Monday, October 19, 2009

حضرت حاجی فضل احمد تحریر : ڈاکٹرخواجہ عابد نظامی


حضرت حاجی فضل احمد
حضرت حاجی فضل احمدنام
1906ءتاریخ پیداءش
حاجی صاحب درس قرآن میں ہمیشہ اسلامی اتحاد پر زور دیتے تھے یہی قرآن حکیم کا مقصد اور منشا ہے ویسے بھی اس زمانے میں علماء فرقہ بازی اور منافرت کی بات نہیں کرتے تھے صرف اور صرف قرآن و حدیث کی تعلیمات بیان کرتے تھے ۔

یہ مارچ 1947ء کی بات ہے میں وطن اسلامیہ ہائی سکول(برانڈ رتھ روڈ لاہور) میں پانچویں جماعت میں داخل ہوا تو مولوی محمد عبداللہ صاب ہمارے ہیڈ ماسٹر اور ڈاکٹر محمد دین صاحب ہمارے کلاس انچارج تھے لیکن صبح سویرے سکول کے صحن میں جن بزرگ سے ہر روز درس قرآن سننے کا اتفاق ہوتا وہ حاجی فضل احمد صاحب تھے۔ ان کا درس قرآن ہمارے ہیڈ ماسٹر اور اساتذہ کرام بھی بڑے غور سے سنتے تھے۔

حاجی صاحب کا طریقہ تھا کہ جس آیت کی تفسیر بیان کرنا ہوتی اسے بلیک بورڈ پر لکھ دیتے تھے۔ آج محسوس ہوتا ہے کہ پندرہ منٹ کے درس قرآن سے جو میں نے تقریباً چھ سال سنا بہت کچھ سیکھا۔ یوں تو میرا تعلق قرآن مجید سے چار سال کی عمر میں ہی قائم ہو گیا۔ میری مرحومہ دادی مجھے ''نیویں مسجد''(نیا بازار لاہور) میں مولوی اکبر علی کا شاگرد بنا آئی تھیں اس معاہدے کے ساتھ کہ مولوی صاحب! '' ہڈیاں ساڈیاں تے گوشت تہاڈا''۔

اس زمانے میں بچے مسجدوں میں اسی معاہدے کے ساتھ داخل ہوتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اگر بچہ نہ پڑھے، تو استاد کو اختیار ہے کہ اس کی پٹائی کرے۔ یہ مولوی اکبر علی نقش بندی بھی ایک ولی اللہ تھے۔ قرآن مجید پڑھانے کا ایک پیسہ بھی اجرت نہ لیتے تھے۔ قوت لایموت کے لئے مسجد کے کونے میں بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھ کر کتابوں کی کتابت کرتے۔

اس مقصد کے لئے موہن لال روڈ لاہور سے(جس کا نام پاکستان بننے کے بعد اردو بازار ہو گیا) کورس کی کتابیں کتابت کی غرض سے لے آتے۔ مسجد میں نماز بھی وہ بلا اجرت پڑھاتے تھے۔ کوئی معاضہ قبول نہیں کرتے تھے ،کہ اس زمانے میں بیشتر علماء کا یہی طریقہ تھا۔ مشہور تھا کہ مولوی اکبر علی کے پاس جنات کے بچے پڑھنے آتے ہیں ۔

جب میں وطن سکول داخل ہوا تو قرآن مجید ناظرہ پڑھ چکا تھا اور بیشتر سورتیں مجھے زبانی یاد تھیں حاجی فضل احمد صاحب کے درس قرآن کا سلسلہ شروع ہوا تو میرا طریقہ تھا کہ تفسیر کے اہم نکات میں ڈائری میں نوٹ کر لیتا۔ حاجی صاحب کو اس کی خبر نہ تھی۔ ایک روز دور سے انہوں نے مجھے ڈائری میںکچھ لکھتے ہوئے دیکھا تو بڑے غصے سے میرے پاس آئے اور کہا کھڑے ہو جاؤ۔ پھر پوچھا یہ کاپی میں کیا لکھ رہے ہو؟

