| امام غزالی | ||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||
| افتخار محمد چودھری | |||||||||||||
| Updated On : 2009-03-16 | |||||||||||||
| |||||||||||||
دوہزار پانچ سے دو ہزار سات تک پاکستان کی عدالت عظمی کے منصف اعظم ہیں۔ وہ پاکستان کی تاریخ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے منصف اعظم ہیں۔ 9 مارچ 2007 کو صدر پاکستان اور فوجی ڈکٹیٹر اور فوج کے سربراہ رئیس عسکریہ جنرل پرویز مشرف نے بدعنوانی کے الزامات کے تحت انہیں ان کے عہدے سے معطل کر دیا۔اس معطلی کے لیے ''غیر فعال'' کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ قواعد کی رو سے وہ اب بھی منصف اعظم ہیں، جس کا اعتراف حکومتی وکلاء نے کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالت اعظمی کے منصف اعظم کو اختیارات کے ناجائز استعمال پر معطل کیا گیا تھا۔ افتخار چودھری حکومتی سطح پر ہونے والی بدعنوانیوں اور دوسری بے قاعدگیوں پر ازخود اقدامات اٹھانے کے سلسلے میں مشہور ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے مشہور پاکستان سٹیل ملز کا مقدمہ ہے۔ معطلی کے خلاف عزت مآب افتخار چودھری نے عدالت اعظمی میں مقدمہ دائر کیا۔ 20 جولائی 2007 کو عدالت نے تاریخ ساز فیصلے میں افتخار محمد چوہدری کو عہدے پر بحال کر دیا اور صدارتی ریفرنس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔ قانونی دور فاضل الفنیات اور فاضل القانون کی اسناد کے حامل افتخار چودھری محاماہ میں 1974 میں شامل ہوئے۔ پھر 1976 میں لاہور عدالت عالیہ کے وکیل اور 1985 میں عدالت عظمی کے وکیل بنے۔ 1989 میں انہیں بلوچستان کیلئے وکیل جامِع متعین کیا گیا جہاں سے بعد میں ترقی کر کے بلوچستان کے قاضی تکمیلی بن گئے۔ اس عہدے پر 6 نومبر، 1990 سے 21 اپریل، 1999 تک متعین رہے۔ عدالت عالیہ کے قاضی ہونے کے علاوہ افتخار چودھری نے قاضی مخزن، خصوصی عدالت برائے تیز رفتار سماعت کے قاضی، چوکی عدالت مرافعہ کے جج اور کمپنی جج کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ عدالت عالیہ انجمن محاماہ، کوئٹہ کے صدر بھی رہے جبکہ دو مرتبہ انجمن محاماہ کے منتخب رکن بھی رہے۔ بعد ازاں 1992 میں بلوچستان مقتدرہ مجلس بلدیاتی انتخابات کے امیر مجلس کے طور پر متعین کیے گئے اور 1998 میں ایک دفعہ پھر اس عہدے پر دوسری مدت کیلئے متعین ہوئے۔ کچھ عرصہ بلوچستان کیلئے امیر مجلس برائے صوبائی تخت مراجعہ کے عہدے پر بھی کام کیا۔ دو مرتبہ پاکستان انجمن ہلال احمر، بلوچستان کے امیر مجلس منتخب ہوئے۔ اس وقت امیر مجلس پاکستان مجلس وکلا ء کی پنچایت نامداری (Enrollment Committee of Pakistan Bar Council) اور امیر مجلس سپریم کورٹ بلڈنگ کمیٹی کے عہدوں پر بھی کام کر رہے ہیں۔ انہیں 22 اپریل، 1999 کو بلوچستان عدالت عالیہ کا منصف اعظم نامزد کیا گیا۔ اپنی خدمات اور تجربے کی بنیاد پر 4 فروری، 2000 کو انہیں عدالت عظمی میں ترقی دے دی گئی۔ انہیں 30 جون، 2005 کو جنرل پرویز مشرف نے منصف اعظم پاکستان نامزد کیا۔ رخصت ہونے والے منصف اعظم ناظم حسین صدیقی کے بعد منصف افتخار محمد چودھری عدالت اعظمی کے اعلی ترین قاضی ہیں۔ حسبہ بل کیس 14 جولائی، 2005 کو سرحد اسمبلی نے چھے دینی جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل کے پیش کردہ متنازعہ حسبہ بل کو منظور کر لیا۔ یہ بل حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ عوام کو اسلامی اقدار پر چلنے پر مجبور کر سکے۔ صدر پرویز مشرف نے اس بل کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرینس داخل کیا جسے جسٹس افتخار محمد چودھری نے سماعت کیلئے منظور کر لیا۔ 20 فروری، 2007 کو عدالت عظمی میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں نو رکنی بینچ نے حسبہ بل کی تین شقوں کو آئین سے متصادم قرار دے دیا۔ پاکستان سٹیل ملز نجکاری کیس 31 مارچ 2006 کو حکومت نے پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی یونٹ پاکستان سٹیل ملز کے 75 فیصد (ایک ارب 68 کروڑ) حصص 21 ارب 68 کروڑ پاکستانی روپے میں فروخت کر کے اس کی نجکاری کر دی۔ تاہم خریداروں کی شناخت کے بارے میں کافی اختلافات اور ابہام پیدا ہو گئے۔ نجکاری کمیشن نے نجکاری سے پہلے اور بعد بولی دینے والوں کے اور خریداروں کے جو نام ظاہر کیے تھے ان میں اختلاف پایا گیا تھا۔ علاوہ ازیں ادارہ کی مزدور یونینز بھی نجکاری کے عمل سے خائف تھیں۔ نتیجہ اس فروخت کو پیپلز مزدور یونین اور پاکستان وطن پارٹی کے بیریسٹر ظفراللہ خان نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ 24 مئی، 2006 کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربارہی میں عدالت عظمی کے نو رکنی بنچ نے حکم امتناعی جاری کر کے نئی انتظامیہ کو ملز کا کنٹرول سنبھالنے سے روک دیا۔ بعد ازاں، 15 جون، 2006 اسی بنچ نے نجکاری کو کالعدم قرار دے دیا۔ 2007 کے مقدمات کہا جاتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ان انتہائی اہم مقدمات کی سماعت کرنے والے تھے: وزیر اعظم شوکت عزیز کی دوہری شہریت کی تحقیق اور ان کی وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہونے کی قابلیت کے بارے میں مقدمہ یہ مقدمہ کہ آیا صدر پرویز مشرف آئندہ صدارتی مدت کیلئے انتخابات میں کھڑے ہو سکتے ہیں حبیب بینک کی نجکاری معطلی 9 مارچ، 2007، جمعہ کے دن، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو صدر جنرل پرویز مشرف نے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کے تحت معطل کر کے ان خلاف کے سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کر دیا۔ اس سے پہلے چیف جسٹس کو صدر نے بلا کر ان سے استعفی طلب کیا جس پر انہوں نے انکار کر دیا۔ ان کی اصلی مدت 2013 میں ختم ہونا تھی۔ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کسی چیف جسٹس کو ''معطل'' کیا گیا ہو۔ بار کونسلوں نے اس کے خلاف ھڑتال کا اعلان کیا۔ مشہور وکلاء اور ججوں سمیت اکثر اہل علم کے خیال میں یہ اقدام فوجی آمر کی طرف سے کھلم کھلا ڈھٹائی پر مبنی اور آئین کی سراسر خلاف ورزی تھا۔ نو مارچ کو پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو جنرل ہیڈ کوارٹرز بلا کر اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ رائٹرز کی تصویر کے مطابق اس موقع پر 63 سالہ حاضر سروس ''آرمی چیف'' پرویز مشرف، جنرل کی وردی میں ملبوس تھے۔ اطلاعات کے مطابق مشرف اس ملاقات میں چیف جٹسس سے کسی قسم کی مفاہمت (سودا بازی) کی کوشش میں تھے۔ اس دوران چیف جسٹس پر استعفی دینے کے لیے دبائو ڈالا گیا مگر چیف جسٹس افتخار چودھری اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور مستعفی ہونے سے انکار کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس کو یہاں چار گھنٹے کے لیے مقید کر لیا گیا اور بعد میں انہیں پولیس نے سپریم کورٹ جانے سے روک دیا۔ اس کے بعد انہیں عملی طور پر اپنے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ اگرچہ مشرف کی اس کاروائی کی وزیر اعظم شوکت عزیز نے حمایت کی ہے، مگر حکمران جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے اس واقعہ پر یہ کہہ کر تبصرے سے انکار کر دیا کہ '' یہ تنازعہ فوج اور عدلیہ کے درمیان ہے۔'' مبصرین کے مطابق جو واقعات پرویز مشرف کی طرف سے چیف جسٹس کے خلاف کاروائی کا باعث بنے وہ سپریم کورٹ کے ان فیصلوں کی وجہ سے تھا: نیو مری پراجیکٹ کو روک دیا سٹیل ملز نج کاری کلعدم قرار دے دی اسلام آباد میں عوامی (پبلک) پارک کو تجارتی مقاصد کے لیے لاہور کے ایک ڈرامہ نگار کو کوڑیوں کے مول بیچنے کی کوشش ناکام بنا دی ان فیصلوں سے وزیراعظم شوکت عزیز اور وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی سخت برھم ہوئے۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس کی عدالت میں پولیس افسران کی فرائض سے غفلت پر سرزنش سے بھی انتظامیہ ناخوش تھی۔ چیف جسٹس کی طرف سے اپنی حفاظت کے لیے اقدامات کے مطالبے کی وجہ سے بھی انتظامیہ ان سے کڑھتی تھی۔ سپریم جوڈیشل کونسل حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کا ٹرائیل خفیہ ہوگا۔ مگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ مقدمہ کھلی عدالت میں چلایا جائے تاکہ عوام کو حقیقت کا پتہ چل سکے۔ ایک رپورٹ جو پاکستان کے اخبار دی نیوز میں اور بی بی سی میں شائع ہوئی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کے تین ججوں میں سے ایک کے خلاف مالی بد عنوانی، دوسرے کے خلاف زمین کی ھیرا پھیری کا مقدمہ سپریم جوڈیشل کونسل میں پہلے ہی زیرِ التوا ہے اور تیسرے کی بیٹی کا میڈیکل کالج میں داخلہ ایک صوبے کے وزیرِ اعلی کی سیٹ پر ہوا ہے۔ 13 مارچ 2007 کو چیف جسٹس جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش ہوئے اور تحریری جواب داخل کرایا۔ انہوں نے نکتہ اٹھایا کہ کونسل اس کیس کی سماعت کرنے کی اہل نہیں۔ اس سے پہلے بہت ابتر حالات میں چیف جسٹس کو سپریم کورٹ لایا گیا، جہاں وکلاء اور مظاہرین کی بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ جمعہ کے دن 16 (مارچ)2007 ملک کے بڑے شہروں میں چیف جسٹس کو ''غیر فعال'' بنائے جانے کے حکومتی اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ پولیس نے متعدد سیاسی رہنمائوں کو گرفتار کر لیا۔ جوڈیشل کونسل نے اپنی سماعت 21 مارچ تک کے لیے ملتوی کر دی۔ اطلاعات کے مطابق حکومت بوکھلاہٹ میں چیف جسٹس افتخار سے کسی مفاہمت کی تلاش میں ہے۔ کونسل نے سماعت 3 اپریل 2007 تک ملتوی کر دی۔ کونسل نے سماعت 13 اپریل 2007 تک ملتوی کر دی۔ وکلاء نے ریفرنس کے خلاف مظاہرہ کیا اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ 13 اپریل کو چیف جسٹس افتخار چودھری کے وکیلوں نے کونسل کے تین جج صاحبان کی عدالت میں شمولیت کے خلاف دلائل دیے، جس کے بعد سماعت 18 اپریل 2007 تک ملتوی ہو گئی۔ اس موقع پر مختلف شہروں میں افتخار چودھری کے حق میں مظاہرے ہوئے۔ جوڈیشل کونسل نے اپنے خلاف اعراضات مسترد کر دیے، اور سماعت 24 اپریل تک ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ کے باہر چیف جسٹس کے حق میں مظاہرے ہوئے۔ کونسل متعدد بار مختصر سماعت کے بعد سماعت دو چار دن کے لیے ملتوی کرتی رہی۔ قضائی مجلس عظمی پر عدالت عظمی میں اعتراض اردو اصطلاح English term قضائی مجلس عظمی اعتراض محکمہ Supreme Judicial Council challenge bench چیف جسٹس افتخار چودھری کے وکلاء نے قضائی مجلس عظمی کی تشکیل کو آئینی نکات اٹھاتے ہوئے عدالت عظمی میں اعتراض کر دیا۔ عدالت عظمی کے محکمہ نے 19 اپریل کو یہ مقدمہ سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ اس محکمہ نے 7 مئی کو حکم دیا کہ قضائی مجلس عظمی صدارت ریفرنس سے متعلق اپنی سماعت معطل کر دے۔ اس کے علاوہ صدارتی ریفرنس اور اس سے متعلق متعلقہ درخواستوں کی سماعت کے لیے نیا عدالت عظمی کا مکمل (full) محکمہ تشکیل دینے کی ہدایت کی۔ عدالتِ اعظمی کے پورے محکمہ، جس کی سربراہی منصف خلیل الرحمن رمدے کر رہے ہیں، کے سامنے دونوں اطراف کے وکیل دلائل دے رہے ہیں۔ حکومتی وکلا ء کا زور اس بات پر رہا کہ عدالت کو یہ مقدمہ سننے کا حق ہی نہیں۔ یہ کام قضائی مجلس عظمی کا ہے۔ وکیل قیوم نے ملائشیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں منصفِ اعظم کو فارغ کیا گیا تھا، اور جن منصف نے اس برطرفی کے خلاف فیصلہ دیا تھا، انہیں بھی ملائشیا کے صدر نے برطرف کر دیا تھا۔ منصف اعظم افتخار چودھری کے وکیل چودھری اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ مقدمہ عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی عدالتِ اعظمی نے ایسے مقدمات سنے ہیں جن کے بارے آئین میں یہ تحریر تھا کہ ان پر کسی عدالت میں اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ اعتزاز نے افتخار چودھری کی طرف سے حلفیہ بیان بھی داخل کرایا جن میں 9 مارچ 2007 کو ہونے والے واقعات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ حلفیہ بیان کا متن (وکی سورس)7 جون 2007 کو دو خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان اور صدر کے عملہ کے سربراہ نے عدالت میں 9 مارچ 2007 کے واقعات کے متعلق جوابی حلفیہ بیانات داخل کروائے۔ عدالتِ اعظمی کے محکمہ نے عملی طور پر درخواست کو قابلِ سماعت سمجھتے ہوئے، وکلاء کو ریفرنس کے متعلق دلائل دینے کی ہدایت کی۔ حکومتی وکلاء کی طرف سے عدالتِ اعظمی کے منصفین سے متعلق قابلِ اعتراض مواد عدالت میں داخل کرایا گیا، جس پر عدالتِ اعظمی کے محکمہ نے 2 جولائی 2007 کو حکومت کی سرزنش کی اور ایک لاکھ (100000)روپے کا جرمانہ کیا۔ 16 جولائی 2007 کو صدر کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے عدالت کو مطلع کیا کہ حکومت منصفِ اعظم کے خلاف ''غیر موزوں عدالتی رویہ'' کے الزامات واپس لینا چاہتی ہے۔ حکومت کا الزام تھا کہ دو مواقع پر منصفِ اعظم نے زبانی فیصلہ کچھ دیا اور تحریری کچھ اور۔ تاہم یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کِن مقدموں کی بابت تھا، اور ''زبانی فیصلہ'' کس کے گوش گزار کیا گیا تھا۔ 17 جولائی کو عدالت نے وفاقی اٹارنی جنرل مخدوم علی خان سے چبھتے ہوئے سوالات اٹھائے، جس میں یہ کہ 9 مارچ کو رات کے اندھیرے میں قضائی مجلس عظمی کا اجلاس کس نے بلایا تھا؟ مخدوم علی خان نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ حکومت کے وکیل قیوم نے امریکہ میں منصفین کی برطرفی کی مثالیں دیں۔ عدالت نے انھیں ملکی حالات کے موافق مثالیں دینے کو کہا۔ صدر کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے 1921 میں ایسے برطانوی منصفِ اعظم کی مثال دی جس کو اپنے استعفی کا اخبار میں پڑھ کر معلوم ہوا۔ انھوں نے عدالت کی توجہ اس امر کی طرف دلائی کہ منصفین نے خود عبوری منصفِ اعظم کو عملی طور پر قبول کر کے جناب افتخار چودھری کی ''معطلی'' کو ''قبول'' کیا۔ اپنے اختتامی دلائل میں افتخار چودھری کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ عدالت واضح فیصلہ دے اور کوئی درمیانی راہ نکالنے کی جستجو نہ کرے۔ انھوں نے ریفرنس کو تمام برائی کی جڑ قرار دیا اور کہا کہ اگر عدالت نے ریفرنس برقرار رکھا تو وہ صدر اور وزیراعظم کو عدالت میں گواہ کے طور پر طلب کریں گے۔ انھوں نے بھی منصفین کے عبوری منصف ِ اعظم کو عملی طور پر قبول کرنے کا ذکر کیا تو جناب خلیل الرحمن رمدے نے انھیں ڈانٹا اور کہا کہ منصفین کوئی یونین نہیں ہیں۔ اگر منصفین کام کرنا چھوڑ دیتے تو یہ مقدمہ بھی نہ سنا جا سکتا۔ بحالی جمعہ 20 جولائی کو 41 دن کی سماعت کے بعد منصف خلیل الرحمن رمدے نے شام چار بجے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے جناب افتخار چودھری کو اپنے عہدے پر بحال کر دیا، اور یہ بحالی 9 مارچ 2007 سے سمجھی جائے گی (جس دن انھیں ''معطل'' کیا گیا تھا)۔ متفقہ فیصلہ میں عدالت نے صدر کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا۔ ریفرنس کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ 10 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت سے دیا گیا۔ وزیر اعظم شوکت عزیز نے کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرتے ہیں۔ اور کہا کہ یہ فتح یا شکست کے دعوے کرنے کا وقت نہیں ہے۔ صدارتی ترجمان نے بھی عدالت کے فیصلے کا احترام کرنے کا بیان دیا۔ سرگرمیاں پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے 29 مارچ 2007 کو ہائیکورٹ انجمن وکلائ، راولپنڈی، سے خطاب کیا، جس میں انھوں نے عدلیہ کی آزاد حیثیت پر زور دیا۔ جسٹس افتخار اس ''غیر فعالی'' کے دور میں مختلف شہروں میں انجمنِ وکلاء سے خطاب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس سلسلہ کا یہ پہلا خطاب تھا۔ 15 اپریل2007 کو چیف جسٹس افتخار چودھری نے حیدرآباد میں وکلاء سے خطاب کیا۔ اس تقریب میں سندھ ہائی کورٹ کے 15 جج صاحبان نے بھی شرکت کی۔ 21 اپریل 2007 کو چیف جسٹس افتخار نے پشاور میں ہائی کورٹ کی وکلاء تنظیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق انسانی حقوق کی حفاظت کو نافذ کرنا سپریم کورٹ کے فرائض میں شامل ہے۔ اس سلسلہ میں انھیں تقریبا 150 عرضیاں عام لوگوں کی طرف سے مدد کے لیے موصول ہوتی تھیں جن کے حقوق پامال کیے گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے بہت سے ایسے معاملات میں کاروائی شروع کی تھی۔ 5 مئی کو چیف جسٹس افتخار چودھری قافلے کی شکل میں اسلام آباد سے بذریعہ شیر شاہ سوری سڑک (G.T. road) لاہور روانہ ہوئے۔ یہ قافلہ مختلف قصبوں اور شہروں میں رکتا 27 گھنٹے میں لاہور پہنچا (6 مئی) 2007، جہاں لاہور ہائی کورٹ کے باہر چیف جسٹس کا ققید المثال استقبال ہوا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ''آمریت کا دور ختم ہو چکا ہے۔ ریاست کے دوام کے لیے ضروری ہے کہ آئین کی بالادستی قائم ہو، قانون کا احترام ہو، اور انسانی حقوق کی ضمانت ہو۔'' سامعین میں وکلا ء کی بڑی تعداد کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ کے 17 جج بھی شامل تھے۔ بعض حلقوں کی طرف سے چیف جسٹس کی ان سرگرمیوں کو ''سیاسی جلسہ جلوس'' کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پرویز مشرف کی حکومت نے اپنی اتحادی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ق اور متحدہ قومی موومنٹ کو ہدایت کی ہے، کہ وہ ''جوابی'' جلوس نکال کر حکومت کی حمایت میں مظاہرہ کریں۔ اس کے علاوہ نامعلوم گروہ کی طرف سے پاکستان کی بڑی اخباروں میں چیف جسٹس کے خلاف بڑی رقوم خرچ کر اشتہار چھاپے جا رہے ہیں۔ 12 مئی 2007 کو چیف جسٹس افتخار چودھری کراچی ہوائی اڈے پر اترے، جہاں انہیں سندھ ہائی کورٹ کی وکلاء تنظیم سے خطاب کرنا تھا، مگر شہر میں ہنگاموں کی وجہ سے وہ ہوائی اڈے سے باہر نہ جا سکے۔ شام کو وہ خطاب ترک کر کے واپس اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گئے۔ پرویز مشرف کی حکومتی حلیف جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے اس موقع پر شہر میں پر تشدد حالات پیدا کیے اور قتل و غارت گری کا بازارگرم رکہا تاکہ چیف جسٹس کا خطاب ممکن نہ رہے۔ 26 مئی کو اسلام آباد میں عدالت اعظمی کی عمارت میں ایک seminar سے خطاب کرتے ہوئے منصفِ اعظم افتخار چودھری نے حکومت کی مختلف شاخوں میں طاقت کی تقسیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے آمریت سے پیدا ہونے والی برائیوں کو اجاگر کیا۔ 2 جون 2007 کو منصفِ اعظم نے ایبٹ آباد میں خطاب کیا۔ 6جون 2007 کو افتخار چودھری نے فیصل آباد میں خطاب کیا۔ 14 جولائی 2007 کو لاہور میں منصف اعظم کا ہوائی اڈے سے تحصیل عدالت تک کے راستے میں عوام نے پرتپاک استقبال کیا۔ یہ شاید منصف اعظم افتخار چودھری کا آخری عوامی دورہ ہو۔ واقعات مبینہ طور پر افتخار چودھری کے کچھ وکلاء کو حکومت کی ایجنسیاں ہراساں کر رہی ہیں اس لیے کہ وہ اس مقدمے کی پیروی سے باز آ جائیں۔ راولپنڈی بار انجمن کے رکن غلام مصطفی کندوال نے الزام عائد کیا ہے کہ خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے انھیں اغوا کر کے زدوکوب کیا، اور وجہ یہ بتائی کہ وکلاء چیف جسٹس کی حمایت کیوں کرتے ہیں۔ ادھر کراچی میں چیف جسٹس کے وکیل منیر ملک کے گھر پر نامعلوم افراد نے جدید اسلحہ سے فائرنگ کی۔ 14 مئی 2007 کو سپریم کورٹ کے اڈیشنل رجسٹرار سید حماد رضا کو نامعلوم افراد نے ان کے گھر میں گھس کر سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ حکومت حماد رضا پر دبائو ڈال رہی تھی کہ وہ چیف جسٹس کے خلاف گواہ بنیں، مگر چیف جسٹس کے وکلاء کے مطابق وہ چیف جسٹس کے حق میں گواہ ہونا تھے۔ ان کی بیوی کے مطابق حماد رضا کو خاص طور پر منصوبے کے تحت قتل کیا گیا، جبکہ وزیر داخلہ شیر پائو نے اسے ڈکیتی کی واردات قرار دیا ہے۔ مسلح افراد نے کوئٹہ میں منصفِ اعظم افتخار چودھری کی ہمشیرہ کے گھر میں گھس کر اہل خانہ سے بدتمیزی کی۔ 17 جولائی 2007 کو اسلام آباد میں منصفِ اعظم کے تحصیل وکلاء مجلس کے خطاب کی جگہ پر زوردار بم دھماکہ ہا جس میں 17 افراد ہلاک ہو گئے۔ ہنگامی حالت، 3 نومبر 2007 تفصیلی مضمون فوجی تاخت 2007 3 نومبر 2007 کو فوجی آمر پرویز مشرف کی طرف سے اعلان ہوا کہ ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا گیا ہے، اور آئین معطل کر دیا گیا ہے۔ اسی دِن جناب افتخار چودھری کی سربراہی میں سات رکنی محکمہ نے ہنگامی حالت کے نفاذ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا، اور فوج اور انتظامیہ کو حکم دیا کہ آمر کے غیر قانونی حکم کی تعمیل نہ کی جائے۔ تاہم فوجی آمر کے کارندوں نے خبر دی ہے کہ منصفِ اعظم کی خدمات کی ضرورت نہیں رہی۔ فوج اور پولیس کی بڑی تعداد نے عدالت اعظمی کی عمارت کو گھیرے میں لے لیا۔ مبصرین نے اس فوجی اقدام کو عدلیہ کے خلاف بغاوت قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ عدالت اعظمی کا ایک گیارہ رکنی محکمہ منصف جناب جاوید اقبال کی سربراہی میں پرویز مشرف کے صدارتی انتخاب پر چند دنوں میں فیصلہ سنانے والا تھا اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ فیصلہ فوجی آمر کے خلاف ہو گا۔ منصف اعظم جناب افتخار چودھری نے ایک بیان میں کہا کہ حکومتی اقدامات غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں اور ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔ انھوں نے وکلاء پر زور دیا کہ آئین اور قانون کی بالادستی بجال کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ فوجی آمر کی حکومت کے مطابق جناب افتخار چودھری اپنے عہدے سے 3 نومبر کو''برطرف'' ہو چکے ہیں، تاہم انھوں نے اس ''برطرفی'' کو مسترد کر دیا ہے، اور 14 نومبر کو انسپکٹر جنرل پولیس، اسلام آباد، کو حکم جاری کیا کہ فوجی آمر کے کارندوں کی جانب سے ان کی ممکنہ کوئٹہ منتقلی کو روکا جائے۔ نظربندی کے دوران 30 جنوری 2008 کو افتخار چودھری نے یورپی پارلیمنٹ کے نام کھلا خط جاری کیا، جس میں پرویز مشرف کی صدارت کو قانونی تقاضوں کے لحاظ سے مشکوک قرار دیتے ہوئے اسے انتہا پسند فوجی جرنیل کہا، جس نے اپنے لیے عدلیہ کے 60 منصفین کو ٹھکانے لگایا، جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ کچھ دن پہلے پرویز مشرف نے یورپی دورے کے دوران منصف اعظم پر الزامات کا اعادہ کیا تھا۔ افتخار چودھری نے کہا کہ قانونی طور پر وہ اب بھی منصف اعظم کے عہدے پر فائز ہیں۔ بحالی 16مارچ2009 میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے خطاب میں جسٹس افتخار چوہدری کو تمام ساتھیوں سمیت کو اپنے عہدے پر بحال کر دیا۔ | |||||||||||||
![]() | |||||||||||||

نیشا پور سے وزیر سلاجقہ نظام الملک طوسی کے دربار میں پہنچے اور 484ھ میں مدرسہ بغداد میں مدرس کی حیثیت سے مامور ہوئے۔ انہوں نے باطنیہ، اسماعیلیہ اور امامیہ مذاہب کے خلاف متعدد کتابیں لکھیں ۔
سلطان محمود غوری نے دہلی اور اجمیر فتح کرکے قطب الدین کو ان کا گورنر مقرر کیا۔ قطب الدین ایبک نے اپنی وفا داری اور سپہ گری کا ایسا ثبوت دیا کہ سلطان نے اس کو فرزند بنا کر فرمان فرزندی اور سفید ہاتھی عطا کیا۔
مصر میں ابن خلدون کو مالکی فقہ کا منصب قضا میں تفویض کیا گیا اسی عہدے پر وفات پائی ابن خلدون کو تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔
دوہزار پانچ سے دو ہزار سات تک پاکستان کی عدالت عظمی کے منصف اعظم ہیں۔ وہ پاکستان کی تاریخ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے منصف اعظم ہیں۔ 9 مارچ 2007 کو صدر پاکستان اور فوجی ڈکٹیٹر اور فوج کے سربراہ رئیس عسکریہ جنرل پرویز مشرف نے بدعنوانی کے الزامات کے تحت انہیں ان کے عہدے سے معطل کر دیا۔










No comments:
Post a Comment