. سوال۔صلح کر لینا اور معاف کردینا ان کے متعلق قرآن مجید سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟ امجد فاروق، گجرات جواب:قرآن مجید، پارہ نمبر 4سورہ آل عمران آیت نمبر 134 میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللّٰہ یحب المحسنینترجمہ: اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔جبکہ قرآن مجید، پارہ نمبر 18 سورہ نور آیت نمبر 22 میں ارشاد ہے:والیعفوا والیصفحوا الا تحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور الرحیمترجمہ: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔نیز قرآن مجید، پارہ نمبر 24 سورہ حم السجدہ آیت نمبر 34 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:ولا تستوی الحسنة والا السیئة ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوة کانہ ولی حمیمترجمہ: اور نیکی اور بدی برابر نہیں اے شخص برائی کا جواب اچھائی سے دے تب تو اور تیرا دشمن ایسا ہوجائے گا جیسا گہرا دوست۔اسی طرح قرآن مجید، پارہ نمبر 25 سورہ شوریٰ، آیت نمبر 40 میں فرمان خداوندی ہے:فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ انہ لا یحب الظالمینترجمہ: اور جس نے معاف کیا اور صلح کی تو اس کا اجر اللہ پر ہے بے شک وہ (اللہ) ظالموں کو پسند نہیں فرماتا۔اور پارہ نمبر 25 سورہ شوریٰ، آیت نمبر 43 میں ہے:ولمن صبر وغفر ان ذالک لمن عزم الامور ترجمہ: اور جس نے صبر کیا اور بخش دیا بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:آخرت میں حساب و کتاب س طرح ہوگا؟ توقیر، راولپنڈیجواب:حساب و کتاب مختلف طریقوں سے ہو گا۔ بعض لوگوں کا خفیہ بعض کا بالکل ظاہر۔ کچھ لوگوں کا حساب وکتاب بڑی سختی سے ہو گا۔ کچھ نیک لوگ بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل ہوں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:میزان کسے کہتے ہیں؟جواب:یہ خدائی ترازو ہے۔ تمام اچھے اور برے اعمال اس میں تولے جائیں گے۔ یہ ترازو دنیا کے ترازو سے مختلف ہوگا۔ اِس کا نیکیوں والا پلڑا اوپر ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:دوزخ کے بارے میں کچھ بتائیں کہ یہ کیا ہے اس میں کیا ہوگا؟ حسیب، لاہور جواب:دوزخ ہولناک جگہ ہے۔ اِس کی مشکلات کا ہم اندازہ نہیں کر سکتے۔ اِس کے شعلے بڑے بڑے پہاڑوں کے برابر ہوں گے۔ اِس کی گہرائی کا اندازہ بھی نا ممکن ہے۔ احادیث میں کہا گیا ہے کہ اگر ایک پتھر اِس میں پھینکا جائے تو اسے دوزخ کی تہہ تک پہنچنے میں سترسال سے زیادہ وقت لگے۔ پیاسے گنہ گاروں کو ابلتا ہوا تیل پلایا جائے گا۔ دوزخ میں لوگوں کے اپنے دنیاوی اعمال کے مطابق مختلف درجات ہوں گے۔ صرف کافر ہی اس میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔ مسلمان گنہ گار آخر کار جنت میں آ جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:رسول اللہۖ نے جب مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تو اہل مدینہ کا رویہ کیاتھا۔ کیا انہوں نے رسول اللہ ۖ کے آنے کو اچھا سمجھا یا آپ کاآنا ان پر ناگوار گزرا؟ مطیع الرحمان، فیصل آبادجواب: اس سلسلہ میں ایک حدیث مبارک فی الوقت ملاحظہ فرمائیں جس سے آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا، حدیث یہ ہے: صحیح مسلم کتاب الزھد والرقائق، باب فی حدیث الہجرة ، جلد: 2، حدیث: 5329 اور مسند ابویعلیٰ میں ہے کہ ہجرت مدینہ کے موقع پر جب حضور نبی اکرمۖ مدینہ منورہ تشریف لائے تو:ترجمہ: ''مرد اور عورتیں چھتوں پر چڑھ گئے اور لڑکے اور خدام راستوں میں پھیل گئے اور وہ یامحمد! یارسول اللہ! پکار رہے تھے۔''یہ حدیث مسند ابویعلیٰ، جز:1، صفحہ: 107 پر بھی موجود ہے، جس کا نمبر 116 ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:1۔ پاکستان کے پوش علاقوں میں مشینوں سے ذبح کیا ہوا گوشت دستیاب ہے، جس پر تکبیر بھی نہیں پڑھی جاتی۔ کیا یہ گوشت حلال ہے؟2۔ کمپنی کا موقف یہ ہے کہ وہ چھری جو جانور ذبح کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے اس پر تکبیر لکھی ہوتی ہے۔ بتایا جائے کہ کیا چھری پر لکھی ہوئی تکبیر زبان سے کہنے کے برابر ہو جاتی ہے؟3۔ بعض اوقات جانور ذبح کرتے وقت گردن مکمل کٹ جاتی ہے۔ اس کا حکم کیا ہے؟4۔ جس جانور پر بوقت ذبح تکبیر نہیں پڑھی گئی اس کا گوشت لاعلمی میں کھانے والوں پر کوئی مواخذہ ہے یا نہیں۔5۔ اور جان بوجھ کر ایسا گوشت مسلمانوں کو کھلانے والوں کے ساتھ آخرت میں کیا معاملہ ہوگا؟جواب:1۔ اللہ رب العالمین قرآن مجید پارہ نمبر 8سورہ انعام آیت نمبر 121میں فرماتے ہیں:''ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللّٰہ علیہ وانہ لفسق۔''ترجمہ: ''اور مت کھاؤ اس جانور سے جس پر اللہ کا نام (بوقت ذبح)نہیں لیا گیا اور اس کا کھانا حکم عدولی ہے۔''لہذا ایسا جانور جسے ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر تکبیر نہیں پڑھی گئی وہ حرام ہے۔ چنانچہ ''اصول الشاشی'' میں اس آیت کے تحت صفحہ نمبر 8 پر ہے:''انہ یوجب حرمة متروک التسمےة عامدا۔''ترجمہ: ''جس جانور کو ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑی جائے یہ آیت اسکی حرمت کو واجب کرتی ہے۔''اور تفسیر ابن کثیر میں حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عمر، اور حضرت سعید بن مصیب رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے، اور فتاویٰ عالمگیری اور ھدایہ میں ہے:''وان ترک الذابح التسمےة عمدا فالذبیحة میتة لا یوکل۔''ترجمہ: ''اور اگر ذبح کرنے والے نے جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھی تو یہ جانور مردار ہوگا اور اسے نہیں کھایا جائے گا۔''لہذا درج بالا صورت میں گوشت حلال نہیں ہوگا بلکہ حرام رہے گا۔لیکن اگر مسلمان نے بھول کر بسم اللہ چھوڑ دی تو اسے کھانا جائز ہے۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عمر، اور حضرت سعید بن مصیب رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے، اور فتاویٰ عالمگیری اور ھدایہ میں ہے:''وان ترکھا ناسیا اکل۔''ترجمہ: ''اور اگر مسلمان نے بھول کر بسم اللہ چھوڑ دی تو اسے کھانا جائز ہے۔''اسکی ایک وجہ یہ حدیث پاک ہے جو سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق صفحہ نمبر 659پر ہے:''ان اللّٰہ وضع عن امتی الخطاء والنسیان وما استکرھوا علیہ۔''ترجمہ: ''اللہ نے میری امت سے خطا (کرنا کچھ اور تھا ہو کچھ اور گیا)، نسیان (بھول جانا)اور جس غلطی پر مجبور کردیا جائے (یعنی جان جانے یا عضو کے تلف ہوجانے کا خوف ہو)معاف فرمادی ہیں''مثال یوں سمجھئے کہ روزہ کے دوران اگر جان بوجھ کر کھا یا پی لیا جائے تو روزہ ختم ہوجاتا ہے اور اگر بھول کر کھایا یا پیا تو روزہ ختم نہیں ہوتا۔اس طرح ذبح میں بھی اگر جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑی جارہی ہے تو یہ جانور حرام ہوگا اور اگر مسلمان نے بھول کر بسم اللہ نہیں پڑھی تو اسے کھانا جائز ہوگا۔2۔ کمپنی کا یہ کہنا کہ چھری پر تکبیر لکھی ہوتی ہے اس لئے زبان سے تکبیر نہیں کہی جاتی یہ سرا سر غلط ہے۔ ذبح کرتے وقت زبان سے تکبیر کہنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید پارہ نمبر 17سورہ حج آیت نمبر 36میں ارشاد فرماتے ہیں:''فاذکروا اسم اللّٰہ علیہا۔''ترجمہ: ''تو ان پر اللہ کا نام لو۔''لہذا ذبح کرتے وقت زبان سے اللہ تعالیٰ کا نام لینا ضروری ہے۔3۔ ذبح کرنا کا طریقہ یہ ہے کہ جانور پر تکبیر کہہ کر حلق اور سینہ کے بالائی حصہ کے درمیان سے چار مخصوص رگوں کو کسی تیز دھار چیز سے کاٹ دیا جائے تاکہ بہنے والا خون نکل جائے۔ لیکن اگر ذبح کرتے وقت پوری گردن کٹ گئی تو یہ اسلام میں مکروہ یعنی ناپسند ہے۔ لیکن ایسے جانور کو کھانا حرام نہیں جبکہ اس پر بوقت ذبح تکبیر پڑھی گئی ہو۔4۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ آج کے دور میں گوشت خریدتے وقت مکمل تسلی کرے۔ بہرحال اگر لاعلمی میں ایسا گوشت کھالیا جس پر جان بوجھ کر تکبیر نہیں پڑھی گئی تو اس کا تمام گناہ دھوکا دہی اور غلط بیانی کرنے والوں پر ہے۔ دھوکا دہی کا شکار ہونے والوں پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:''یخدعون اللّٰہ والذین امنوا۔۔۔لھم عذاب الیم بما کانوا یکذبون۔''ترجمہ :'' وہ دھوکہ دیتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو ۔۔۔ ان کیلئے درد ناک عذاب ہے کیونکہ وہ کذب بیانی کرتے ہیں۔''5۔ پانچویں سوال کا جواب اس آیت پاک میں ہے:''وَمَنْ ےُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَےَّنَ لَہ الْھُدٰی وَےَتَّبِعْ غَےْرَ سَبِےْلِ الْمُؤمِنِےْنَ نُوَلِّہ مَا تَوَلیّٰ وَنُصْلِہ جَھَنَّمَ ط وَسَآئَ تْ مَصِےْرًا۔''ترجمہ: ''اور جو شخص راہ حق واضح ہونے کے بعدرسول اللہۖ کے طریقے کی مخالفت کرے ، اور طریقۂ مؤمنین کے علاوہ کسی اور راستے کی پیروی کرے، تو ہم اسے پھرنے دیں گے جدھر وہ پھرے۔ اور (آخر کار) اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور نہایت بُرا ہے وہ ٹھکانا۔''۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:حفاظت کیلئے کوئی خصوصی وظیفہ بتائیں؟ نعمت اللہ، حیدر آبادجواب:مشکوٰة المصابیح شریف صفحہ: 177 پر حدیث مبار ہے کہ''ایک مرتبہ حضورۖ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صدقہ فطر کی حفاظت کیلئے مقرر کیا، حضرت ابو ہریرہ رات بھر اس مال کی حفاظت فرماتے، ایک رات ایک چور آیا اور مال چرانے لگا، حضرت ابو ہریرہ نے اسے دیکھ لیا اور اسے پکڑ لیا اور فرمایا میں تجھے حضور ۖکی خدمت میں پیش کروںگا۔ اس چور نے منت سماجت کرنا شروع کی اور کہا: خدارا مجھے چھوڑ دو میں صاحبِ عیال اور محتاج ہوں۔ حضرت ابو ہریرہ کو رحم آگیا اور اسے چھوڑ دیا۔ صبح جب وہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضور نے مسکرا کر فرمایا:ابو ہریرہ! رات والے تمہارے قیدی(چور) نے کیا کیا؟