Monday, October 19, 2009

بے نظیر بھٹو بلاول بھٹو زرداریByMuhammadAmirSultanChishti923016778069


بے نظیر بھٹو
بے نظیر بھٹو نام
21/ 6 / 1953تاریخ پیداءش
وجھ شھرت
پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن اور سابق وزیراعظم
سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو جب اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو کراچی ائیرپورٹ پر اتریں تو گزشتہ آٹھ سال میں یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اپنی سرزمین پر قدم رکھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو 21 جون 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں،انہوں نے پرائمری تعلیم لیڈی جیننگز نرسری سکول اور کنوینٹ آف جیوزز اینڈ میری کراچی سے حاصل کی،راولپنڈی پریزنٹیشن میں دول سال گزارنے کے بعد وہ مری میں جیوزز اینڈ میری کنوینٹ مری چلی گئیں، انہوں نے او لیول کا امتحان پندرہ سال کی عمر میں پاس کیا جبکہ اس کے بعد انہوں نے اے لیول کراچی گرائمر سکول سے مکمل کیا۔

اعلی تعلیم کیلئے وہ بیرون ملک چلی گئیں جہاں برطانیہ اور امریکہ میں انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی، 1988 میں پہلی اور 93 میں دوسری مرتبہ وزیراعظم بنیں، 1998 میں دبئی چلی گئیں 10 سال بعد 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپس آئیں، جس دوران ان کے استقبالی جلوس پر خود کش حملہ ہوا تاہم اس دوران وہ محفوظ رہیں، جبکہ 27 دسمبر 2007 کو وہ لیاقت باغ میں ہونے والے خود کش دھماکے اور فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئیں۔

انہوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں جبکہ ان کی زندگی پر بھی مختلف مصنفین نے کتابیں تصنیف کیں، بینظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں وہ 2 مرتبہ وزیراعظم رہیں۔

1969 سے 73 تک وہ ریڈ کلف کالج اور ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھتی رہیں جہاں انہوں نے بی اے کی ڈگری حاصل کی جبکہ انہوں نے اپنی تعلیم کا اگلا مرحلہ برطانیہ میں مکمل کیا۔

1973 سے 77 کے درمیان محترمہ بینظیر بھٹو نے لیڈی مارگریٹ ہال آکسفورڈ میں سیاسیات، اقتصادیات اور فلسفے کی تعلیم حاصل کی جبکہ انہوں نے بین الاقوامی قانون اور ڈپلومیسی کے حوالے سے کورس آکسفورڈ یونیورسٹی سے مکمل کیا جبکہ 1976 میں وہ آکسفورڈ یونین کی صدر منتخب ہو گئیں اور وہ پہلی ایشیائی خاتون تھیں جو آکسفورڈ یونین کی سربراہ بنیں جبکہ 18 دسمبر 1987 کو محترمہ بینظیر بھٹو کی کراچی میں آصف علی زرداری کے ساتھ شادی ہو گئی۔

بینظیر بھٹو کے تین بچے جن میں بلاول زرداری، بختاور زرداری اور آصفہ شامل ہیں۔ بینظیر بھٹو کے والد سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے جبکہ انہیں 1975 میں احمد رضا قصوری کے قتل کے الزام میں برطرف کر دیا گیا اور بعد ازاں انہیں پھانسی دی گئی۔

انہیں 4 اپریل 1979 کو پھانسی دی گئی جبکہ اس دوران بینظیر بھٹو اور ان کی والدہ کو حراست میں رکھا گیا۔ 1980 میں بینظیر بھٹو کے بھائی شاہنواز بھٹو کو قتل کر دیا گیا جبکہ 1996 میں ان کے دوسرے بھائی میر مرتضی بھٹو کو بھی قتل کر دیا گیا۔

