیا۔

خواجہ بختیا رکا کی امام احمد بن حنبل شیخ الحدیث سید احمد علامہ ابو البرکات


خواجہ بختیا رکا کی
1
خواجہ بختیا رکا کینام
وجھ شھرت
آپ کاکی کے نام سے مشہور ہو گئے۔

ماورالنہر میں پیدا ہوئے۔ نام بختیار قطب الدین لقب ، کاکی خطاب تھا

۔شجرئہ نسب یوں ہے۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، ابن کمال الدین بن موسیٰ بن احمد اوشی بن کمال الدین بن محمد بن احمد بن رضی الدین بن حسام الدین بن رشید الدین بن جعفر بن نفی الوجود بن علی موسیٰ رضا بن موسیٰ کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقر بن علی زین العابدین بن امام حسین بن حضر ت علی۔
کاک کہتے ہیں روٹی کو اس سے متعلق حکایات تو بڑی دلچسپ اور عجیب و غریب ہیں ۔ خلاصہ ان سب کا یہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ کی بیگم صاحبہ سے ایک روز ایک بنیے کی بیوی نے طنزاً کہ دیا کہ اگر میں تمہیں قرض نہ دوں تمہارے بچے بھوکوں مر جائیں، آپ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے قرض لینے سے روک دیا۔ اور فرمایا کہ روزانہ حجرے کے طاق سے ?بسم اللہ الرحمٰن الر حیم ?پڑھ کر جس قدر کاک کی ضرورت ہو لے لیا کریں ۔ اور بچوں کو کھلا دیا کریں ۔ چنانچہ اسی واقعے کی بنا پر آپ کاکی کے نام سے مشہور ہو گئے۔ خواجہ بختیار کاکی کاسلسہ نسب 14 واسطوں سے جناب امام حسین سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد محترم جناب خواجہ کمال الدین احمد بھی ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ خواجہ بختیار کاکی ابھی ڈیڑھ سال ہی کے تھے۔ کہ آپ کے والد ماجد انتقال کر گئے۔ اور گھر کا تمام بوجھ آپ کی والدہ محترمہ کے کندھوں پر آ ن پڑا۔
ابو حفص نام کے ایک باکمال بزرگ سے جناب خواجہ صاحب نے علوم دین حاصل کیے۔ پھر اپنی خداداد لیاقت سے تھوڑے ہی دنوں میں تبحر علمی پیدا کر لیا۔ جب خواجہ معین الدین چشتی پھرتے پھراتے اصفہان آئے تو آپ ان کے مرید ہو گئے۔ مرید کیا ہوئے۔ پھر عمر بھر کے لیے انہی کے ہو رہے۔ جب خواجہ معین الدین چشتی واپس ہندوستان آئے تو آپ سے ان کی جدائی گوارا نہ ہو سکی۔ چنانچہ آپ بھی وطن کو خیر آباد کہہ کر ملتان ہوتے ہوئے جناب شیخ بہائو الدین زکریا ملتانی اور شیخ جلال الدین تبریزی کی مہمانی میں رہ کر اپنے پیرو مرشد جناب خو اجہ معین الدین چشتی کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔
سلطان شمش الدین التمش کا عہد حکومت تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ جناب خواجہ بختیار کاکی دہلی تشریف لائے ہیں ۔ اسے بزرگوں سے بڑی عقیدت اور محبت تھی۔ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ جنگل سے شہر چلے چلیں۔ اور ہمیں اپنی خدمت کرنے کا موقع دیں۔ لیکن آپ نے اس سے عذر کر دیا اور کہا کہ شہر میں پانی کی قلت ہے۔ اس لئے میرے لیے یہی جگہ مناسب ہے۔ سلطان کا قاعدہ تھا کہ ہفتہ میں دو بار ضرور خدمت میں حاضر ہوتا۔ اور اس بات کا طالب رہتا کہ آپ کسی چیز کی فرمائش کریںتو میں لا کر حا ضر کر دوں۔ لیکن آپ نے بادشاہ سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا۔ لوگ جوق درجوق آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اورفیض پاتے ۔ آپ کی برکتوں کا یہاں تک اثر ہوا کہ ایک مرتبہ جب خواجہ معین الدین آپ سے ملنے کے لیے دہلی تشریف لائے اور واپسی میں آپکو بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو ہر طرف سے خلق خدا جناب خواجہ کی خدمت میں آ ،آ کر عرض کرتی کہ بابا بختیار کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں انہیں دہلی ہی میں رہنے دیں۔ چنانچہ لوگوں کے اصرار پر آپ کو اپنا ارادہ بدلنا پڑا۔
جب شیخ الاسلام مولانا جمال الدین بسطامی کے انتقال پر مر حوم کا عہدہ خالی ہو گیا تو سلطان التمش نے آپ سے در خواست کی کہ شیخ الا سلامی کا منصب قبول فرمائیں۔ آپ نے فرمایا ہم درویشوں کو اس سے کیا تعلق؟ جناب خواجہ بختیار کاکی کا قاعدہ تھا کہ وہ اوراد و وظائف گوشہءتنہائی میں کرتے تھے۔ اور اپنے مریدوں کو بھی یہی رائے دیتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنے خلیفہ و مرید جناب شیخ فرید الدین گنج شکر سے بھی یہی فرمایا کہ اوراد و وظائف علیحدگی میں نہ کرنے سے شہرت ہوتی ہے۔ اور شہرت ہم فقیروں کے لیے سخت آفت ہے۔
خواجہ بختیار کاکی نے 234ھ میں انتقال کیا۔ اور دہلی (مہر ولی)ہی میں مدفون ہوئے ۔ طبعیت کا عالم یہ تھا کہ باوجود تنگ دست ہونے کے کبھی کسی سائل کو مایوس نہیں جانے دیا۔ لنگر خانے میں جو چیز آتی اسے فوراً فقرا و مساکین میں تقسیم کر دیتے تھے۔ اور جس روز کوئی چیز نہ ہوتی تھی خادم سے فرماتے اگر آج لنگر میں کچھ بھی نہیں تو پانی کا دور چلائو۔ تقسیم اور عطا و بخشش سے آج کا دن بھی خالی کیوں جائے۔ شان فقر یہ تھی کہ ایک مرتبہ شاہی حاجب اختیار الدین ایبک آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کئی گائون بطور نذر پیش کیے۔ آپ نے فرمایا جس کا دل اللہ کی یاد سے آبا د ہو وہ گائون لے کر کیا کرے گا۔ چنانچہ ائندہ کے لیے تنبیہ کر کے واپس کر دیے۔ آپ کے نام سے دو کتابیں بیان کی جاتی ہیں ۔ ایک دیوان ، دوسری فوائد السلوک ۔ جن میں آپ کے ملفوظات ہیں اور انہیں آپ کے خلیفہ و مرید جناب فرید الدین گنج شکر نے ترتیب دیا ہے۔