حضرت ابوہریرہ نے عرض کیا: حضور! اس نے اپنی عیال داری اور محتاجی بیان کی تو مجھے اس پر رحم آگیا اور میں نے چھوڑ دیا۔ حضورۖ نے فرمایا اس نے تم سے جھوٹ بولا۔ خبردار رہنا آج رات وہ پھر آئے گا۔حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں دوسری رات بھی اس کی انتظار میں رہا کیا دیکھتا ہوں کہ وہ واقعی پھر آپہنچا اور مال چرانے لگا، میں نے پھر اسے پکڑ لیا۔ اس نے پھر منت کی اور مجھے پھر رحم آگیا اور میں نے پھر اسے چھوڑ دیا۔ صبح جب حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو حضور نے پھر فرمایا:ابو ہریرہ وہ رات والے قیدی (چور)نے کیا کیا؟میں نے پھر عرض کیا کہ حضور! وہ اپنی حاجت بیان کرنے لگا تو مجھے اس پر رحم آگیا اور میں نے پھر چھو ڑ دیا۔حضورۖ نے فرمایا:اس نے تم سے جھوٹ کہا خبردار! آج وہ پھر آئیگا۔تیسری رات وہ پھر آیا اور حضرت ابوہریرہ نے اسے پکڑ کر کہا: کم بخت آج نہ چھوڑوں گا اور حضور کے پاس ضرور لے کر جاوں گا۔ وہ بولا: ابو ہریرہ! میں تجھے چند ایسے کلما ت سکھا جاتا ہوں جن کو پڑھنے سے تو نفع میں رہے گا، سنو! جب سونے لگو تو ''آیت الکرسی'' (تیسرے سپارے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 255) پڑھ کر سویا کرو اس سے اللہ تمہاری حفاظت فرمائے گا اور شیطان تمہارے نزدیک نہیں آسکے گا۔ابوہریرہ کہتے ہیںوہ مجھے یہ کلمات سکھا کر پھر مجھ سے رہائی پا گیا اور میں نے جب صبح حضور کی بارگاہ میں یہ سارا قصہ بیان کیا تو حضور نے فرمایا:اس نے یہ بات سچ کہی ہے حالانکہ خود وہ بڑا جھوٹا ہے۔ کیا تو جانتا ہے اے ابو ہریرہ کہ وہ تین رات آنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نہیںجانتا! فرمایا: وہ شیطان تھا۔''آپ بھی سوتے وقت 3یا 5یا 7مرتبہ آیت الکرسی پڑھ کر اپنے چھے جانبوں میں پونکھ مار لیا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:حیض کی تعریف کیا ہے؟ قاریہ ، فیصل آباد جواب:بالغہ عورت کے آگے کے مقام سے جو خون عادی طور پر نکلتا ہے نہ کہ بیماری یا بچے کی وجہ سے وہ حیض کہلاتا ہے۔ اور بیماری یا زخم کی وجہ سے ہو تو اسے استحاضہ کہتے ہیں اور بچہ ہونے کے بعد نکلنے والے خون کو نفاس کہا جاتا ہے۔حیض کی کم از کم مدت تین دن تین راتیں ہیں۔ یعنی پورے بہتر گھنٹے۔ اور زیادہ سے زیادہ دس دن دس راتیں اس کی مدت ہے۔ بہتر گھنٹے سے پہلے ختم ہوجائے تو حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے۔ اسی طرح اگر دس رات دن سے کچھ زیادہ خون آئے تو اگر یہ حیض پہلی مرتبہ اسے آیا ہے تو دس دن تک حیض ہے اور باقی بعد کا استحاضہ شمار ہوگا۔ اور اگر پہلے اسے حیض آچکے ہیں اور عادت دس دن سے کم کی تھی تو عادت سے جتنا زیادہ ہو وہ استحاضہ ہے۔یا یوں سمجھئے کہ پانچ دن کی عادت تھی اب آیا دس دن تو تمام حیض ہے اور اگر بارہ دن آیا تو پانچ دن حیض کے باقی سات دن استحاضہ کے ہیں۔ اور اگر ایک حالت مقرر نہ تھی بلکہ کبھی چار دن آیا کبھی پانچ دن آیا تو پچھلے بار جتنے دن آیا اتنے ہی دن حیض کے سمجھے جائیں باقی استحاضہ کے ہیں۔یاد رہے کہ یہ ضروری نہیں کہ مدت میں ہر وقت خون جاری رہے بلکہ اگر بعض وقت آئے جب بھی حیض ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:حیض ونفاس کا شرعی حکم کیا ہے؟جواب:حیض و نفاس کا حکم یہ ہے کہ اس حالت میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا حرام ہے۔ ان دنوں میں نمازیں معاف ہیں۔ ان کی قضا بھی نہیں۔ البتہ روزوں کی قضا بعد میں کرنا فرض ہے۔ہاں! نماز کے وقت میں وضو کرکے اتنی دیر تک ذکر الٰہی درود شریف اور دوسرے وظیفے (جو قرآنی آیات پر مشتمل نہ ہوں)پڑھ لیا کرے جتنی دیر نماز پڑھا کرتی تھی تاکہ عادت رہے۔ لیکن حیض و نفاس کی حالت میں عورت کیلئے اور جنابت کی حالت میں مرد کیلئے قرآن مجید پڑھنا دیکھ کر ہو یا زبانی اور اس کا چھونا یہ سب حرام ہیں۔ اور یہی حکم اس کاغذ کا ہے جس پر آیت قرآنی لکھی ہوئی ہو۔ اور اگر قرآن مجید جزدان میں ہو یا کپڑے وغیرہ سے پکڑ لیا تو اس میں حرج نہیں۔نیز اس حالت میں جماع حرام ہے البتہ لیٹنا بیٹھنا ساتھ کھانا پینا اور چھونا میاں بیوی کیلئے اسلام میں جائز ہے۔ جبکہ یہودی اسے بھی ناجائز سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:حالت حیض ونفاس میں وظائف اور کلمہ شریف پڑھنا کیسا ہے؟جواب:قرآن مجید کے علاوہ دیگر اذکار، کلمہ شریف، درود شریف وغیرہ پڑھنا بلاکراہت جائز ہے۔ لیکن اچھا یہ ہے کہ وضو یا کلی کرکے پڑھے۔ اور اگر ویسے بھی پڑھ لئے تو حرج نہیں۔ نیز ان کے چھونے میں بھی حرج نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:آپ نے بتایا تھا کہ حیض ونفاس کے علاوہ بیماری یا زخم کی وجہ سے عورت کے آگے کے مقام سے خون آئے تو اسے استحاضہ کہتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ استحاضہ کا کیا حکم ہے؟جواب:استحاضہ میں نہ نماز معاف ہے نہ روزہ اور ایسی حالت میں بیوی سے جماع بھی کیا جاسکتا ہے یعنی جماع حرام نہیں۔