| علی علیہ السلام | ||||||||||||||||
| ||||||||||||||||
حضرت علی کرم اللہ وجہہ پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال تھی۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ '' 599 661 ''رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام ابوطالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اور وہیں پرورش پائی ۔ پیغمبر کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال تھی۔ فاطمہ علیہ ا السلام اور علی کرم اللہ وجہہ کی زندگی گھریلو زندگی کا ایک بے مثال نمونہ تھی مرد اور عورت آپس میں کس طرح ایک دوسرے کے شریک حیات ثابت ہوسکتے ہیں۔ آپس میں کس طرح تقسیم عمل ہونا چاہیے اور کیوںکر دونوں کی زندگی ایک دوسے کے لیے مددگار ہوسکتی ہے۔ وہ گھر دنیا کی آرائشوں سے دور ، راحت طلبی اور تن اسانی سے بالکل علیحدہ تھا۔ محنت اور مشقت کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان اور آپس کی محبت واعتماد کے لحاظ سے ایک جنت بناہوا تھا، جہاں سے علی کرم اللہ وجہہ صبح کو مشکیزہ لے کر جاتے تھے اور یہودیوں کے باغ میں پانی دیتے تھے او جو کچھ مزدوری ملتی تھی اسے لا کر گھر پر آتے تھے۔ بازار سے جو خرید کر فاطمہ علیہا السلام کو دیتے تھے اور فاطمہ چکی پیستی، کھانا پکاتی او رگھر میں جھاڑودیتی تھیں، فرصت کے اوقات میں چرخہ چلاتی تھیں اور خود اپنے اور اپنے گھر والوں کو لباس کے لیے اور کبھی مزدوری کے طور پر سوت کاتتی تھیں اور اس طرح گھر میں رہ کر زندگی کی مہم میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔ جہاد مدینہ میں آکر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مخالف گروہ نے آرام سے بیٹھنے نہ دیا۔ آپ کے وہ پیرو جو مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں بعض کو قتل کیا۔ بعض کو قید کیا اور بعض کو زد وکوب کیا اور تکلیفیں پہنچائیں۔ یہی نہیں بلکہ اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑھائی کردی ، اس موقع پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کرتے، جنھوں نے آپ کوانتہائی ناگوار حالات میں پنا ہ دی تھی اور آپ کی نصرت وامداد کاوعدہ کیا تھا، آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا ۔ آپ شہر کے اندر رہ کر مقابلہ کریں اور دشمن کو یہ موقع دیں کہ وہ مدینہ کی پر امن آبادی اور عورتوں اور بچوں کو بھی پریشان کرسکے۔ گو آپ کے ساتھ تعداد بہت کم تھی لیکن صرف تین سو تیرہ آدمی تھے۔ ہتھیار بھی نہ تھے مگر آپ نے یہ طے کرلیا کہ آپ باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کریں گے چنانچہ پہلی لڑائی اسلام کی ہوئی۔ جو غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے۔ اس لڑائی میں زیادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عزیزوں کو خطرے میں ڈالا چنانچہ آپ کے چچا زاد بھائی عبیدہ ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوئے۔ علی علیہ السلام ابن ابو طالب کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ 25 برس کی عمر تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا علی علیہ السلام کے سر رہا۔ جتنے مشرکین قتل ہوئے تھے ان میں سے آدھے مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اس کے بعد غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین یہ وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں علی علیہ السلام نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے۔ تقریبا ان تمام لڑائیوں میں علی علیہ السلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا۔ اس کے علاوہ بہت سی لڑائیاں ایسی تھیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کو تنہا بھیجا اور انھوں نے اکیلے ان تمام لڑائیوں میں حضرت علی علیہ السلام نے بڑی بہادری اور ثابت قدمی دکھائی اور انتہائی استقلال، تحمل اور شرافت نفس سے کام لیا جس کا اقرار خود ان کے دشمن بھی کرتے تھے۔ غزوہ خندق میں دشمن کے سب سے بڑے سورما عمر وبن عبدود کو جب آپ نے مغلوب کر لیا اور اس کا سر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر بیٹھے تو اس نے آپ علیہ السلام کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیا۔ آپ کو غصہ آگیا اور آپ اس کے سینے پر سے اتر ائے ۔ صرف اس خیال سے کہ اگر غصے میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل محض خدا کی راہ میں نہ ہوگا بلکہ خواہش نفس کے مطابق ہوگا۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے اس کو قتل کیا ۔ اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش برہنہ کردیتے تھے مگر حضرت علی علیہ السلام نے اس کی زرہ نہیں اتاری اگرچہ وہ بہت قیمتی تھی۔ چناچہ اس کی بہن جب اپنے بھائی کی لاش پر آئی تو اس نے کہا کہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی مگر مجھ یہ دیکھ کر صبر آگیا کہ اس کا قاتل علی علیہ السلام سا شریف انسان ہے۔ جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یا بچوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نہیں کیا۔ خدمات علاوہ جہاد کے اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے کسی کام کے کرنے میں آپ کو انکار نہ تھا۔ یہ کام مختلف طرح کے تھے رسول کی طرف سے عہد ناموں کا لکھنا، خطوط تحریر کرنا آپ کے ذمہ تھا اور لکھے ہوئے اجزائے قرآن کے امانتدار بھی آپ تھے۔ اس کے علاوہ یمن کی جانب تبلیغ اسلام کے لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو روانہ کیا جس میں آپ کی کامیاب تبلیغ کا اثر یہ تھا کہ سارا یمن مسلمان ہو گیا جب سورہ برات نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ کے لیے بحکم خدا آپ ہی مقرر ہوئے اور آپ نے جا کر مشرکین کو سورئہ برات کی آیتیں سنائیں۔ اس کے علاوہ رسالت مآب کی ہر خدمت انجام دینے پر تیار رہتے تھے۔ یہاں تک کہ یہ بھی دیکھا گیا کہ رسول کی جوتیاں اپنے ہاتھ سے سی رہے ہیں علی علیہ السلام اسے اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔ اعزاز حضرت علی علیہ السلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ علی علیہ السلام مجھ سے ہیں اور میں علی علیہ السلام سے ہوں۔ کبھی یہ کہا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے .,, کبھی یہ کہا تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے۔ کبھی یہ کہا علی علیہ السلام کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسی علیہ السلام سے تھی۔ کبھی یہ کہا علی علیہ السلام مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔ کبھی یہ کہا وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ,, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السلام کو نفسِ رسول کاخطاب ملا۔ عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا۔ جب مہاجرین وانصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو علی علیہ السلام کو پیغمبر نے اپنا دنیا وآخرت میں بھائی قرار دیا اور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح کا سرپرست اورحاکم ہوں اسی طرح علی علیہ السلام سب کے سرپرست اور حاکم میں ہوں اسی طرح علی سب کے سرپرست اور حاکم ہیں یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے علی علیہ السلام کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہے۔ بعد رسول جس نے زندگی بھر پیغمبر کا ساتھ دیا وہ بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی لاش کو کس طرح چھوڑتا, چنانچہ رسول کی تجہیز وتکفین اور غسل وکفن کا تمام کام علی علیہ السلام ہی کے ہاتھوں ہوا اورقبر میں آپ ہی نے رسول کو اتارا, رسول کے دفن سے فرصت ہونے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اتنی دیر میں پیغمبر کی جانشینی کا انتظام ہوگیا ہے۔ اگر کوئی دوسرا انسان ہوتا تو جنگ آزمائی پر تیار ہوجاتا مگر علی علیہ السلام کو اسلامی مفاد اتنا عزیز تھا کہ آپ نے اپنے حقوق کے اعلان کے باوجود اپنی طرف سے مسلمانوں میں خانہ جنگی پیدا نہیں ہونے دی ، نہ صرف یہ کہ آپ نے معرکہ آرائی نہیں چاہی بلکہ جس وقت ضرورت پڑی، اس وقت اسلامی مفاد کی خاطر آپ نے امداد دینے سے دریغ بھی نہیں کیا ۔ مشکل مسائل کے فیصلہ اور ضروری مشورہ لیے جانے پر اپنی مفید رائے کا اظہار کیا ا س سے کبھی پہلو نہیں بچایا ۔ اس کے علاوہ بطور خود خاموشی کے ساتھ اسلام کی روحانی اور علمی خدمت میں مصروف رہے۔ قرآن کو ترتیب نزول کے مطابق ناسخ ومنسوخ اور محکم اور متشابہ کی تشریح کے ساتھ مرتب کیا۔ مسلمانوں کے علمی طبقے میں تصنیف وتالیف کا اور علمی تحقیق کاذوق پیدا کیا اور خود بھی تفسیر اور کلام اور فقہ واحکام کے بارے میں ایک مفید علمی ذخیرہ فراہم کیا۔ بہت سے ایسے شاگرد تیار کئے جو مسلمانوں کی آئندہ علمی زندگی کیلئے معمار کاکام انجام دے سکیں، زبان عربی کی حفاظت کیلئے علم نحوکی داغ بیل ڈالی اور فن صرف اور معانی بیان کے اصول کو بھی بیان کیا اس طرح یہ سبق دیا کہ اگر ہوائے زمانہ مخالف بھی ہوا اور اقتدار نہ بھی تسلیم کیا جائے تو انسان کو گوشہ نشینی اور کسمپرسی میں بھی اپنے فرائض کو فراموش نہ کرنا چاہیے۔ ذاتی اعزاز اور منصب کی خاطر مفاد ملی کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو انسان اپنی ملت، قوم اور مذہب کی خدمت ہر حال میں کرتا رہے۔ خلافت پچیس برس تک رسول کے بعد علی علیہ السلام نے خانہ نشینی میں بسر کی 35ھ میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کامنصب علی علیہ السلام کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے پہلے انکار کیا، لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھ گیا تو آپ نے اس شرط سے منظورکیا کہ میں بالکل قرآن اور سنت پیغمبر کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا۔ مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کیا اور آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی۔ مگر زمانہ آپ کی خالص مذہبی سلطنت کو برداشت نہ کرسکا ، آپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہوگئے جنھیں آپ کی مذہبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ہونے کا خطرہ تھا، آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنا اپنا فرض سمجھا اور جمل اور صفین اور نہروان کی خون ریز لڑائیاں ہوئیں۔ جن میں علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام نے اسی شجاعت اور بہادری سے جنگ کی جو بدر واحد و خندق وخیبر میں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی .ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے آپ کو موقع نہ مل سکا کہ آپ جیسا دل چاہتا تھا اس طرح اصلاح فرمائیں۔ پھر بھی آپ نے اس مختصر مدت میں اسلام کی سادہ زندگی , مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت ومزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردئے آپ شہنشاہ اسلام ہونے کے باوجود کجھوروںکی دکان پر بیٹھنا اور اپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنا برا نہیں سمجھتے تھے , پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے , غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھاناکھالیتے تھے ۔ جو روپیہ بیت المال میں آتا تھا اسے تمام مستحقین پر برابر سے تقسیم کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نے یہ چاہا کہ کچھ انہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ مل جائے مگر آپ نے انکار کردیا اور کہا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو خیر یہ بھی ہوسکتا تھا مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے۔ مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے کسی اپنے عزیز کو دوسروں سے زیادہ دوں ، انتہا ہے کہ اگر کبھی بیت المال میں شب کے وقت حساب وکتاب میں مصروف ہوئے اور کوئی ملاقات کے لیے آکر غیر متعلق باتیں کرنے لگا تو آپ نے چراغ بھجادیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہ ہونا چاہیے۔ آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں آئے وہ جلد حق داروں تک پہنچ جائے۔ آپ اسلامی خزانے میں مال کاجمع رکھنا پسند نہیں فرماتے تھے . شہادت علی علیہ السلام کو 19 رمضان 40ھ کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں فرزندوں امام حسن علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمھارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا۔ اگر میں اچھا ہو گیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میںدنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضرب لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پائوں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے، دو روز تک علی علیہ السلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی وفات ہوئی۔ حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام نے تجہیزو تکفین کی اور پشت کوفہ پر نجف کی سرزمین میں دفن کیے گئے۔ اولاد آپ کے بچوں کی تعداد 28 سے زیادہ تھی۔ مشھور اولادوں میں حسن علیہ السلام ، حسین علیہ السلام ، عباس علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا شامل ھیں۔
| ||||||||||||||||
Monday, October 19, 2009
علی علیہ السلام عباس بن علی ByMuhammadAmirSultanChishtiHashmi923016778069
Subscribe to:
Post Comments (Atom)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال تھی۔
حضرت عباس علیہ السلام امام علی علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ کا نام ام البنین تھا جن کا تعلق عرب کے ایک بہادر قبیلے سے تھا۔



No comments:
Post a Comment