Monday, October 19, 2009

عمروبن عاص ByMuhammadAmirSultanChishti923016778069

عمروبن عاص
:
عمروبن عاصنام
667ئتاریخ پیداءش
وجھ شھرت
عمروبن عاص نے شام اور فلسطےن کو بھی فتح کےا ?لےکن آپ کا اصل کارنامہ مصر کی فتح ہے۔ ےہی آپ کی وجہ شہرت بھی بنی۔
خود رسول اکرم نے سریہ ذات السلاسل کی امارت کے لیے عمروبن عاص کو منتخب فرمایا

آپ قریش کے ایک مشہور قبیلہ سہم سے تھے ۔ یہ قبیلہ کعب پر آکرپیغمبراسلام علےہ الصلوة والسلام کے نسب سے جا ملتا ہے۔ شعر وادب اور سخاوت ومہمان نوازی اس قبیلے کا امتیازی وصف ہے عمروبن عاص کی ولادت واقعہ فیل سے چھ سال بعد مکہ میں ہوئی۔ آپ کے والد عاص کی دو بیویاں تھےں۔ ایک سلمہ دوسری ہرملہ مگر اسلام کی سعادت صرف سلمہ ہی کے اس بیٹے عمروبن عاصکونصیب ہوئی فتوحات اسلامی مےمی جن کا نام خاص طور پر نمایا ں ہے ۔ اگرچہ اس زمانے میں لکھنے پڑھنے کا کوئی خاص رواج نہ تھا۔ تاہم عمروبن عاص نے باقاعدہ طور پر لکھنا پڑھنا سیکھ لیا اور اس میں کافی حد تک مہارت بھی پیدا کرلی تھی ۔ نیز معاملہ فہمی?دوراندیشی?عزم و استقلال?ہمت اور اولوا لعزمی توانہیں ورثے میں ملی تھی۔اسلام سے عداوت اور دشمنی قریش کے دوسرے قبیلوں کی طرح بنی سہم کو بھی خاص طور سے تھی ۔ عاص بن دائل اور خود عمروبن عاص کا نام جہالت کے ایام میں اسلام کے دشمنوں کی فہرست مےں تھا حتی کہ عمروبن عاص نے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی تھی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اب ان کی عداوت اور دشمنی کا رخ کفر کے مٹانے کی طرف پھر گیا۔ انہوں نے اس بات کا عہد کیاکہ اب اس کے بعدمیری تمام ذہنی اور جسمانی صلاحیت اسلام ہی کی خدمت اور مسلمانوں ہی کی ترقی اور حفاظت میں صرف ہوگی

یہ بات عمروبن عاص کے اسلامی جذبات ہی کانتیجہ تھی کہ انہیں حضورنے بعض اہم غزوات وسرایا کی امارت سپرد فرمائی۔ صحیح بخاری مےں لکھا ہے بلکہ یہ بات خود عمروبن عاصہی نے بیان کی کہ ایک مرتبہ پیغمبراسلام نے مجھے کہلا بھیجاکہ مےں فوج کی وردی اور ہتھیار پہن کر ان کی خدمت میں حاضر ہوجاو?ں۔ خود رسول اکرم نے سریہ ذات السلاسل کی امارت کے لیے عمروبن عاص کو منتخب فرمایا اور انہیں اپنے دست مبارک سے ایک سفید علم بھی عنایت کےا۔ جب اسلام کا لشکر سر جذام کے چشمے?سلاسل ? پہنچا تو معلوم ہوا کہ معرکہ سخت اور دشمنوں کی فوج اسلام کے لشکر کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ حضرت عمروبن عاص نے اس کی اطلاع حضور کی خدمت مےں بھجوائی اور حضور نے اسی وقت دوسو صحابہ کو جن مےں سیدناابوبکر صدیق ?سیدنا عمرفاروقاور حضرت ابو عبیدہ ابن الجراح ایسے جلیل القدر صحابہ بھی شامل تھے بطور کمک بھیج دیا اور نصیحت فرمائی کہ سب مل جل کر رہنا ?کسی سے کوئی اختلاف نہ کرنا۔بلاذری نے لکھا ہے کہ قضاعہ کے علاقے میں پہنچ کر حضرت عمروبن عاصنے ایسی شجاعت اور بے جگری سے حملہ کےا کہ دشمن بری طرح پسپاہوا۔ ہزاروں آدمی مارے گئے اوربے شمار مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا ۔ اس مہم سے فارغ ہونے کے بعد عمروبن عاص ایک اور مہم پر بھیجے گئے ۔ یہ سریہ سواع تھا?جو بنی بذیل کے مشہور بت خانے سے متعلق تھا ۔ یہ بت?جوایک عورت کی شکل پر تھا ۔ مکہ سے تین میل کے فاصلے پر تھا۔ قبیلہ بذیل کے لوگ اس کو خدا سمجھتے تھے ۔ حضور نے اس بت کو ڈھانے کے لئے عمروبن عاصکو مقرر فرمایا۔