میں نے کھڑے ہو کر عرض کیا: سر آپ کے درس کی خاص خاص باتیں نوٹ کر رہا ہوں۔ حاجی صاحب کو شاید اس کا یقین نہیںآیا ان کا خیال تھا کہ میں ان کے درس قرآن کی طرف توجہ نہیں دے رہا اور کسی بیکار کام میں مشغول ہوں ۔ اب انہوں نے میری نوٹ بک دیکھی اور بہت خوش ہوئے پھر سب لڑکوں کو میری یہ نوٹ بک دکھائی اور فرمایا: سب لڑکے ایسی کاپی بنائیں اور کم ازکم زیر درس قرآنی آیت اور اس کا ترجمہ ضرور نوٹ کرلیا کریں۔

اس واقع کے بعد حاجی صاحب سے میری جان پہچان ہوگئی۔ معلوم ہوا وہ میرے والد ماجد سے بھی خوب اچھی طرح واقف ہیں۔ حاجی صاحب ہمارے سکول میں پرشین ٹیچر تھے۔ میں ساتویں جماعت میں پہنچا تو عربی اور فارسی میں سے کسی ایک مضمون کا انتخاب کرنا تھا میں نے حاجی صاحب کا شاگرد بننے کے لئے پرشین کا انتخاب کیا۔

پرشین پڑھنے کے لئے سب طلباء کو حاجی صاحب کے کمرے میں جانا پڑھتا تھا۔ سکول میں دوسرے اساتذہ کی طرح حاجی صاحب کلاسوں میں جاکر نہیں پڑھاتے تھے۔ جس زمانے میں ، میں نے پانچویں جماعت میں داخلہ لیا تھا، اس وقت ہند و مسلم فسادات تو شروع نہیں ہوئے تھے لیکن ہندو مسلم کشیدگی بہت زوروں پر تھی۔ سب سے متحدہ ہند وستان کے صوبہ بہار میں ہندو مسلم فسادات کا آغاز ہوا۔ اس فسادات کا علم ہمیں حاجی صاحب کے درس میں ہوا جب حاجی صاحب نے بتایاکہ صو بہ بہار میں ظالم ہندوئو ں نے غریب مسلمانوں کا بُری طرح قتل عام کیا اور اب وہاں مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ ہندوؤں نے ان کے مکانوں کو آگ لگا دی ہے ان کا سامان لُوٹ لیا ہے۔

غریب مسلمان اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے کھلے آسمان کے نیچے بے یارومددگار پڑے ہیں اور سخت سردی کے اس موسم میں وہ گرم کپڑوں کے بغیر اپنے شب و روز گزار رہے ہیں ۔ اس مشکل وقت میں ہمارے ان بھائیوں کو روپے پیسے اور کپڑوں کی سخت ضرورت ہے۔ ہماری انجمن حمایت اسلام نے انتظام کیا ہے کہ وہاں مسلمانوں کی مدد کے لئے کپڑے ، کمبل، لحاف، غرض جو کچھ ممکن ہوسکے بھجوا یا جائے۔

یہ حالات بیان کرنے کے بعد جب حاجی صاحب نے بچوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے بہاری مسلمان بچوں کے لئے جو کچھ ممکن ہو وہ بھجوائیں تو لڑکوں نے اپنے کوٹ سویٹر اور مفلر اتار کر صحن میں ڈھیر لگا دیا کہ ہماری طرف سے مدد کے طور پر یہ ہمارے بہاری مسلمان بچوں کے لئے جو کچھ ہے بجھوا دیا جائے۔

آج جب اس زمانے کا یہ اسلامی جذبہ اخوت یاد آتا ہے تو دل کی اتھا گہرائیوں سے دعا نکلتی ہے کہ اے کاش یہ جذ بہ محبت و اخوت کبھی سرد نہ ہو ہر عہد میں زندہ باقی رہے! موجودہ دور میں تو اس جذ بہ اخوت و محبت کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ حاجی صاحب درس قرآن میں ہمیشہ اسلامی اتحاد پر زور دیتے تھے' کہ یہی قرآن حکیم کا مقصد و منشا ہے۔ ویسے بھی اس زمانے میں علما فرقہ بازی اور منافرت کی بات نہیں کرتے تھے۔ بلکہ صرف اور صرف قرآن وحدیث کی تعلیمات بیان کرتے تھے۔