استحاضہ اگر اس حد تک پہنچ گیا کہ اتنے مہلت نہیں ملتی کہ وضو کرکے فرض نماز ادا کرسکے تو نماز کا پورا ایک وقت شروع سے آخر تک اسی حالت میں گزر جانے پر اس کو معذور کہا جائے گا۔ اسی طرح ہر وہ شخص بھی معزور قرار دیا جائے گا جسے ایسی بیماری ہو کہ ایک نماز کے پورے وقت میں وہ اتنی دیر کیلئے بھی پاک نہیں ہوسکتا کہ وہ وضو کرکے صرف فرض نماز ہی ادا کر سکے تو ایسے ہر شخص کو شریعت معذور قرار دیتی ہے۔ اور جب تک وہ ایک نماز کا پورا وقت تندرستی سے گزار نہیں لیتا وہ شرعا معذور ہی متصور ہوگا۔معذور اور استحا ضہ والی کیلئے شرعی حکم یہ ہے کہ وہ نماز کا وقت شروع ہونے پر وضو کرے اور اس پورے وقت میں نوافل، سنت، فرائض اور دیگر عبادات میں سے جو چاہے کرے، اور وقت ختم ہونے کے ساتھ ہی اس کا وضو بھی ختم ہوجائے گا اور اگلے وقت کے لئے دوبارہ وضو کرنا پڑے گا۔ لیکن اس وقت میں بیماری کے علاوہ اگر کوئی اور سبب نواقضِ وضو میں سے پایا گیا تو وضو جاتا رہے گا۔اور اگر حالت استحاضہ میں کپڑا وغیرہ رکھ کر اتنی دیر کیلئے خون روکا جاسکے کہ وضو کرکے نماز پڑھی جا سکتی ہو تو یہ شرعا معذوری شمار نہیں ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزاوں کا مقصد کیا ہے؟ بلقیس، راہوالیجواب:اللہ تعالیٰ نے ہماری بہتری کیلئے کچھ حدیں مقرر کی ہیں، ان سے تجاوز کرنا ممنوع ہے۔ لیکن جب کوئی ان سے تجاوز کر جاتا ہے تو اس کیلئے رب العالین نے سزائیں مقرر کردی ہیں۔ تاکہ سزاؤں کے خوف کی وجہ کوئی یہ جرم ن کرے۔ان حدود (یعنی سزاؤں)کو نافذ کرتے وقت احتیاط سے کام لینا شرعی حکم ہے۔ یہ سزائیں ظلم یا زیادتی نہیں بلکہ ہمارے مال وجان وعزت کی محافظ ہیں اور ہمیں دینی دنیاوی اور طبّی طور پر نقصانات سے بچاتی ہیں۔ جیسا کہ رب العالین نے قرآن مجید پارہ نمبر 2 سورہ بقرہ کی آیت نمبر 179میں قصاص کے متعلق فرمایا ''اور قصاص میں تمہاری زندگی ہے اے عقلمندو! تاکہ تم بچو۔'' اور سنن ابن ماجہ اور سنن نسائی میں بروایت حضرت عبد اللہ بن عمر وحضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہم) ایک حدیث مبارک ہے کہ ''اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں میں سے ایک سزا جاری کرنا، ( سخت ضرورت کے وقت) کئی رات کی بارش سے بہتر ہے۔ کیونکہ ایک حد کے نفاذ سے خوف پیدا ہوجاتا ہے اور کئی لوگ اس خوف کی وجہ سے گناہ نہیں کر پاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:لڑکے اور لڑکی کیلئے بالغ ہونے کی کم از کم مدت کیا ہے؟ بلقیس، راہوالی جواب:لڑکے کے بالغ ہونے کی کم از کم عمر 12سلم ہے جبکہ لڑکی کے بالغ ہونے کی کم سے کم عمر نو سال ہے۔ فتاویٰ ہندیہ المعروف فتاویٰ عالمگیری (جسے پانچ سو علماء امت نے مرتب کیا ہے ) کی کتاب الحجر، الفصل الثانی، صفحہ نمبر 61، طبع دار الفکر بیروت میں ہے کہترجمہ: ''اور احتلام وغیرہ کے ساتھ بالغ ہونے کی کم از کم مدت لڑکے کے حق میں 12سال ہے اور لڑکی کے حق میں ) 9سال ہے۔''تو واضح ہوا کہ لڑکا 12سال کے بعد کسی بھی وقت بالغ ہوسکتا ہے جبکہ لڑکی 9سال کے بعد کسی بھی وقت بالغ ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:نکاح کیوں کیا جاتا ہے؟ وکی، پرنس سٹریٹ سلوجواب: چونکہ آدمی کی نسل کا باقی رہنا نکاح پر موقف ہے اور آدمی کی طبعی خواہش بھی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے نکاح کرنے کا حکم دیا اور اس کے احکام قرآن میں بیان فرمائے اور رسول اللہۖ نے نکاح کی ترغیب دی اور اس کے فائدے وقاعدے ارشاد فرمائے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ حدیث کی کتابوں میں لکھاہے کہ نبیۖ نے فرمایا ہے:اے جوانو تم میں جو نکاح کرسکتا ہے وہ نکاح کرے کہ نکاح بری نظر اور برے کام سے روکنے والا ہے اور جس سے نہ ہوسکے وہ روزہ رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔ایک اور حدیث میں فرمایا:جو خدا سے پاک و صاف ہوکر ملنا چاہتا ہے۔ وہ آزاد عورتوں سے نکاح کرے اور فرمایا جو میرے طریقہ کو دوست رکھے وہ میری سنت پر چلے اور میری سنت سے نکاح ہے۔ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے اچھی پونجی نیک عورت ہے۔ اور فرمایا جو اتنا مال رکھتا ہے کہ نکاح کر سکے پھر بلاوجہ نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:کیا رسول اللہ ۖ اپنی وفا ت کے بعد یعنی اب بھی رحمت للعالمین ہیں؟ ایک قاریجواب:جی ہاں! رسول اللہ ۖ تمام کائنات کیلئے اب بھی بلکہ ہمیشہ ہی رحمت ہیں۔ اس سلسلہ میں فی الوقت ایک حدیث مبارک ملاحظہ فرمائیں جو ''مجمع الزوائد'' اور ''بحر الزخائر'' میں ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ''میری وفات بھی تمہارے لئے بہتر ہے، مجھ پر تمہارے اعمال پیش کئے جائیں گے، پس میں اچھے اعمال پر اللہ کی حمد بیان کروں گا اور برے اعمال پر تمہارے لئے مغفرت کی دعا کروں
Monday, October 19, 2009
دین اسلام کی روشنی میں سوالوں کےجوابByMuhammadAmirSultanChishti923016778069