اس مہم کے بعد پھر عمروبن عاص کو کئی ایک قبیلوں سے خراج وصول کرنے کی مہم پر مقرر فرمایا گیا۔ جن مےں نجرین?سعد ہذیم?عذرہ?جذام ?جدس اور خزارہ ایسے قبیلے شامل تھے ۔ جنہوں نے جذیہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ حضرت عمروبن عاصان قبائل کے پاس گئے اور ان سے رقمیں وصول کیں اور پائی پائی لاکر حضور کی خدمت اقدس میں پیش کردی۔حضرت عمروبن عاص تنہا شجاعت اور تلوائی کے دھنی نہ تھے ۔ فہم وفراست ?تدابیروسیاست میں بھی قدرت کا وافر حصہ پایا ۔ چناچہ حضورنے ان کی جنگی مہارت اور سیاسی بصیرت کو دیکھتے ہوئے اہلیت اور صلاحیت پر انہیں اسلامی سفارت کا عہدہ بھی تفوض فرمایا۔حضور کی رحلت کے بعد ابوبکر صدےق خلیفہ ہوئے تو بے حد نازک وقت تھا ۔ جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور انہیں ذاتِ رسالت مابکی بابرکت صحبت میسر نہ آسکی ۔ وہ اسلام کی تعلیمات کو پورے طور پرنہ سمجھنے کے باعث دین سے پھر گئے اور ان سب نے بیک زبان زکوةدینے سے انکار کردیا۔ ہر چند ان حالات نے ابوبکر صدیق کو بڑی مشکل مےں ڈال دیا تھا ۔ تاہم انہوں نے نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے کی پورے طور پر ٹھان لی۔

حضرت ابوبکر صدیقنے حضرت عمروبن عاص کو بارگاہ خلافت میں طلب کیا اور وہ حکم کی تعمیل مےں عمان سے مدینے کو چل کھڑے ہوئے۔ راستے میںبنو عامر کے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔زکوة کے منکروں کی سرکوبی کے بعد حضرت عمروبن عاصمدینے سے ہوکر پھر عمان چلے گئے۔ لیکن ابوبکر صدیق کو جلد ہی پھر ان کی ضرورت پڑگئی اور انہیں بلا بھیجا۔ چنانچہ حضرت عمروبن عاصپھر مدینے پہنچ گئے ۔یہ موقع شام کی مہم کا تھا۔ ابوبکر صدیق نے شام کی مہم پر جانے والے لشکر کوچار حصوں میں تقسیم کیا۔ جب عمروبن عاص اپنے لشکر کے نو ہزار سر فروش مجاہدوں کو لے کر مدینے سے چلنے لگے ، تو سیدنا ابوبکرصدیق نے انہیں چند باتیں نصیحتوں کے طور پر اشارہ فرمائیں اور آخرمیں فرمایا ?اے عمروبن عاص جاو? اﷲ کی برکت اور اس کی رحمت تمہارے ساتھ ہے۔جب دونوں طرف سے فوجوں کی صف بندی ہوچکی اور ابتدائی انتظامات مکمل ہوئے?تب جنگ کا آغاز ہوا۔ جونہی رومیوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا وہ ان کے حملے کا بڑھ بڑھ کر جواب دینے لگے۔ حتی کہ لڑائی تمام دن جاری رہی۔ آخر مسلمانوںنے رومیوں کو بھگا دیا ۔ لیکن رومیوں کے بھاگتے ہوئے سپاہیوں نے پلٹ کے پیچھا کرنے والے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ اس حملے مےں حضرت عمروبن عاص کے سوتیلے بھائی سعیدبن خالد شہیدہوگئے ۔ جن کے صدمے سے آپ بے حد ملول ہوئے اور مسلمانوں کو للکاراکہ?اے بھائیو!سعید بن خالد بھی عالم بقامےں چل دیے ہےں اور اب مےں بھی جاناچاہتاہوں۔ تم مےں سے کوئی ایسا ہے جو میرا ساتھ دے گا۔?اس پر صحابہ کی اےک جماعت مستعد ہوگئی اور ایسی بے جگری سے لڑی کہ اےک ہی حملے مےں پندرہ ہزار سپاہیوں کو کاٹ کے رکھ دیا۔ اور سر زمےن فلسطین فتح کرلی۔ اس لڑائی مےں جو مسلمان شہید ہوئے۔ مورخےن ان کی تعداد صرف ایک سوتین بیان کرتے ہیں ۔

عمروبن عاص نے شام اور فلسطےن کو بھی فتح کیا?لیکن آپ کا اصل کارنامہ مصر کی فتح ہے۔ یہی آپ کی وجہ شہرت بھی بنی۔ مسلمانوں کو ڈر بھی تھا کہ روم کاقیصراب مصر کی طرف سے شام تک ملک پر حملہ کرے گا۔ عمروبن عاص نے اس خطرے کو ٹالنے کے لئے ضروری سمجھا کہ مصرفتح کر لیا جائے ۔ اس زمانے میں چونکہ طاعون کی وبا سے نجات ملے، مسلمانوں کو تھوڑی ہی مدت گزری تھی ۔ اور اس کے اثرات ابھی پورے طور پر زائل نہ ہوئے تھے ۔ اس لئے عمر فاروق ان حالات مےں اسلام کی فوج کو باہربھیجناپسند نہ کرتے تھے مگر حضرت عمروبن عاص کااصرار بڑھا ہوا تھا ۔ اس لئے دشمن کے خطرے کو سامنے رکھتے ہوئے رضا مند ہوگئے اور حضرت عمروبن عاص کو ایک ہزار فوج دے کر مصرکی طرف بھیج دےا۔ عمروبن عاص وادی العریش کے رستے مصر کی سرحد مےں داخل ہوئے۔ پہلے آپ نے عریش ور مح وغیرہ فتح کئے۔ پھر ایک قدیم اور تاریخی شہر فرما کو فتح کیا۔ یہ شہر کسی زمانے مےں اپنی سنگین فصیلوں? گرجوں? کلیساو?ں اور بلندعمارتوںکے لحاظ سے ساری دنیامیں مشہور تھا۔ فرماکے بعد شہر یلیں کو فتح کیا۔ جو مصر سے تیس میل کے فاصلے پر فرماکے جنوب مےں واقع ہے۔ عمروبن عاص دریائے نیل کے مغربی علاقوں کو فتح کرنے کے لئے آگے بڑھے ۔چنانچہ ?منف?پر حملہ کیا جس مےں مصریوں نے سخت شکست کھائی۔اس کے بعد انہوں نے شہر ہنساپر حملہ کےا ۔ جس میں رومی فوج کے سراغ رسانوں کی بہت بڑی تعداد مےدان جنگ مےں کام آئی اور مسلمانوں نے اس قلعے کا محاصرہ کرلیا جو کافی عرصے تک جاری رہا۔ مسلمانوں کے ڈر سے رومی قلعے میں ہی پڑے رہے۔

عین الشمس کی فتح کے بعد حضرت عمروبن عاص نے رومیوں کے مشہور قلعہ بابلیوں کا محاصرہ کرلیا۔یہ قلعہ انتہائی مضبوط اور وسیع تھا اور مصر کا بادشاہ مقوقس یہیں رہتاتھا۔اب دشواری یہ تھی کہ عمروبن عاص کے پاس نہ تو قلعہ شکن توپیںتھیں نہ زیادہ سامان حرب ۔اور مصری کھل کر سامنے آتے نہیں تھے اور اگر کبھی آتے تھے تو ایک آدھی معمولی جھڑپ کر کے پھر قلعے میں گھس جاتے تھے۔عرض اسی حال میں سات مہینے گزر گئے ۔آخر کار مقوقس گھبرا گیا اور درباریوں کی رضا مندی سے اس نے اسلامی سفیر کو طلب کیا۔عمروبن عاص نے حضرت عبادہ بن صامت کو دس آدمیوں کے ہمراہ بھیجا۔ حضرت عبادہ بن صامت کے واپس چلے آنے کے بعد مقوقس نے اپنے درباریوں سے پھر کہا کہ میرا دل کہتا ہے ۔مسلمان ہمارا قلعہ ضرور فتح کرلیں گے اس لئے مناسب یہی ہے کہ ان سے صلح کرلی جائے ۔لیکن رومی اس کی بات سن کر پھر غصے سے بپھر گئے اور اسی وقت آگ بگولہ ہو کر قلعے سے باہر نکل آئے اور آتے ہی مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔مسلمانوں کی خواہش تھی کہ رومی قلعہ سے باہر نکلیں اور کھل کر مقابلہ کریں۔اب ان کے آنے سے بہت خوش ہوئے اور بڑھ بڑھ کر داد شجاعت دینے لگے۔ حتی کہ رومیوں کے قدم اکھڑگئے اور بھاگ نکلے ۔ان انہیں بھی یہ احساس پیداہوگیا کہ مقوقس کی رائے ٹھیک ہی تھی ۔مسلمانوں سے صلح کر لینا ہی مناسب ہے۔چنانچہ مقوقس اپنے دوباریوں کے ہمراہ صلح کی درخواست لے کر عمروبن عاص کی خدمت میں حاضر ہوا۔عمروبن عاص نے اس کا نہایت فراخدلی سے استقبال کیا اور قدرے نرم لہجے میں فرمایا:?آپ بذات خود تشریف لائے ہم آپ کے ممنون ہیں۔?اس کے جواب میںمقوقس نے بھی سرجھکاتے ہوئے کہا??بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کویہ سر زمین عطا فرمادی ہے۔اب میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ رومیوں کے خلاف بالکل کوئی جنگ نہ کریں ۔?

صلح کر نے کے بعد مقوقس نے اس واقعے کی اطلاع قیصر روم کو بھجوا دی ۔ مگرقیصر روم خط دیکھتے ہی آگ بگولا ہوگیا اور اس نے فورا ایک فوج مسلمانوںسے لڑنے کے لئے مصر کی جانب روانہ کر دی۔ مقوقس یہ صورت حال دیکھ کر قلعے سے باہر چلاگیااور عمروبن عاص کو کسی سے کہلوابھیجا کہ میں اپنے عہد پر بدستور قائم ہوں۔ پھر اسی دوران میں اطلاع پہنچی کہ قیصر روم ہر قل مر گیا تو لوگوں نے کہا یہ سزا ہے مقوقس کی بات نہ ماننے کی جو خدا نے ہر قل کو اجل کے سپرد کردیا۔ اب اس کے بعد مسلمانوں نے بڑے جوش وخرش کے ساتھ رومیوں پر حملہ آ ورہونے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں جو صاحب سب سے آگے بڑھے وہ حضور کے پھوپھی زاد بھائی زبیر ابن العوام (حضرت عبد اﷲ بن زبیرکے والد ) تھے۔ انہوں نے رومیوں پر حملہ کرنے سے پہلے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا :?اے مسلمانو! میں اپنی جان اﷲ کے سپرد کر تا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اﷲ اس کے بدلے میں مسلمانوں کو ضرور فتح عطافرمائے گا۔?اوریہ کہتے ہی پھر قلعہ کی فصیل پرسیڑھی لگائی اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ جب میں نعرہ تکبیر بلند کروں تم پوری قوت کے ساتھ جواب دینا ۔ آپ تلوار ہاتھ میں لے کر نہایت پھرتی کے ساتھ دیوار چڑھ گئے اور نہایت بلند آواز سے تکبیر کہی جس کا باہر سے مسلمانوں نے پورے جوش وخروش سے جواب دیا۔ رومیوں نے اب جو تکبیر کے نعروں کاشوروغل سنا تو سمجھے کہ مسلمانوں نے قلعے کو فتح کرلیا? چنانچہ وہ اپنی جانیں بچانے کے لئے بدحواس ہوکر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ حضرت زبیر ابن العوام نے آگے بڑھ کر قلعہ کادروازہ کھول دیا۔

مہم سے فارغ ہو کر حضرت عمروبن عاص سکندر یہ کی طرف چل کھڑے ہوئے ۔اس مرتبہ آپ کی فوج میں قبطی بھی شامل تھے ۔اب عمروبن عاص ایک ماہ میں سکندر یہ ایسے مشہور تاریخی مقام کی فتح کے لئے جا پہنچے جسے مشہور عالم فاتح سکندر نے بحرابیض پر تعمیر کیا تھا۔اس موقع پر اسلامی فوج کی تعداد آٹھ ہزار یا زیادہ سے زیادہ بارہ ہزار تھی۔لیکن رومی فوج پوری پچاس ہزار تھی۔اسلامی فوج کے پاس نہ قلعہ شکن آلات حرب تھے نہ بحری جنگ کے لئے جہاز ۔رومی پورے طور کیل کانٹے سے لیس اور سر سے لے کر پیر تک لوہے میں غرق تھے۔جنگ شروع ہوگئی اور متواتر دومہینے تک جاری رہی۔ایک روز قبیلہ مہرہ کے ایک مجاہد اسلام دشمن رومیوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے اور ان کا سررومی کاٹ کر ساتھ لے گئے۔مہریوں نے عمروبن عاص سے آکر شکایت کی اور کہا کہ جب تک ہمارے بھائی کا سرواپس نہیں ملے گا ہم لاش کو دفن نہیں کریں گے۔عمروبن عاص نے کہا??بھلا رومیوں کو تمہارے غم وغصے کی کیا پروا۔اب تو ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ تم بھی کسی رومی کاسر کاٹ کر لے آو?۔جب وہ اس کی واپسی کا تقاضاکریں تم بھی واپسی کا تقاضا کردینا۔وہ اگر تمہیں سر واپس کر دیں تم بھی انہیں واپس کردینا۔?چنانچہ دوسرے ہی دن مہریاں نے رومیوں کے ایک سردار کو موقع پا کر مار گرایااور اس کا سر کاٹ کر لے آئے۔

اب رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان مسلسل جنگیں برپا ہوتے ایک سال دو مہینے پورے ہوئے۔حضرت عمرفاروق فتح کا مثردہ سننے کے لئے بے چین رہنے لگے۔حتی کہ جب انتظارکی مدت حد سے گزر گئی تو آپ نے حضرت عمروبن عاص کو لکھا :?معلوم ہوتا ہے تم بھی آرام طلب رومیوں کی طرح اب آرام پسند ہوگئے۔ورنہ فتح میں اتنی دیر کیوں ہے ۔?حضرت عمروبن عاص نے اسلامی فوج کو خط کے مضمون سے مطلع کیا۔پھر حضرت عباد ہ بن صامت سے ان کانیزہ لے کر اپنا عمامہ اتارا اور اس نیزے سے باندھ دیا?پھر اسے علم بناکر حضرت عبادہ صامت کو واپس کر دیا اور کہا??آج سے آپ علم بردار ہیں ۔? اس کے بعد حضرت زبیر ابن العوام کو حضرت مسلمہ کی فوج کا ہر اول مقرر کیا اور ساری فوج کے آگے آگے ننگی تلوار لئے خود رومیوں کی طرف بڑھے اور ایسا میدان کار راز گرم کیا کہ جب تک دشمن رومیوں کی بری اور بحری فوجوں کو شکست فاش نہ دے دی جنگ برابر جاری رکھی۔

فتح مصر کے علاوہ حضرت عمروبن عاص کا ایک قابل ذکر کارنامہ نہر سویز کی تعمیر ہے جسے انہوں نے حضرت عمرفاروق کے حکم پر بنانا شروع کیاتھا اور بہت جلدپایہ تکمیل کو پہنچا دیا۔اس نہر نے دریائے نیل کے پانی کو بحرا احمر کے پانی سے ملادیا اوراس کے ذریعے سے مصر کے غلے کو عرب کی بندرگاہ پر بھیجنے میں بڑی آسانی ہوگئی ۔اسی برس تک یہ نہر کار آمد رہی لیکن بعد میں ریت سے بھر جانے کے باعث بیکار ہوگئی۔
کتاب المعارف ابن قیتبہ اور اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ عمروبن عاص کی رحلت کاوقت جب قریب آیا تو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہوئے اور کہا:?اے اﷲ!تو نے حکم دیا میں نے سرتابی کی تو نے ممانعت کی ?میں نے نافرمانی کی۔اگر تو مجھے معاف کر دے تو مجھ پر تیرا کرم ہے اور اگر سزا دے تو میں اپنے اعمال کی بدولت اس کا مستحق ہوں ۔تاریخ وفات 667ءہے نوے سال کی عمر پائی۔

No comments:

Post a Comment