حضرت حاجی فضل احمد 1906ء قصبہ نور پور(ضلع خوشاب) میں پیدا ہوئے ان کے والد کا اسم گرامی ملوک علی تھا۔ انہیں بچپن سے ہی ذکر اللہ کا بہت شوق تھا۔ کم عمری میں ہی اپنے گاؤں نور پور میں ہی انہوں نے کلام پاک ختم کیا پھر دینی تعلیمات کی خاطر لاہور آئے اور اچھرہ کے مشہور مدرسہ فتحیہ میں داخل ہوئے، وہیں سے ہی درس نظامی کی تکمیل کی۔

پھر مدرسہ یونیورسٹی اور نیٹئیل کالج منشی فاضل اور مولوی فاضل کے امتحانات اعزازی حیثیت سے پاس کئے۔ پھر سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے اوٹی تربیت حاصل کی اس کے بعد اپنے گاؤں نور پور تھل میں واپس چلے گئے اور ایک مڈل اسکول میں ملازمت اختیار کی وہاں سے دنیا نگر ضلع گورداسپور میں آریہ ہائی سکول میں ٹرانسفر ہوئی لیکن اس سکول کے ایک ہندو ٹیچر نے جب حضور پُر نور شافع یوم نشور کی شان اقدس میں گستاخی کی تو احتجاجاً استفعیٰ دے کر لاہور آگئے۔

اُس زمانے میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے جنرل سیکرٹری اکبر علی ارسطو ایڈوکیٹ تھے یہ وہی ارسطو ایڈوکیٹ تھے جن کی علامہ اقبال کی شاعری پر کتاب اولیات کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے ایما پر حاجی صاحب شیرانوالہ گیٹ ہائی سکول میں اوٹی ٹیچر مقرر ہوئے انہیں 1937 ء میں حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ واپس آئے تو وطن اسلامی ہائی سکول میں ان کا تبادلہ ہو گیا۔ پھر تمام مدت ملازمت اسی سکول میں گزار دی۔

حاجی صاحب لڑکپن میں ایک بزرگ حضرت خواجہ غلام حسن(پیر سوہاگ) کے مرید ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد وہ ایک عرصہ تلاش مرشد میں سر گرداں رہے۔ بالآخر 1942 ء میں صاحبزادہ محمد عمر بریلوی جیسا مرشد کامل انہیں نصیب ہوا۔ 1957 ء میں مرشد کے ہمراہ وہ دوسری بار حج کے لئے گئے۔ وطن ہائی سکول سے ریٹائر ہونے کے بعد1961ء میں انہوں نے تصوف اسلام کے موضوع پر ایک ماہنامہ''سلسبیل'' جاری کیا جس کا اداریہ ''گفتنی'' کے عوان سے وہ ہر ماہ لکھتے تھے۔

ان کے اس اداریے نے عوام وخواص میں بڑی مقبولیت حاصل کی۔ خود ان کے مرشد فرمایا کرتے تھے کہ ہم تو حاجی صاحب کا رسالہ ان کے اداریے ''گفتنی'' کی وجہ سے پڑھتے ہیں۔ سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم پر لکھی ہوئی کتاب '' انور الہدیٰ فی سیرة المصطفیٰ صلی اللہ علیہ و الہٰ و سلم کو بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔

حاجی صاحب نے اپنی زندگی میں قومی تحریکات میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ ڈاکٹر محمد طفیل سالک لکھتے ہیں :'' حضرت حاجی صاحب نے ایک درویش گوشہ گیر کے بجائے بھر پور علمی و عملی زندگی گزار دی اور اپنے مرشد ارشد کے شانہ بشانہ تمام قومی و دینی تحریکات میں حصہ لیا۔

آپ تحریک پاکستان کے پر جوش حامیوں میں سے تھے اور ایک علاقے میں جو کہ یونیورسٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، بلاخوف لومتہ لائم اعلمائے کلمة الحق کا فریضہ سر انجام دیا اور قیام پاکستان کے بعد اصلاح احوال کی ہر جدوجہد میں ساتھ دیا۔ تحریک ختم نبوت 1947 ء اور تحریک نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و الہٰ و سلم 1977ء میں آپ کے اداریوں نے بالخصوص روحانی حلقوں میں ذہن سازی کا اہم کردار ادا کیا۔
(سلسبیل : حاجی فضل احمد صفحہ نمبر62) ۔