. سوال۔صلح کر لینا اور معاف کردینا ان کے متعلق قرآن مجید سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟ امجد فاروق، گجرات جواب:قرآن مجید، پارہ نمبر 4سورہ آل عمران آیت نمبر 134 میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللّٰہ یحب المحسنینترجمہ: اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔جبکہ قرآن مجید، پارہ نمبر 18 سورہ نور آیت نمبر 22 میں ارشاد ہے:والیعفوا والیصفحوا الا تحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور الرحیمترجمہ: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔نیز قرآن مجید، پارہ نمبر 24 سورہ حم السجدہ آیت نمبر 34 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:ولا تستوی الحسنة والا السیئة ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوة کانہ ولی حمیمترجمہ: اور نیکی اور بدی برابر نہیں اے شخص برائی کا جواب اچھائی سے دے تب تو اور تیرا دشمن ایسا ہوجائے گا جیسا گہرا دوست۔اسی طرح قرآن مجید، پارہ نمبر 25 سورہ شوریٰ، آیت نمبر 40 میں فرمان خداوندی ہے:فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ انہ لا یحب الظالمینترجمہ: اور جس نے معاف کیا اور صلح کی تو اس کا اجر اللہ پر ہے بے شک وہ (اللہ) ظالموں کو پسند نہیں فرماتا۔اور پارہ نمبر 25 سورہ شوریٰ، آیت نمبر 43 میں ہے:ولمن صبر وغفر ان ذالک لمن عزم الامور ترجمہ: اور جس نے صبر کیا اور بخش دیا بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:آخرت میں حساب و کتاب س طرح ہوگا؟ توقیر، راولپنڈیجواب:حساب و کتاب مختلف طریقوں سے ہو گا۔ بعض لوگوں کا خفیہ بعض کا بالکل ظاہر۔ کچھ لوگوں کا حساب وکتاب بڑی سختی سے ہو گا۔ کچھ نیک لوگ بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل ہوں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:میزان کسے کہتے ہیں؟جواب:یہ خدائی ترازو ہے۔ تمام اچھے اور برے اعمال اس میں تولے جائیں گے۔ یہ ترازو دنیا کے ترازو سے مختلف ہوگا۔ اِس کا نیکیوں والا پلڑا اوپر ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:دوزخ کے بارے میں کچھ بتائیں کہ یہ کیا ہے اس میں کیا ہوگا؟ حسیب، لاہور جواب:دوزخ ہولناک جگہ ہے۔ اِس کی مشکلات کا ہم اندازہ نہیں کر سکتے۔ اِس کے شعلے بڑے بڑے پہاڑوں کے برابر ہوں گے۔ اِس کی گہرائی کا اندازہ بھی نا ممکن ہے۔ احادیث میں کہا گیا ہے کہ اگر ایک پتھر اِس میں پھینکا جائے تو اسے دوزخ کی تہہ تک پہنچنے میں سترسال سے زیادہ وقت لگے۔ پیاسے گنہ گاروں کو ابلتا ہوا تیل پلایا جائے گا۔ دوزخ میں لوگوں کے اپنے دنیاوی اعمال کے مطابق مختلف درجات ہوں گے۔ صرف کافر ہی اس میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔ مسلمان گنہ گار آخر کار جنت میں آ جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:رسول اللہۖ نے جب مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تو اہل مدینہ کا رویہ کیاتھا۔ کیا انہوں نے رسول اللہ ۖ کے آنے کو اچھا سمجھا یا آپ کاآنا ان پر ناگوار گزرا؟ مطیع الرحمان، فیصل آبادجواب: اس سلسلہ میں ایک حدیث مبارک فی الوقت ملاحظہ فرمائیں جس سے آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا، حدیث یہ ہے: صحیح مسلم کتاب الزھد والرقائق، باب فی حدیث الہجرة ، جلد: 2، حدیث: 5329 اور مسند ابویعلیٰ میں ہے کہ ہجرت مدینہ کے موقع پر جب حضور نبی اکرمۖ مدینہ منورہ تشریف لائے تو:ترجمہ: ''مرد اور عورتیں چھتوں پر چڑھ گئے اور لڑکے اور خدام راستوں میں پھیل گئے اور وہ یامحمد! یارسول اللہ! پکار رہے تھے۔''یہ حدیث مسند ابویعلیٰ، جز:1، صفحہ: 107 پر بھی موجود ہے، جس کا نمبر 116 ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:1۔ پاکستان کے پوش علاقوں میں مشینوں سے ذبح کیا ہوا گوشت دستیاب ہے، جس پر تکبیر بھی نہیں پڑھی جاتی۔ کیا یہ گوشت حلال ہے؟2۔ کمپنی کا موقف یہ ہے کہ وہ چھری جو جانور ذبح کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے اس پر تکبیر لکھی ہوتی ہے۔ بتایا جائے کہ کیا چھری پر لکھی ہوئی تکبیر زبان سے کہنے کے برابر ہو جاتی ہے؟3۔ بعض اوقات جانور ذبح کرتے وقت گردن مکمل کٹ جاتی ہے۔ اس کا حکم کیا ہے؟4۔ جس جانور پر بوقت ذبح تکبیر نہیں پڑھی گئی اس کا گوشت لاعلمی میں کھانے والوں پر کوئی مواخذہ ہے یا نہیں۔5۔ اور جان بوجھ کر ایسا گوشت مسلمانوں کو کھلانے والوں کے ساتھ آخرت میں کیا معاملہ ہوگا؟جواب:1۔ اللہ رب العالمین قرآن مجید پارہ نمبر 8سورہ انعام آیت نمبر 121میں فرماتے ہیں:''ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللّٰہ علیہ وانہ لفسق۔''ترجمہ: ''اور مت کھاؤ اس جانور سے جس پر اللہ کا نام (بوقت ذبح)نہیں لیا گیا اور اس کا کھانا حکم عدولی ہے۔''لہذا ایسا جانور جسے ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر تکبیر نہیں پڑھی گئی وہ حرام ہے۔ چنانچہ ''اصول الشاشی'' میں اس آیت کے تحت صفحہ نمبر 8 پر ہے:''انہ یوجب حرمة متروک التسمےة عامدا۔''ترجمہ: ''جس جانور کو ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑی جائے یہ آیت اسکی حرمت کو واجب کرتی ہے۔''اور تفسیر ابن کثیر میں حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عمر، اور حضرت سعید بن مصیب رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے، اور فتاویٰ عالمگیری اور ھدایہ میں ہے:''وان ترک الذابح التسمےة عمدا فالذبیحة میتة لا یوکل۔''ترجمہ: ''اور اگر ذبح کرنے والے نے جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھی تو یہ جانور مردار ہوگا اور اسے نہیں کھایا جائے گا۔''لہذا درج بالا صورت میں گوشت حلال نہیں ہوگا بلکہ حرام رہے گا۔لیکن اگر مسلمان نے بھول کر بسم اللہ چھوڑ دی تو اسے کھانا جائز ہے۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عمر، اور حضرت سعید بن مصیب رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے، اور فتاویٰ عالمگیری اور ھدایہ میں ہے:''وان ترکھا ناسیا اکل۔''ترجمہ: ''اور اگر مسلمان نے بھول کر بسم اللہ چھوڑ دی تو اسے کھانا جائز ہے۔''اسکی ایک وجہ یہ حدیث پاک ہے جو سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق صفحہ نمبر 659پر ہے:''ان اللّٰہ وضع عن امتی الخطاء والنسیان وما استکرھوا علیہ۔''ترجمہ: ''اللہ نے میری امت سے خطا (کرنا کچھ اور تھا ہو کچھ اور گیا)، نسیان (بھول جانا)اور جس غلطی پر مجبور کردیا جائے (یعنی جان جانے یا عضو کے تلف ہوجانے کا خوف ہو)معاف فرمادی ہیں''مثال یوں سمجھئے کہ روزہ کے دوران اگر جان بوجھ کر کھا یا پی لیا جائے تو روزہ ختم ہوجاتا ہے اور اگر بھول کر کھایا یا پیا تو روزہ ختم نہیں ہوتا۔اس طرح ذبح میں بھی اگر جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑی جارہی ہے تو یہ جانور حرام ہوگا اور اگر مسلمان نے بھول کر بسم اللہ نہیں پڑھی تو اسے کھانا جائز ہوگا۔2۔ کمپنی کا یہ کہنا کہ چھری پر تکبیر لکھی ہوتی ہے اس لئے زبان سے تکبیر نہیں کہی جاتی یہ سرا سر غلط ہے۔ ذبح کرتے وقت زبان سے تکبیر کہنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید پارہ نمبر 17سورہ حج آیت نمبر 36میں ارشاد فرماتے ہیں:''فاذکروا اسم اللّٰہ علیہا۔''ترجمہ: ''تو ان پر اللہ کا نام لو۔''لہذا ذبح کرتے وقت زبان سے اللہ تعالیٰ کا نام لینا ضروری ہے۔3۔ ذبح کرنا کا طریقہ یہ ہے کہ جانور پر تکبیر کہہ کر حلق اور سینہ کے بالائی حصہ کے درمیان سے چار مخصوص رگوں کو کسی تیز دھار چیز سے کاٹ دیا جائے تاکہ بہنے والا خون نکل جائے۔ لیکن اگر ذبح کرتے وقت پوری گردن کٹ گئی تو یہ اسلام میں مکروہ یعنی ناپسند ہے۔ لیکن ایسے جانور کو کھانا حرام نہیں جبکہ اس پر بوقت ذبح تکبیر پڑھی گئی ہو۔4۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ آج کے دور میں گوشت خریدتے وقت مکمل تسلی کرے۔ بہرحال اگر لاعلمی میں ایسا گوشت کھالیا جس پر جان بوجھ کر تکبیر نہیں پڑھی گئی تو اس کا تمام گناہ دھوکا دہی اور غلط بیانی کرنے والوں پر ہے۔ دھوکا دہی کا شکار ہونے والوں پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:''یخدعون اللّٰہ والذین امنوا۔۔۔لھم عذاب الیم بما کانوا یکذبون۔''ترجمہ :'' وہ دھوکہ دیتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو ۔۔۔ ان کیلئے درد ناک عذاب ہے کیونکہ وہ کذب بیانی کرتے ہیں۔''5۔ پانچویں سوال کا جواب اس آیت پاک میں ہے:''وَمَنْ ےُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَےَّنَ لَہ الْھُدٰی وَےَتَّبِعْ غَےْرَ سَبِےْلِ الْمُؤمِنِےْنَ نُوَلِّہ مَا تَوَلیّٰ وَنُصْلِہ جَھَنَّمَ ط وَسَآئَ تْ مَصِےْرًا۔''ترجمہ: ''اور جو شخص راہ حق واضح ہونے کے بعدرسول اللہۖ کے طریقے کی مخالفت کرے ، اور طریقۂ مؤمنین کے علاوہ کسی اور راستے کی پیروی کرے، تو ہم اسے پھرنے دیں گے جدھر وہ پھرے۔ اور (آخر کار) اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور نہایت بُرا ہے وہ ٹھکانا۔''۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:حفاظت کیلئے کوئی خصوصی وظیفہ بتائیں؟ نعمت اللہ، حیدر آبادجواب:مشکوٰة المصابیح شریف صفحہ: 177 پر حدیث مبار ہے کہ''ایک مرتبہ حضورۖ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صدقہ فطر کی حفاظت کیلئے مقرر کیا، حضرت ابو ہریرہ رات بھر اس مال کی حفاظت فرماتے، ایک رات ایک چور آیا اور مال چرانے لگا، حضرت ابو ہریرہ نے اسے دیکھ لیا اور اسے پکڑ لیا اور فرمایا میں تجھے حضور ۖکی خدمت میں پیش کروںگا۔ اس چور نے منت سماجت کرنا شروع کی اور کہا: خدارا مجھے چھوڑ دو میں صاحبِ عیال اور محتاج ہوں۔ حضرت ابو ہریرہ کو رحم آگیا اور اسے چھوڑ دیا۔ صبح جب وہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضور نے مسکرا کر فرمایا:ابو ہریرہ! رات والے تمہارے قیدی(چور) نے کیا کیا؟