امام احمد بن حنبل
المجد دین ?امام المصلحین امام احمد ابن حنبلنام
788ئتاریخ پیداءش
وجھ شھرت
اسلامی تاریخ کی جلیل القدر اور عظیم المرتیب شخصیت

حنبلی مکتب فکر کے بانی اور امام ہیں 'ان کا امت کے نامور مجہتدین میں شمار ہوتا ہے 'ان کی فقہ حنفی 'مالکی اور شافعی فقہ کی طرح آج بھی عالم اسلام میں زندہ ہے۔

امام احمد بن حنبل اسلامی تاریخ کی وہ جلیل القدر اور عظیم المرتیب شخصیت ہیں جن کے پایہ استقلال میں نہ حکمرانوں کا رعب وجلال اور تازیانے لغزش پیدا کر سکے اور نہ سیم وزر کی زنجیریں قصر سلطانی کے گنبد پر اپنا نشیمن بنانے پر آمادہ کر سکیں '

جن کا نور حق وصدق سے منور کردار اہل سنت اور اہل بدعت کی شناحت کا معیار بن گیا۔دنیا انہیں المجد دین 'امام المصلحین امام احمد ابن حنبل کے نام سے جانتی ہے۔وہ حنبلی مکتب فکر کے بانی اور امام ہیں 'ان کا امت کے نامور مجہتدین میں شمار ہوتا ہے 'ان کی فقہ حنفی 'مالکی اور شافعی فقہ کی طرح آج بھی عالم اسلام میں زندہ ہے۔


امام احمد بن حنبل 788 ء میں پیدا ہوئے۔ نسلًاخالص عرب تھے۔ان کا قبیلہ بصرہ میں رہتا تھا اور ان عرب قبائل میں سے تھا جو قبیلہ شیبان سے تعلق رکھتے تھے۔امام احمد کے دادا حنبل بن بلال 'بصرہ سے خراسان چلے گئے 'وہیں اموی فوج میں شامل ہوئے اور ترقی کرتے کرتے کمانڈر بنے 'پھر سرخس کے گورنر مقرر ہوئے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے عہد میں فوج کے اعلی کمانڈر ہی گورنر مقرر کئے جاتے تھے۔