ایک روز میں نے حاجی صاحب سے پوچھا آپ نے کبھی حکیم الامت علامہ اقبال سے بھی ملاقات ہوئی؟ حاجی صاحب نے فرمایا: حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کے کلام اور پیام سے مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے ۔ میں ان کی تعلیمات کو ملت اسلامیہ کیلئے ازبس ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک دفعہ ان کی خدمت میں حاضری کی سعادت یوں نصیب ہوئی کہ مجھے گورنمنٹ ٹریننگ سینٹر لاہور میں داخلہ لینا تھا۔

ہمارے علاقے شاہ پور کے وکیل مردان علی، حضرت علامہ اقبال کے دوست تھے۔ انہوں نے مجھے ایک خط دے کرعلامہ کی خدمت میں بھیجا تا کہ ان کی سفارش سے مجھے ٹریننگ سینٹر لاہور میں داخلہ مل سکے۔ میں حضرت علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ چہرے پر جلالی فکر کے آثار ہویدا تھے۔ میں نے خط ان کی خدمت میں پیش کیا تو وہ خط پڑھ کر مسکرائے پھر علی بخش کا آواز دے کر قلم دوات اور کاغذ منگوایا اور صوفی تبسم کے نام سفارشی خط تحریر فرما کر مجھے دیا۔ میں نے صوفی صاحب کو حضرت علامہ اقبال کا یہ خط دیا تو وہ بہت ھی مسرور ہوئے اور میرے داخلے کا فوراً انتظام کر دیا۔

ایک روز میں نے حاجی صا حب سے پوچھا : اولیا صوفیہ کی خدمت میں حاضری کس طرح اصلاح احوال بنتی ہے اور ان برگزیدہ نفوس کی صحبت میں گزارے ہوئے لمحات کس طرح'' صد سالہ طاعت سے بے ریا سے بہتر ہوتے ہیں؟ میرے اس سوال سے حاجی صاحب بڑے خوش ہوئے اور بڑی شفقت سے فرمایا:''عابد صاحب! صوفی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خصوصی نور عطا ہوتا ہے۔

یہ ایک عام اصولی ہے کہ جو خوشبو آپ کے پاس ہو گی وہی ساتھ والے کو بھی عطا ہو گی۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم مظہر انور خداوندی تھے۔ اس لئے جس خوش بخت صحابہ کو حضورصلی اللہ علیہ و الہٰ و سلم کی صحبت بابرکت نصیب ہوئی وہ بھی انوار و تجلیات کے پر تو بن گئے۔ حصول مقصد کے لئے پہلی چیز محبت ہو تی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ و الہٰ و سلم سے محبت کا معیار یہ ہے کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ و الہٰ و سلم کی ذات سے دنیا کے مال و جائیداد، ماں باپ حتیٰ کہ اپنی جان سے بڑھ کر محبت نہ کی جائے ایمان کی دولت نصیب نہیں ہوسکتی۔ جملہ اصحاب رسول مقبول صلی اللہ علیہ و الہٰ و سلم نے اپنی استعداد کے مطابق عقیدت رسول صلی اللہ علیہ و الہٰ و سلم کا مظاہرہ اور انوار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و الہٰ و سلم سے فیض یاب ہوئے۔

صوفیائے کرام نے ہر عہد میں فکرو عمل کے چراغ روشن کئے ہیں۔ ان صحبتوں سے صحیح معنوں میں وہی لوگ اکتساب فیض کر سکتے ہیں جن کے دل ان کی محبت و عقیدت سے بھرپور تھے اور جنہیں اپنے شیخ کے مقام و مرتبہ کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ بر صغیر پاک وہند میں حضرت خواجہ صاحب اجمیری کی تشریف آوری تصوف فیوض و برکات کی تقسیم عام کا باعث بنی۔ حضرت الف مجدد ثانی نے تصوف کو عمل آشنا کیا۔

ہر سلسلے میں صوفیہ و مشائخ کا ایک طویل سلسلہ ہے جو مسلسل بزم انسانیت کو ذوق معرفت خداوندی سے بہرہ ور کر رہا ہے ۔ جب کوئی طالب حق ان صوفیہ کے حضور حاضری دیتا ہے تو اس کی حیثیت ایک سادہ ورق کی ہوتی ہے جسے اہل تصوف اپنے رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔

میں نے پوچھا: حاجی صاحب! کیا اولیائے کرام کی قبور سے بھی یہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟ فرمایا: ہاں اس سے بھی یہ فوائد حاصل ہوتا ہے۔ میرے مرشد حضرت خواجہ محمد بریلوی فرمایا کرتے تھے کہ اگر مرشد نہ ملے، تو کسی بلند مرتبہ صاحب مزار کی تربت میں چلے جائو وہاں سے فیض عطا ہوتا ہے۔ وطن سکول کے زمانے میں ، میں حضرت عبدالجلیل چوہڑ بندگی کے مزار پر جا کر مراقبہ کیا کرتا تھا۔ ان کا مزار اقدس لاہور میں میکلوڈروڈ پر ہے۔

مجھے قطب علم کے تاثیرات کا علم بھی وہی جا کر ہوا، کہ قطب عالم کا مرتبہ کیا ہوتا ہے جس طرح آپ مٹھاس اور خوشبو سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں مگر اس کی تعریف نہیں کر سکتے۔ اسی طرح مراقبہ کی صورت میں جو فیوض الطاف عطا ہوتے ہیں اس سے دلوں کو شاد کام تو کیا جا تا ہے مگر کماحقہ الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جاتا۔ دراصل تصوف میں اتنی قوت ہے کہ بیان نہیں ہو سکتی۔ تصور پختہ ہو جائے تو یہ کیفیت ہو جاتی ہے کہ کا تصورکریں وہ نگاہوں میں سما جاتا ہے۔

اہل اللہ کے مقابر اور مزارات پر حاضری دلوں کو معرفت عطا کرتی ہے۔ حاجی صاحب کو اپنے مرشد محمد عمربریلوی سے غایت درجہ محبت تھی۔ وطن اسلامیہ ہائی سکول میں جمعہ کے روز چھٹی ہوتی تھی۔ حاجی صاحب جمعرات کو چھٹی کے بعد'' شاہ پور'' جانے والی گاڑی میں سوار ہو جاتے، تو انہیں رات کے وقت شاہ پور پہنچا تی۔ شاہ پور سے بیر بل شریف تقریباً بارہ میل ہے اور سفر بھی ایسا کہ نہایت دشوار گزار۔

راستے میں کئی موڑ آتے ہیں کہیں آبادی یا بجلی کی روشنی کا انتظام نہیں۔ حاجی صاحب وار فتگی میں بارہ میل کا یہ سفر اگر سائیکل مل جاتی ، تو سائیکل پر ، ورنہ پیدل ہی طے کرتے۔ چند سال قبل مجھے بیرل شریف حاضری کا موقع ملا۔ سچی بات ہے مجھے کار میں بھی بارہ میل کا یہ سفر نہایت دشوار محسوس ہوا۔

سجادہ نشین صاحبزادہ حضرت خالد سیف اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی ، تو میں نے حاجی صاحب کا تذکرہ چھیڑا اور اس پر تعجب کا اظہار کیا کہ حاجی صاحب کس طرح شاہ پور سے بیربل شریف کا یہ دشوارگزار سفر سائیکل پر یا پیدل طے کرتے تھے؟ میری یہ بات سن کر صاحبزادہ صاحب نے فرمایا: عابد صاحب : حاجی صاحب سائیکل کے ذریعے نہیں ، بلکہ شاہ پور ارو بیربل شریف کا یہ راستہ پیدل اور تیز دوڑ تے ہوئے طے کرتے تھے۔

ہر ہفتے مرشد کی خدمت میں اس طرح حاضری کیا کہ عشق کے جذبہ صادق کے بغیر ممکن ہے؟ بقول حضرت علامہ اقبال:
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
حضرت حاجی افضل احمد نے22 نومبر1991ء کو لاہور میں انتقال فرمایا۔ ان کی نماز جنازہ مجاہد ملت مولانا عبدالستارخاں نیازی نے پڑھائی اور وہ اپنی تعبیر کردہ ''مسجد عمر'' سے ملحق مدرسة القرآن کے ایک گوشہ میں دفن ہوئے۔ جہاں ان کا مزار زیارت گاہ خلائق ہے۔ حق مغفرت کر کے آزاد مرد تھا۔
بشکریہ: نوائے وقت

No comments:

Post a Comment