حضرت ابوہریرہ نے عرض کیا: حضور! اس نے اپنی عیال داری اور محتاجی بیان کی تو مجھے اس پر رحم آگیا اور میں نے چھوڑ دیا۔ حضورۖ نے فرمایا اس نے تم سے جھوٹ بولا۔ خبردار رہنا آج رات وہ پھر آئے گا۔حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں دوسری رات بھی اس کی انتظار میں رہا کیا دیکھتا ہوں کہ وہ واقعی پھر آپہنچا اور مال چرانے لگا، میں نے پھر اسے پکڑ لیا۔ اس نے پھر منت کی اور مجھے پھر رحم آگیا اور میں نے پھر اسے چھوڑ دیا۔ صبح جب حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو حضور نے پھر فرمایا:ابو ہریرہ وہ رات والے قیدی (چور)نے کیا کیا؟میں نے پھر عرض کیا کہ حضور! وہ اپنی حاجت بیان کرنے لگا تو مجھے اس پر رحم آگیا اور میں نے پھر چھو ڑ دیا۔حضورۖ نے فرمایا:اس نے تم سے جھوٹ کہا خبردار! آج وہ پھر آئیگا۔تیسری رات وہ پھر آیا اور حضرت ابوہریرہ نے اسے پکڑ کر کہا: کم بخت آج نہ چھوڑوں گا اور حضور کے پاس ضرور لے کر جاوں گا۔ وہ بولا: ابو ہریرہ! میں تجھے چند ایسے کلما ت سکھا جاتا ہوں جن کو پڑھنے سے تو نفع میں رہے گا، سنو! جب سونے لگو تو ''آیت الکرسی'' (تیسرے سپارے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 255) پڑھ کر سویا کرو اس سے اللہ تمہاری حفاظت فرمائے گا اور شیطان تمہارے نزدیک نہیں آسکے گا۔ابوہریرہ کہتے ہیںوہ مجھے یہ کلمات سکھا کر پھر مجھ سے رہائی پا گیا اور میں نے جب صبح حضور کی بارگاہ میں یہ سارا قصہ بیان کیا تو حضور نے فرمایا:اس نے یہ بات سچ کہی ہے حالانکہ خود وہ بڑا جھوٹا ہے۔ کیا تو جانتا ہے اے ابو ہریرہ کہ وہ تین رات آنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نہیںجانتا! فرمایا: وہ شیطان تھا۔''آپ بھی سوتے وقت 3یا 5یا 7مرتبہ آیت الکرسی پڑھ کر اپنے چھے جانبوں میں پونکھ مار لیا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:حیض کی تعریف کیا ہے؟ قاریہ ، فیصل آباد جواب:بالغہ عورت کے آگے کے مقام سے جو خون عادی طور پر نکلتا ہے نہ کہ بیماری یا بچے کی وجہ سے وہ حیض کہلاتا ہے۔ اور بیماری یا زخم کی وجہ سے ہو تو اسے استحاضہ کہتے ہیں اور بچہ ہونے کے بعد نکلنے والے خون کو نفاس کہا جاتا ہے۔حیض کی کم از کم مدت تین دن تین راتیں ہیں۔ یعنی پورے بہتر گھنٹے۔ اور زیادہ سے زیادہ دس دن دس راتیں اس کی مدت ہے۔ بہتر گھنٹے سے پہلے ختم ہوجائے تو حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے۔ اسی طرح اگر دس رات دن سے کچھ زیادہ خون آئے تو اگر یہ حیض پہلی مرتبہ اسے آیا ہے تو دس دن تک حیض ہے اور باقی بعد کا استحاضہ شمار ہوگا۔ اور اگر پہلے اسے حیض آچکے ہیں اور عادت دس دن سے کم کی تھی تو عادت سے جتنا زیادہ ہو وہ استحاضہ ہے۔یا یوں سمجھئے کہ پانچ دن کی عادت تھی اب آیا دس دن تو تمام حیض ہے اور اگر بارہ دن آیا تو پانچ دن حیض کے باقی سات دن استحاضہ کے ہیں۔ اور اگر ایک حالت مقرر نہ تھی بلکہ کبھی چار دن آیا کبھی پانچ دن آیا تو پچھلے بار جتنے دن آیا اتنے ہی دن حیض کے سمجھے جائیں باقی استحاضہ کے ہیں۔یاد رہے کہ یہ ضروری نہیں کہ مدت میں ہر وقت خون جاری رہے بلکہ اگر بعض وقت آئے جب بھی حیض ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:حیض ونفاس کا شرعی حکم کیا ہے؟جواب:حیض و نفاس کا حکم یہ ہے کہ اس حالت میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا حرام ہے۔ ان دنوں میں نمازیں معاف ہیں۔ ان کی قضا بھی نہیں۔ البتہ روزوں کی قضا بعد میں کرنا فرض ہے۔ہاں! نماز کے وقت میں وضو کرکے اتنی دیر تک ذکر الٰہی درود شریف اور دوسرے وظیفے (جو قرآنی آیات پر مشتمل نہ ہوں)پڑھ لیا کرے جتنی دیر نماز پڑھا کرتی تھی تاکہ عادت رہے۔ لیکن حیض و نفاس کی حالت میں عورت کیلئے اور جنابت کی حالت میں مرد کیلئے قرآن مجید پڑھنا دیکھ کر ہو یا زبانی اور اس کا چھونا یہ سب حرام ہیں۔ اور یہی حکم اس کاغذ کا ہے جس پر آیت قرآنی لکھی ہوئی ہو۔ اور اگر قرآن مجید جزدان میں ہو یا کپڑے وغیرہ سے پکڑ لیا تو اس میں حرج نہیں۔نیز اس حالت میں جماع حرام ہے البتہ لیٹنا بیٹھنا ساتھ کھانا پینا اور چھونا میاں بیوی کیلئے اسلام میں جائز ہے۔ جبکہ یہودی اسے بھی ناجائز سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:حالت حیض ونفاس میں وظائف اور کلمہ شریف پڑھنا کیسا ہے؟جواب:قرآن مجید کے علاوہ دیگر اذکار، کلمہ شریف، درود شریف وغیرہ پڑھنا بلاکراہت جائز ہے۔ لیکن اچھا یہ ہے کہ وضو یا کلی کرکے پڑھے۔ اور اگر ویسے بھی پڑھ لئے تو حرج نہیں۔ نیز ان کے چھونے میں بھی حرج نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:آپ نے بتایا تھا کہ حیض ونفاس کے علاوہ بیماری یا زخم کی وجہ سے عورت کے آگے کے مقام سے خون آئے تو اسے استحاضہ کہتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ استحاضہ کا کیا حکم ہے؟جواب:استحاضہ میں نہ نماز معاف ہے نہ روزہ اور ایسی حالت میں بیوی سے جماع بھی کیا جاسکتا ہے یعنی جماع حرام نہیں۔