بینظیر بھٹو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان میں واپس آئیں تو انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا جبکہ 1984 میں انہیں برطانیہ جانے کی اجازت دی گئی۔ 16 نومبر 1988 کو بینظیر بھٹو نے ملک میں ہونیوالے انتخابات میں حصہ لیا اور ان کی پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی اور بینظیر ملک کی وزیراعظم بن گئیں اور انہوں نے 2 دسمبر 1988 کو وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا اور وہ ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں اس وقت ان کی عمر 35 سال تھی جبکہ 1989 میں انہیں لبرل انٹرنیشنل کی طرف سے پرائز فار فریڈم عطا کیا گیا۔

1990 میں بینظیر بھٹو کی حکومت کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کر دی گئی جبکہ اس کے بعد نواز شریف حکومت میں آئے تاہم 1993 میں بینظیر بھٹو دوبارہ ملک کی وزیراعظم بن گئیں لیکن 3 سال بعد ہی ان کی حکومت کرپشن اسکینڈل کے الزامات کے تحت برطرف کر دی گئی۔ جس کے بعد ایک مرتبہ پھر نواز شریف ملک کے وزیراعظم بنے اور بینظیر بھٹو نے اپوزیشن لیڈر کے طور پر اپنا کردار ادا کیاجبکہ 1998 میں بینظیر بھٹو دوبئی چلی گئیں۔

بینظیر بھٹو پر اس دوران کرپشن کے الزامات بھی لگائے گئے جبکہ دس سالہ جلا وطنی کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپس آئیں اور جناح انٹر نیشنل ایئرپورٹ پر اتریں جبکہ جب ان کا جلوس راستے میں تھا تو کارساز کے مقام پر ان کے استقبالی جلوس پر خود کش حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 140 افراد جاں بحق اور 450 سے زائد زخمی ہو گئے تھے جبکہ جاںبحق ہونے والوں میں بینظیر بھٹو کے سیکورٹی گارڈز بھی شامل تھے تاہم بینظیر بھٹو اس حملے میں مکمل طور پر محفوظ رہیں جبکہ اس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کو قتل کی دھمکیاں وغیرہ ملتی رہیں۔

بینظیر بھٹو کے وکیل سنیٹر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ انہیں خط موصول ہوا ہے جس میں بینظیر بھٹو کو قتل کرنے کی دھمکی دی گئی جبکہ 27 دسمبر کو جمعرات کی شام محترمہ بینظیر بھٹو جب راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی مہم کے حوالے سے اپنا جلسہ ختم کر کے نکلنے لگیں تو اس دوران نامعلوم مسلح افراد نے ان پر حملہ کر کے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں بینظیر بھٹو شدید زخمی ہو گئیں جس پر انہیں جنرل ہسپتال راولپنڈی میں منتقل کیا گیا۔

ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ گولی ان کی گردن اور سر میں لگی، جس سے ان کی سانس بند ہو گئی، ڈاکٹروں نے ان کی جان بچانے کی سر توڑ کوشش کی تاہم وہ جانبر نہ ہو سکیں اور خالق حقیقی سے جا ملیں جبکہ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری خزانہ سنیٹر ڈاکٹر بابر اعوان نے بینظیر بھٹو کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی اس سے پہلے ان کے شوہر آصف علی زرداری نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران بتایا تھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو گولی لگنے سے شدید زخمی ہو گئی ہیں اور ان کی حالت انتہائی تشویشناک ہے اس لئے عوام ان کی زندگی کیلئے دعا کریں۔

بینظیر نے مختلف کتابیں بھی لکھیں جن میں ان کی انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب دی گیدرنگ سٹار، ڈاٹر آف دی ایسٹ،ڈاٹر آف ڈیسٹنی اور ہسپانوی زبان میں لکھی گئی کتاب ہجا دی اورینٹیے شامل ہیں جبکہ بینظیر بھٹو کی زندگی پر بھی مختلف لوگوں نے کتابیں لکھیں جن میں ڈبلیو ایف پیپر کی بینظیر بھٹو، رفیق ذکریا کی دی ٹرائل آف بینظیر، کیتھرین ایم ڈوھرٹی کی بینظیر بھٹو، ڈبلیو ایچ ایلن کی بایو گرافیہ آف بینظیر بھٹو، ایلز بتھ بوچلڈکی بینظیر بھٹو وزیراعظم، اقبال اخوند ٹرائل اینڈ ایرر، بینظیر حکومت پہلا دور کیا کھویا کیا پایا، مرسڈیز اینڈرسن کی بینظیر بھٹو، خاتون سیاست میں اور میری اینگلر کی پاکستانی وزیراعظم اور کارکنان شامل ہیں۔

پیپلز میگزین نے بینظیر بھٹو کو دنیا کی 50 خوبصورت خواتین میں سے قرار دیا۔ بینظیر بھٹو پر طویل جلا وطنی کے بعد تین مہینوں کے اندر دو حملے کئے گئے جبکہ ان کے باپ کو سولی پر چڑھایا گیا تھا۔ ماں بیماری کے باعث منظر سے پس منظر میں چلی گئیں، ایک بھائی بہن کے دور حکومت میں سرعام قتل کر دیا گیا اور ایک بھائی نے فرانس میں پراسرار طور پر دنیا سے منہ موڑ لیا۔

شوہر کو سیاسی طور پر ایک متنازعہ شخصیت بنا دیا گیا اور خود کو دومرتبہ وزیراعظم بننے کے باوجود 8 سال تک خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنی پڑی، بینظیر بھٹو اپنے باپ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی پنکی اور سیاسی میدان کی بی بی کہلائیں، جس طرح پوت کے پائوں پالنے میں نظرنہیں آتے اسی طرح سیاسی پنڈتوں نے یہ جان لیا تھا کہ ایشیا کے ایک بڑے سیاسی رہنما کی بیٹی مستقبل کی سیاستدان ہوں گی۔

پنکی اب محترمہ بینظیر بھٹو بننے کے سفر پر نکل چکی تھیں یہ وہی زمانہ ہے جب ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں صاحب اقتدار تھے مگر پھر حالات بدلے مسٹر بھٹو کی حکومت جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں ختم ہو گئی اور 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھا دیئے گئے اور یوں بھٹو خاندان کا شیرازہ بکھرنے لگا سبھی ملک سے باہر چلے گئے۔

پہلے والدہ نصرت بھٹو نے پارٹی کی کمان سنبھالی لیکن بعد میں یہ کمان بینظیر بھٹو کے ہاتھوں میں آگئی، ملک سے باہر بیٹھ کر وہ پارٹی بھی چلاتی رہیں اور ملک میں مارشل لاء کے کارناموںکا مشاہدہ بھی کرتی رہیں 1985 میں ضیا الحق نے بظاہر مارشل لاء ختم کر دیا تو طویل جلا وطنی کے بعد اپریل 1986 میں بینظیر بھٹو وطن واپس آگئیں، عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے ان کا استقبال کیا۔

انہوں نے ملک بھر کا دورہ کیا اور عوام ایک مرتبہ پھر سیاست کے میدان میں آگئے اور اگست 1988 میں ضیا الحق کا طیارہ تباہ ہونے کے ساتھ ہی ایک غیر عوامی دور ختم ہو گیا، عام طور پر خیال تھا کہ بینظیر بھٹو کی قیادت ولولہ انگیز قیادت ہو گی، سیاست کے فرسودہ اصولوں سے نجات اور ملک ترقی اور روشن خیالی کے نئے دور میں داخل ہو جائیگا مگر وہ دسمبر 1988 میں سادہ اکثریت حاصل ہونے والی حکومت شوہر آصف علی زرداری اور کچھ ساتھیوں کی مبینہ کرپشن کی وجہ سے 6 اگست 1990 کو ختم ہو گئی۔

18 جولائی 1993 کو ایک مرتبہ پھر اقتدار کا تاج بینظیر بھٹو کے سر پر سجایا گیا مگر 5 نومبر 1993 کو ملنے والے اقتدار کی بساط 5 نومبر 1996 کو لپیٹ دی گئی، الزماات وہی پرانے تھے، یعنی کرپشن اور اقرباء پروری۔