جب عباسیوں نے اہل بیت اور بنو ہاشم کے نام سے خراسان میں اپنی دعوت شروع کی 'تو حنبل اس دعوت کے ہمدردوں اور کار کنوں میں شریک ہو گئے اور اس راہ میں بڑی تکالیف اٹھائیں۔امام احمد کے والد مہمد بن حنبل بھی فوجی تھے۔ابھی امام صاحب پیدا نہیں ہوئے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا۔

امام صاحب کی والدہ مرو سے بغداد آئیں اور یہیں امام صاحب پیدا ہوئے۔ان کی والدہ بڑی باہمت اور حوصلہ مند خاتون تھیں۔ شوہر نے مختصر سی جائیداد چھوڑی تھی۔اسی پر تنگی ترشی سے گزر بسر ہوتی۔اسی طرح امام صاحب بچپن ہی سے صبر وشکر 'قناعت 'جفاکش 'بلند ہمتی 'زمانے کی مشکلات اور سختیوں کا سامنا کرنے کے خوگر ہو گئے۔

امام احمد بغداد ہی میں پلے اور پروان چڑھے۔اس زمانے کا بغداد پوری دنیا میں اسلام کا دارالخلافہ اور علم وتہذیب کا مرکز تھا 'وہاں فنون ومعارف کا بحر ذخار موجزن تھا۔بڑے بڑے علماء محدث 'زبان دان 'فقیہہ اور فلسفی موجود تھے اور علم کے پیاسے علم وفن کے اس منبع سے فیض یاب ہونے کے لئے چاروں طرف سے امڈ کر آرہے تھے۔

امام صاحب کو تو گویا یہ منبع گھر بیٹھے میسر آگیا۔ان کی والدہ خاندانی روایات کے برعکس اپنے بچے کو عالم بناناچاہتی تھیں'چنانچہ ابہی چھوٹے ہی تھے کہ مکتب میں بٹھا دئیے گئے سب سے پہلے قرآن کریم حفظ کیا۔ پھر علم لغت حاصل کیا'اس کے بعد لکھناسیکھا۔اللہ تعالیٰ نے بے پناہ حافظہ دیاتھا۔ایک بارجو کچھ پڑھتے یا سنتے'ذہن میں گویا نقش ہوجاتا 'جلد ہی انہیں مثالی طالب علم سمجھاجانے لگا۔نہایت مہذب 'لوگ اپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت ان کی مثال سامنے رکھتے۔ان کی صلاحیتیں' تقویٰ وطہارت اور اطوار وخصائل دیکھ کر اصحاب نظر کہا کرتے تھے کہ یہ بچہ اگر زندہ رہا تو اپنے عہد کا مردکامل اور اہل زمانہ کے لئے حجت بنے گا۔

ابتدائی تعلیم سے فارغ ہو کر امام احمد حدیث کی طرف متوجہ ہوئے۔بغداد کے بڑے بڑے محدثین کے آگے زانوء تلمذ تہہ کیا۔ دارالخلافے کے علمی سر چشموں سے فیض یاب ہو چکے تو بصرہ حجاز یمن شام اور جزیرے کا سفر کیا اور ہر جگہ کے نا مور محدثین سے استفادہ کیا۔امام شافعی سے پہلی ملاقات اور ان کی شاگردی کی سعادت حجاز کے پہلے
سفر میں حاصل ہوئی۔

طلب حدیث کی راہ میں ہر طرح کے مصائب اور شدائد جھیلتے اور کالے کوسوں کا فاصلہ پیدل طے کر کے علم وفضل کے ان سر چشموں تک پہنچتے جن کا چرچا بلاد اسلامیہ میں دور دور تک پہیلا ہوا تھا 'چنانچہ ان کے درس میں طلبہ اور ان کے سامعین کا زبردست ازدہام ہوتا۔ شاگردوں کا خاص حلقہ وہ تھا۔جو امام صاحب کے گھر جا کر ان سے حدیث سنتا اور لکھتا۔درس کی یہ محفلین نہایت باوقار 'پرسکون اور سنجیدہ ہوتیں۔حاضرین ادب اور وقار کے ساتھ بیٹھتے۔