استحاضہ اگر اس حد تک پہنچ گیا کہ اتنے مہلت نہیں ملتی کہ وضو کرکے فرض نماز ادا کرسکے تو نماز کا پورا ایک وقت شروع سے آخر تک اسی حالت میں گزر جانے پر اس کو معذور کہا جائے گا۔ اسی طرح ہر وہ شخص بھی معزور قرار دیا جائے گا جسے ایسی بیماری ہو کہ ایک نماز کے پورے وقت میں وہ اتنی دیر کیلئے بھی پاک نہیں ہوسکتا کہ وہ وضو کرکے صرف فرض نماز ہی ادا کر سکے تو ایسے ہر شخص کو شریعت معذور قرار دیتی ہے۔ اور جب تک وہ ایک نماز کا پورا وقت تندرستی سے گزار نہیں لیتا وہ شرعا معذور ہی متصور ہوگا۔معذور اور استحا ضہ والی کیلئے شرعی حکم یہ ہے کہ وہ نماز کا وقت شروع ہونے پر وضو کرے اور اس پورے وقت میں نوافل، سنت، فرائض اور دیگر عبادات میں سے جو چاہے کرے، اور وقت ختم ہونے کے ساتھ ہی اس کا وضو بھی ختم ہوجائے گا اور اگلے وقت کے لئے دوبارہ وضو کرنا پڑے گا۔ لیکن اس وقت میں بیماری کے علاوہ اگر کوئی اور سبب نواقضِ وضو میں سے پایا گیا تو وضو جاتا رہے گا۔اور اگر حالت استحاضہ میں کپڑا وغیرہ رکھ کر اتنی دیر کیلئے خون روکا جاسکے کہ وضو کرکے نماز پڑھی جا سکتی ہو تو یہ شرعا معذوری شمار نہیں ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزاوں کا مقصد کیا ہے؟ بلقیس، راہوالیجواب:اللہ تعالیٰ نے ہماری بہتری کیلئے کچھ حدیں مقرر کی ہیں، ان سے تجاوز کرنا ممنوع ہے۔ لیکن جب کوئی ان سے تجاوز کر جاتا ہے تو اس کیلئے رب العالین نے سزائیں مقرر کردی ہیں۔ تاکہ سزاؤں کے خوف کی وجہ کوئی یہ جرم ن کرے۔ان حدود (یعنی سزاؤں)کو نافذ کرتے وقت احتیاط سے کام لینا شرعی حکم ہے۔ یہ سزائیں ظلم یا زیادتی نہیں بلکہ ہمارے مال وجان وعزت کی محافظ ہیں اور ہمیں دینی دنیاوی اور طبّی طور پر نقصانات سے بچاتی ہیں۔ جیسا کہ رب العالین نے قرآن مجید پارہ نمبر 2 سورہ بقرہ کی آیت نمبر 179میں قصاص کے متعلق فرمایا ''اور قصاص میں تمہاری زندگی ہے اے عقلمندو! تاکہ تم بچو۔'' اور سنن ابن ماجہ اور سنن نسائی میں بروایت حضرت عبد اللہ بن عمر وحضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہم) ایک حدیث مبارک ہے کہ ''اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں میں سے ایک سزا جاری کرنا، ( سخت ضرورت کے وقت) کئی رات کی بارش سے بہتر ہے۔ کیونکہ ایک حد کے نفاذ سے خوف پیدا ہوجاتا ہے اور کئی لوگ اس خوف کی وجہ سے گناہ نہیں کر پاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:لڑکے اور لڑکی کیلئے بالغ ہونے کی کم از کم مدت کیا ہے؟ بلقیس، راہوالی جواب:لڑکے کے بالغ ہونے کی کم از کم عمر 12سلم ہے جبکہ لڑکی کے بالغ ہونے کی کم سے کم عمر نو سال ہے۔ فتاویٰ ہندیہ المعروف فتاویٰ عالمگیری (جسے پانچ سو علماء امت نے مرتب کیا ہے ) کی کتاب الحجر، الفصل الثانی، صفحہ نمبر 61، طبع دار الفکر بیروت میں ہے کہترجمہ: ''اور احتلام وغیرہ کے ساتھ بالغ ہونے کی کم از کم مدت لڑکے کے حق میں 12سال ہے اور لڑکی کے حق میں ) 9سال ہے۔''تو واضح ہوا کہ لڑکا 12سال کے بعد کسی بھی وقت بالغ ہوسکتا ہے جبکہ لڑکی 9سال کے بعد کسی بھی وقت بالغ ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:نکاح کیوں کیا جاتا ہے؟ وکی، پرنس سٹریٹ سلوجواب: چونکہ آدمی کی نسل کا باقی رہنا نکاح پر موقف ہے اور آدمی کی طبعی خواہش بھی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے نکاح کرنے کا حکم دیا اور اس کے احکام قرآن میں بیان فرمائے اور رسول اللہۖ نے نکاح کی ترغیب دی اور اس کے فائدے وقاعدے ارشاد فرمائے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ حدیث کی کتابوں میں لکھاہے کہ نبیۖ نے فرمایا ہے:اے جوانو تم میں جو نکاح کرسکتا ہے وہ نکاح کرے کہ نکاح بری نظر اور برے کام سے روکنے والا ہے اور جس سے نہ ہوسکے وہ روزہ رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔ایک اور حدیث میں فرمایا:جو خدا سے پاک و صاف ہوکر ملنا چاہتا ہے۔ وہ آزاد عورتوں سے نکاح کرے اور فرمایا جو میرے طریقہ کو دوست رکھے وہ میری سنت پر چلے اور میری سنت سے نکاح ہے۔ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے اچھی پونجی نیک عورت ہے۔ اور فرمایا جو اتنا مال رکھتا ہے کہ نکاح کر سکے پھر بلاوجہ نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال:کیا رسول اللہ ۖ اپنی وفا ت کے بعد یعنی اب بھی رحمت للعالمین ہیں؟ ایک قاریجواب:جی ہاں! رسول اللہ ۖ تمام کائنات کیلئے اب بھی بلکہ ہمیشہ ہی رحمت ہیں۔ اس سلسلہ میں فی الوقت ایک حدیث مبارک ملاحظہ فرمائیں جو ''مجمع الزوائد'' اور ''بحر الزخائر'' میں ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ''میری وفات بھی تمہارے لئے بہتر ہے، مجھ پر تمہارے اعمال پیش کئے جائیں گے، پس میں اچھے اعمال پر اللہ کی حمد بیان کروں گا اور برے اعمال پر تمہارے لئے مغفرت کی دعا کروں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)

No comments:
Post a Comment