ملک کی سیاست پر اس وقت سب سے بڑا نام محترمہ بینظیر بھٹو کا ہے جو اب بی بی بن چکی تھیں تاہم27 ستمبر کو بینظیر کے جاں بحق ہونے کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان کا ایک اور فرد سیاست کے راستے میں زندگی کی جنگ ہار گیا

ایک نظر بینظیر کی سیاسی زندگی پر

سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو جب اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو کراچی ائیرپورٹ پر اتریں تو گزشتہ آٹھ سال میں یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اپنی سرزمین پر قدم رکھا۔

1979:چار اپریل کو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ملک کے فوجی حکمران جنرل ضیاالحق کے حکم پر پھانسی چڑھا دیا گیا۔

1986:دس اپریل کو بینظیر بھٹو اپنی جلا وطنی کے بعد جب لاہور پہنچیں تو ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد افراد ان کے استقبال کے لیے لاہور کی سڑکوں پر آئے۔

1988: سولہ نومبر کو ہونے والے عام انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی نے شاندار کامیابی حاصل کی اور قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔

1988: دو دسمبر کو بینظیر بھٹو نے پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔

1990: اگست میں صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر بھٹو کی حکومت کو برخاست کر دیا۔ بینظیر کے خاوند آصف علی زرداری کو اغوا کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

1990: اکتوبر کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ہار گئی اور اسے اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا۔ بینظیر بھٹو کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چنا گیا۔

1993: اکتوبر میں ہونے والی انتخابات میں پی پی پی نے کامیابی حاصل کی اور بینظیر بھٹو دوسری بار وزیر اعظم بن گئیں۔

1996: اکتوبرمیں صدر فاروق احمد لغاری نے بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کے تحت ختم کر دیا۔ آصف علی زرداری کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا۔

1999: اپریل میں لاہور ہائی کورٹ نے بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو کوٹیکنا اور ایس ای ایس کیس میں سزا سنائی۔ دو سال بعد سپریم کورٹ نے یہ سزا ختم کر دی۔

1999: اپریل میں ہی بینظیر بھٹو نے جلا وطنی اختیار کی۔ اس دوران انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت لندن اور دبئی میں گزارا۔

1999: 12 اکتوبر کو نواز شریف کی حکومت کو ختم کر کے جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا۔

2002: جولائی کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ بظاہر اس آرڈیننس کا مقصد سابق وزرا اعظم نواز شریف اور بینظیر کا اقتدار میں آنے کا راستہ روکنا تھا۔

2003: جولائی میں ایک سوئس عدالت نے بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو منی لانڈرنگ کے ایک مقدمے میں چھ ماہ کی سزا سنائی۔ بعد میں ایک
اپیل عدالت نے سزا ختم کر دی۔

2004: نومبر میں آصف علی زرداری کو آٹھ سال بعد جیل سے رہا کر دیا گیا اور وہ بیرونِ ملک چلے گئے۔

2006: جنوری میں انٹرپول نے پاکستانی حکومت کی ایک درخواست پر بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف بین لاقوامی ریڈ نوٹس جاری کر دیئے۔

2007: 13 جولائی کو بینظیر بھٹو نے فوج کی طرف سے اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن کی تعریف کی اور چند روز بعد چیف جسٹس کے جلسے کے سلسلے میں لگائے گئے ایک پی پی پی کیمپ پر خود کش حملے میں پندرہ افراد ہلاک ہو گئے۔

2007: 14 ستمبر کو پی پی پی قیادت نے اعلان کیا کہ بینظیر بھٹو اٹھارہ اکتوبر کو وطن واپس پہنچیں گی۔

2007: چار اکتوبر کو صدر مشرف نے بینظیر بھٹو کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت قومی مفاہمتی آرڈیننس جاری کر دیا۔