معتزلہ کی تحریک بنو امیہ کے دور میں شروع ہو گئی تھی تاہم اسے فروغ عباسیوں کے ابتدائی عہد میں ملا۔خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے تک ایک اچھا خاصا نام نہاد روشن خیال طبقہ وجود میں آگیا اور جیسا کہ ہر زمانے میں دیکھنے میں آیا ہے اس روشن خیالی سے متاثر لوگ زیادہ تر اونچے مرفہ الحال اور غیروں کی فکری غذا پر پلنے والے دانش ور طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔

یہ تحریک آزادی فکرو رائے 'آزادی ضمیر اور رواداری کے نام پر اٹھی تھی۔مگر امام صاحب اپنے موقف پر پہاڑکی طرح قائم رہے۔بغداد کا نائب حاکم اپنے آپ کو عزم وثبات کے اس پیکر کے آگے بے بس پا رہا تھا کہ مامون کا فرمان گویا اسے اس بے بسی سے نجات دلانے کی نوید بن کر آیا۔

اس نے امام صاحب کو بیڑیوں میں جکڑ کر پولیس کے ایک دستے کی حراست میں طرطوس روانہ کر دیا۔اس قافلے نے چند ہی منزلیں طے کی تھیں کہ مامون کے انتقال کی خبر ملی۔وہ اچانک بیمار ہوا اور چند روز موت و حیات کی کشمکش میں گرفتار رہ کر اپنی فرد عمل کا حساب دینے کے لئے حضور حق تعالیٰ میں پہنچ گیا تھا۔

نئے احکام صادر ہونے تک امام احمد اور ان کے جلیل القدر ساتھی کو رقہ کے زنداں میں پہنچادیا گیا۔ پھر انہیں بغداد لے جایا گیا۔ وہاں پہنچنے پر امام صاحب نے رات معتصم کے محل کے اندھیرے بندی خانہ میں رکوع و سجود میں گزاری۔ صبح ہوئی تومعتصم کا قاصد انہیں دربار میں لے گیا۔ قاضی القضا ابن ابی داؤد اور اس کے ہم مشرب بھی بڑی تعداد میں حاضر تھے امام صاحب کی حاضری سے چند لمحے پہلے دو آمیو ں کی گردنیں ماری جا چکی تھیںاور ان کے لاشے وہاں پڑے تھے۔

معتصم نے انہیںبیٹھ جانے کو کہا۔امام صاحب بیڑیوں کے بوجھ سے تھک گئے تھے ،اجازت پاکر بیٹھ گئے۔
پھر بولے :
''مجھے کچھ کہنے کی اجازت ہے ''معتصم نے کہا،''ہاں بولو!'' امام صاحب نے کہا ''میں پوچھناچاہتا ہوں کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس چیز کی طرف دعوت دی ہے ''امام صاحب کی آواز بلند ہوگئی تھی۔ کچھ دیر خاموشی طاری رہی ، پھر معتصم نے کہا : ''لا الہ الا للہ کی شہادت کی طرف !''امام صاحب نے فرمایا :'' تو میں اس کی شہادت دیتا ہو ں''

امام احمد کے منشاء کو سمجھ گیا تھا۔ چنانچہ اسے اس کے سوا کوئی جواب نہ بن پڑا کہ احمد ! میرے پیشرو نے اگر تمہیں گرفتار نہ کیا ہوتا تو میں تم سے کوئی تعرض نہ کرتا۔''
امام احمد اپنی گرفتاری کے بعد 28 مہینے تک قیدو بند کی اذیتوںمیں مبتلا رہے۔ان کو تینتیس چونتیس کوڑے مارے گئے۔

یہ سارا عرصہ امام صاحب نے بڑے حوصلے اور جرات و وقار کے ساتھ گزارا۔ آخر امام صاحب کے صبرو استقامت کے آگے ظالموں کا جبرو تشدد جواب دے گیا ، چنانچہ انہیں رہا کردیا گیا اوراس حالت میں گھر پہنچے کہ زخموں سے چور تھے۔صحت یاب ہونے پر درس حد یث پھر شروع کر دیا۔معتصم کے بعد واثق تخت خلافت پر بیٹھا۔ اس نے جسمانی ایذا تو نہیں دی ،البتہ امام صاحب کو ان کے گھر میں نظر بند کر دیا۔

