Monday, October 19, 2009

By Muhammad AmirSultan Chishti of Ugalisharif923016778069


حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمیشہ مئوذن رہے ۔ شرو ع میں ایک کافر کے غلام تھے ۔اسلام لے آئے جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طر ح طرح کی تکلیفیں دی جاتی تھیں ۔

امیہ بن خلف جو مسلمانوں کا سخت دشمن تھا ان کو سخت گرمی میں دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت پر سیدھا لٹا کر ان کے سینہ پر پتھر کی بڑی چٹان رکھ دیتا تھا تا کہ حر کت نہ کر سکیں اور کہتا تھا کہ یا اس حال میں مرجائیں اور ز ند گی چاہیں تو اسلام سے ہٹ جائیں مگر وہ اس حا لت میں بھی احد احد کہتے تھے ۔یعنی معبود ایک ہی ہے۔

رات کو ، ز نجیروں میں باندھ کر کوڑے لگائے جاتے اور اگلے دن ان زخموں کو گرم زمین پر ڈال کر اور زیادہ زخمی کیا جاتا تا کہ بیقرار ہو کر اسلام سے پھر جائیں یا تڑپ تڑپ کر مر جائیں۔عذاب د ینے والے اکتا جاتے کبھی ابو جہل کا نمبر آتا۔کبھی امیہ بن خلف کا کبھی اوروں کا، اور ہرشخص اس کی کو شش کرتا کہ تکلیف دینے میں زور ختم کر دے۔

حضرت ا بو بکر صد یق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حا لت میں د یکھا تو ان کو خر ید کر آ زاد فرما دیا۔چو نکہ عرب کے بت پر ست ا پنے بتوں کو بھی معبود کہتے تھے۔اس لئے ان کے مقابلہ میں اسلام کی تعلیم توحید کی تھی جس کی وجہ سے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبا ن پر ایک ہی ورد تھا۔

یہ تعلق کی بات ہے ہم جھو ٹی محبتو ں میں د یکھتے ہیں کہ جس سے محبت ہو جاتی ہے اس کا نام لینے میں لطف آتا ہے۔ بے فائدہ اس کو رٹاجاتا ہے تو اللہ کی محبت کا کیا کہنا جو دین و دنیا میں دونوں جگہ کام آ نے والی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہر طرح سے ستایا جاتا تھا۔سخت تکلیفیں پہنچائی جاتی تھیں۔

مکہ کے لڑکوں کے حوالے کر دیا جاتا کہ وہ ان کو گلی کوچوں میں چکر دیتے پھریں اور یہ تھے کہ ''ایک ایک ہی ہے'' کی ر ٹ لگاتے تھے ۔ا سی کا یہ صلہ ملا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میںمئوذن بنے اورسفر خضر میں ہمیشہ اذان کی خد مت ان کے سپرد ہو ئی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ طیبہ میں رہنا اور حضور کی جگہ کو خالی دیکھنا مشکل ہو گیا۔اس لیے ارادہ کیا کہ ا پنی زند گی کے جو باقی دن ہیں جہادمیں گذار دوں اسلئے جہاد میں شر کت کی نیت سے چل دئیے۔

ایک عرصہ تک مدینہ منورہ لوٹ کر نہیں آئے۔ایک مر تبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت کی۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ''بلا ل رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کیا ظلم ہے ہمارے پاس کبھی نہیں آتے'' تا آ نکھ کھلنے پر مدینہ طیبہ حاضر ہو ئے۔حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام نے اذان کی فر ما ئش کی۔

لاڈالوںکی فرمائش ایسی نہیں تھی کہ انکار کی گنجائش ہوتی۔ اذان کہنا شروع کی اور مدینہ میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کی اذان کانوں میں پڑ کر کہرام مچ گیا۔ عورتیں بھی سوتی ہوئی گھر سے نکل پڑیں چند روز قیام کے بعد واپس ہوئے اور 20 ھجری کے قریب دمشق میں وصال ہوا۔

No comments:

Post a Comment