2007: بارہ اکتوبر کو سپریم کورٹ نے سابق وفاقی وزیر مبشر حسن، سابق بیوروکریٹ روئیداد خان اور قاضی حسین احمد کی درخواستوں پر مفاہمتی آرڈیننس کے تحت ملنے والی رعایت کو عدالتی فیصلے سے مشروط کر دیا۔

پھر اکتوبر سے دسمبر تک کے تین مہینے بھی ایسے ہی حالات کا سامنا رہا لیکن ایک مرتبہ کراچی میں ہونے والے خود کش حملے میں بچ جانے والی بے نظیر 27دسمبر2007 کو راولپنڈی کے خود کش حملے نہ بچ سکیں۔
بلاول بھٹو زرداری
بلاول بھٹو زردارینام
21/9/1988تاریخ پیداءش
وجھ شھرت
بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ ہیں۔
بلاول، اپنی والدہ کے قتل کے بعد 30 دسمبر، 2008 کو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ نامزد ہوئے۔

بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ ہیں۔ وہ 21 ستمبر، 1988 کو پیدا ہوئے۔ بلاول سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو اور موجودہ شریک چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین آصف علی زرداری کے اولاد میں سے سب سے بڑے ہیں۔ اس طرح وہ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے ہیں۔

تعلیم
اپنی والدہ کے دوسرے دور حکومت کے دوران انہوں نے کراچی گرائمر اسکول، کراچی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے فوربلز انٹرنیشنل اسکول، اسلام آباد سے بھی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں جب وہ دبئی منتقل ہوئے تو انہوں نے اپنی تعلیم راشد پبلک سکول، دبئی میں جاری رکھی۔

جہاں وہ اسٹوڈنٹ کونسل کے نائب چیئرمین تھے۔ راشد پبلک سکول، دبئی کے شہزادوں اور امرا کے لیے خاص سکول ہے۔ وہ تائیکوانڈو میں بلیک بیلٹ بھی رکھتے ہیں۔ اب وہ کرائسٹ چرچ سکول، جامعہ آکسفورڈ میں زیر تعلیم ہیں۔ یہ''2008'' ان کا پہلا تعلیمی سال ہے۔ اسی جامعہ میں ان کے نانا اور والدہ نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔

مشاغل
بلاول کو گھڑ سواری، تیراکی اور نشانہ بازی پسند ہے۔

سیاسی پارٹی کی سربراہی
بلاول، اپنی والدہ کے قتل کے بعد 30 دسمبر، 2008 کو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ نامزد ہوئے۔ لیکن چونکہ ابھی تعلیم مکمل نہیں ہے لہذا ان کے والد آصف علی زردای پارٹی کے شریک سربراہ ہیں۔ جو کہ جماعت کو چلا رہے ہیں۔

والدہ کے قتل کے بعد ان کا نام بلاول علی زرداری سے تبدیل کر کے بلاول بھٹو زرداری کر دیا گیا تھا کیونکہ پیپلز پارٹی اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے باعث پانے والی شہرت کو نہیں کھونا چاہتی تھی اور "بھٹو عنصر" کا استعمال ہی بلاول کے نام کی تبدیلی کا باعث بنا۔

ان کی پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے عہدے پر تعیناتی کو ملک کے جمہوری حلقوں نے اچھی نگاہ نہیں دیکھا کیونکہ ملک کی سب سے بڑی جمہوری قوت ہونے کن ناطے پیپلز پارٹی کو اپنے سربراہ کا انتخاب جمہوری طریقے سے کرنا چاہیے تھا۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے اعلی حلقوں''بشمول آصف زرداری'' کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وصیت میں انتقال کے بعد آصف زرداری کو جماعت کی قیادت دینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن آصف نے قیادت کا بوجھ بلاول کے کاندھوں پر ڈال دیا۔

مستقبل
اس وقت بلاول کی پہلی ترجیح اپنی تعلیم مکمل کرنا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہی ان کا سیاست میں آنے کا ارادہ ہے۔

























































No comments:

Post a Comment