اس کے مرنے کے بعد متوکل خلیفہ بنا تو فتنے کے رہے سہے بادل بھی چھٹ گئے اور مطلع بالکل صاف ہو گیا۔متوکل نے امام احمد کی نظر بندی ختم کر دی اورپچھلے مظالم کی اپنے جودو کرم سے تلافی کرنا چاہی اور انعام و عطیات سے نوازنے کی کوشش کی۔ امام صاحب جنہوں نے کوڑوں کی مار بڑے تحمل سے برداشت کر لی تھی اس تازہ آزمائش پر چیخ اٹھے کہ یہ آزمائش کوڑوں کی مار سے زیادہ سخت ہے۔

تاہم انہوں نے اپنے دامن کو اس آلائش سے آلودہ نہ ہونے دیا۔ ایک بار انہوں نے متوکل کے بھیجے ہوئے ایک لاکھ کے خطیر عطیہ کو واپس کرتے ہوئے فرمایا : '' میں اپنے مکان میں اپنے ہاتھ سے اس قدر کا شتکاری کر لیتا ہوں ، جو میری ضرورت کے لئے کافی ہے اس بوجھ کو اٹھا کر کیا کروں گا ؟''

خیر و صلاح تدوین ھد یث ، اتباع سنت اور دفاع حق و صدق سے عبارت بھرپور زندگی گزارنے کے بعد امام احمد کا 77 برس کی عمر میں جب انتقال ہوا تو آٹھ لاکھ مرد اور ساٹھ ہزار عورتیں بادل مجروح و مخروں ان کے جنازے میں شریک تھیں۔


شیخ الحدیث سید احمد علامہ ابو البرکات
شیخ الحدیث سید احمد علامہ ابو البرکاتنام
1886تاریخ پیداءش
وجھ شھرت
علم وفضل
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے قائم کردہ مدرستہ قوت الاسلام (الور ) میں حاصل کی۔ پھر مراد آبادی کے مدرسہ اہل سنت مراد آباد میں داخلہ لیا

۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے قائم کردہ مدرستہ قوت الاسلام (الور ) میں حاصل کی او30 اپنے والد سے صرف ونحو ، اصول ، منطق اور فلسفہ کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر حضرت مولانا حکیم سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کے مدرسہ اہل سنت مراد آباد میں داخلہ لیا اور درس نظامیہ کی آخری موقوف علیہ کتابیں پڑھیں ۔ جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں آپ نے حضرت کے زیر تربیت مناظرہ توقیت فلکیات اور فلسفہ میں بھی مہارت حاصل کی ۔ فن طب کی کچھ کتابیں بھی حکیم سید محمد نعیم الدین حکیم حاذق سے پڑھیں ۔ پھر طب باقاعدہ تعلیم وتربیت شفاءالامراض کے منصف حکیم مولانا نور کریم کے شاگرد سے حاصل کی اور ان کے مطب مراد آباد میں مطب کی عملی تربیت بھی حاصل کی ۔
جامعہ نعیمیہ مراد آباد سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے والد سید دیدار علی شاہ سے دور ہ حدیث پڑھا اور احدیث کی خصوصی سند وتمام سلاسل اولیا ءکے معمولات وظائف کی اجازت وخلافت حاصل کی ۔ 1915ءمیں بریلی شریف حاضر ہوئے اور کچھ عرصہ اعلی حضرت فاضل بریلوی کے زیر تربیت رہے ۔ آپ دوسرے علماءکے ساتھ فتویٰ نویسی پر مامور ہوئے جس کی نگرانی اعلی حضرت خود فرماتے تھے، فتوی رضویہ کی جلد اول اور بہار شریعت کے پہلے حصے آپ کی نگرانی میںطبع ہوئے ۔ اعلی حضرت نے تمام علوم عالیہ اسلامیہ قرآن وحدیث وفقہ کی خصوصی سند اپنے دست خاص سے لکھ کر عنایت فرمائی۔ 1920ءکے آغاز میں جب حضرت سید دیدار علی شاہ مستقل سکونت کے ارادہ تشریف لائے تو آپ کی جگہ حضرت ابو البراکات جامع مسجد آگرہ کے خطیب ومفتی مقرر ہوئے ۔ یہ دور بڑا پر آشوب تھا ۔ نت نئے فتنے جنم لے رہے تھے ۔ حضرت ابو البراکات نے دوران خطابت آگرہ درس وتدریس ? وعظ ونصیحت کے سلسلے کو بحسن وخوبی انجام دیا اور مسلک اہل سنت والجاعت کی تبلیغ واشاعت کے لئے کوشاں رہے۔1933ءمیں جامع مسجد مزار حضرت داتا گنج بخش کی خطابت کے لئے آپ لاہور تشریف لائے ۔ اسی دوران میں دارالعلوم حزب الاحناف کی ابتدا ہوئی تو مولانا ابوالبرکا ت کو اس مدرسے میں مدرس مقرر کیا گیا ۔ آپ کے علم وفضل کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیل گئی اور دوسرے شہروں سے طالبان علوم دینیہ لاہور پہنچنے لگے اور آپ کے علم وفضل سے استفادہ کرنے لگے ۔ ٦٢٩١ءمیں آپ نے لوکور ورکشاپ لاہور کی مسجد میں جمعہ پڑھانا شروع کیا اور ٢٥ سال تک مسلسل یہ خدمت انجام دیتے رہے ۔ تحریک پاکستان کی حمایت ونصرت کا مرحلہ آیا تو آپ نے دو قومی نظریہ اور قرار داد پاکستان کی بھر پور حمایت کی ۔ کانگرسی علماءکی تردید اور نظریہ پاکستان کی تائید کے لئے اپنے دارالعلوم کے سالانہ جلسوں کو وقف کر دیا ۔ ٠٣ اپریل ٦٤٩١ءآل انڈیا سنی کانفرنس کا بمقام شاہی باغ فاطمان بنارس میں انعقاد ہوا اور پاکستان کی حمایت میں پر زور قرار داد منظور کی گئی اس قرار داد پر مولانا ابوالبرکات کے علاوہ تقریباًدو ہزار قرار علماءاور مشائخ نے دستخط کئے ۔ قیام پاکستان کے بعد نظام مصطفی کے قیام ونفاذاور اہل سنت کی تعمیر وتنظیم کے لئے ہر ممکن سعی فرمائی ۔
٩٤٩١ءمیں جب پہلی دستور ساز اسمبلی قائم ہوئی تو آپ نے قرار داد مقاصد کی تربیت میں حصہ لیا اور پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ وقیام کے لئے ہر ممکن کوشش کی ۔ مولانا ابوالبرکا ت نے اپنی تدریسی وتبلیغی مصروفیات کے باوجود ہر سیاسی ودینی تحریک کا جائزہ لیا اور اپنا دینی وملی فرض کماحقہ ادا فرمایا ۔ قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد جس قدر تحریکیں اٹھیں ۔ آپ نے ان میں اپنا کردار ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی ۔ تحریک خلافت ? شدھی ? ترک موالات ? ہندو مسلم اتحاد ? مسجد شہید گنج ? خاکسار تحریک ? احرار کشمکش ? مجلس اتحاد ? تحریک آزادی ہنداور تحریک پاکستان وغیرہ جس قدر تحریکیں اٹھیں آپ نے بلاخوف شریعت اسلامیہ کی رو سے جو بات حق ثابت ہوئی اس سے عوام کو آگاہ کیا ۔
شریعت کی پابندی اور سنت رسول کی پیروی ان کی طبیعت ثانیہ تھی ۔ ہر بات اور ہر کام میں احکام شریعت کا خیال رکھتے تھے ۔ ان کی پوری زندگی سنت رسول کی تصور تھی ۔ آپ کی موجودہ تصانیف درج ذیل ہیں ۔
١۔ فتح مبین
٢۔ دبوس المقلدین
٣۔ترجمہ تمہیدابوشکور سلمی
٤۔ مناظرہ تلون
٥۔ضیاءالقنادیل
٦۔مناظرہ ترن تارن
٧۔اثبات قبہ جات
٨۔القول الصواب
آپ کے وہ فتوے جو ضبط تحریر میں آکر رجسٹرمیں درج ہو سکے وہ بھی متعدد جلدوں میں محفوظ ہیں اور ہر جلد تقریباً سوا دو سو صفحات پر مشتمل ہے ۔ آپ نے ٨٧٩١ءمیں وفات پائی اور مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف گنج بخش روڈ نزد مزار حضرت داتا گنج بخش کے احاطے میں آسود خاک ہوئے ۔ حضرت ابوالبرکات کا شمار ان معدودے چند علماءکرام میں ہوتا ہے جن کی علمی فضیلت ? تقوی وطہارت اور عظمت کردار کو اپنے پرائے سب قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آپ آسمان علم وحکمت کے مہردرخشاں تھے جس کی ضیاءپاشیوں سے ہزار طالبان رشد وہدایت فیض یاب ہوئے ۔ آپ اپنے ان اوصاف حمیدہ کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے