Monday, October 19, 2009

صدام حسین ذوالفقار علی بھٹو ByMuhammadAmirSultanChishti923016778069


صدام حسین
صدام حسیننام
28/04/1937تاریخ پیداءش
30/12/2006تاریخ وفات
وجھ شھرت
سابق عراقی صدر
سابق عراقی صدر اور بعث پارٹی کے سربراہ جو بغداد کے شمال میں واقع شہر تکریت کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔


ابتدائی زندگی
بچپن کی تصویروالد کی جلد ہی وفات کے بعد ان کی والدہ انہیں اپنے رشتہ داروں کے پاس چھوڑ کر کسی اور گائوں چلیں گئیں۔ چند سال بعد انہوں نے دوسری شادی کر لی۔ سوتیلے والد کا صدام کے ساتھ برتائو اچھا نہ تھا۔ صدام حسین کے لئے زندگی مشکل تھی اور اسرائیلی مورخ امتازیہ بیرون بتاتے ہیں محلے کے بچے نو عمر صدام کا مذاق اڑاتے تھے۔

صدام حسین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس عرصے کے دوران وہ قدرے تنہا رہتے تھے اور آس پاس کے لڑکوں پر دھونس بھی جماتے تھے۔ بارہ برس کی عمر میں انہوں نے اپنا گھر چھوڑا اور تکریت میں اپنے ایک چچا کے ساتھ رہنے لگے۔ ان کے یہ چچا یوں تو استاد تھے لیکن تاریخ عراق پر کتاب ''دی ماڈرن ہسٹری آف عراق'' کی مصنفہ پیبی مار کہتی ہیں ان کا ماضی خاصہ دلچسپ تھا۔

سیاسی زندگی
اپنے لڑکپن میں صدام حسین حکومت مخالف مظاہروں میں خاصے سرگرم رہے۔ مگر عراقیوں کی طرح وہ برطانوی نو آبادیاتی حکومت اور امیر جاگیرداروں کے خلاف ہوتے گئے۔


صدام الباقر کے ساتھ1958 کے انقلاب میں عراق میں برطانیہ حامی بادشاہت کا خاتمہ کے بعد ملک میں پرتشدد بحرانی دور کا آغاز ہوا۔ لیکن صدام حسین کے لئے 60 کی دہائی اہم ترین ثابت ہوئی۔ عراقی بعث پارٹی کے رکن کی حیثیت سے صدام پارٹی کے ایک سینئر رہنما اور ان کے چچا کے قریبی رشتہ دار احمو حسن الباقر کے منظور نظر اور قریبی ساتھی بننے میں کامیاب ہو گئے۔

صدام اس وقت نہ کوئی افسر تھے اور نہ فوج کا حصہ لیکن مورخ کہتے ہیں کہ احمو حسن باقر کے لئے وہ خاصے مفید کام انجام دیا کرتے تھے۔ 1968 میں بعث پارٹی اقتدار میں آئی اور احموحسن الباقر ملک کے نئے صدر بن گئے۔ صدام حسین اسی دور میں احموحسن کے دست راست رہے حکومت کے اہم اور خفیہ کام وہ خود انجام دینے لگے جن میں مخالفین کو منظر عام سے ہٹانا بھی شامل تھا۔ ان مخالفین میں سے کچھ تو قتل کر دیئے گئے، کچھ جلا وطن اور کچھ کو چپ کرا دیا گیا۔

صدارت
صدر باقر نے عراقی تیل کی صنعت حکومتی کنٹرول میں لے لی عراقی خزانے پر دبائو بڑھنے لگا اور حکومت نے ملک میں ترقی کے نئے دور کا آغاز کیا دیہاتوں میں بجلی پہنچنے لگی سڑکیں اور اسکول بننے لگے۔ لیکن صدام حسین کے سیاسی عزائم بڑھنے لگے اور سن انیس سو اناسی میں انہوں نے اپنے محسن احمو آلباباقر سے زبردستی استعفی دلوا دیا اور خود صدر بن گئے۔ جلد ہی انہوں نے اپنی پارٹی کی انقلابی کونسل میں اپنے اور حکومت کے خلاف بغاوت کی سازش کا انکشاف کیا۔

صدام حسین اس سازش کو منظر عام پر لانے کے لئے صدام نے کونسل کے ارکان کا ایک اجلاس طلب کیا اس میں صدام حسین اسٹیج پر بیٹھے سگار پیتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ بغاوت میں ملوث افراد کے نام کی فہرست باآواز بلند پڑھی جاتی ہے اور جنہیں باری باری اجلاس سے باہر لے جا کر گرفتار کر لیا جاتا ہے یا ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ اس اجلاس کے شرکا جذباتی انداز میں باآوازِ بلند صدر صدام کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں۔

اس کے بعد بعث پارٹی کے حکومت پر صدر صدام کی شخصیت حاوی ہوتی گئی اور جیسا کہ مورخ پیبی مار نشاندہی کرتی ہیں اگر کوئی سیاسی نظریہ بچا تو وہ صدام ازم کا تھا۔

آنے والے برسوں میں صدام کے سیاسی عزائم عراق کی حدود سے واضع طور پر بڑھنے لگے۔ وہ خود کو عرب دنیا کا رہنما اور تاریخ میں اپنے آپ کو صلاح الدین ایوبی جیسے سپہ سالار کے برابر سمجھتے تھے کیونکہ صلاح الدین بھی تکریت میں پیدا ہوئے۔

ایران پر حملہ
صدر صدام کے جارحانہ عزائم کی پہلی مثال جلد ہی 1980 میں اس وقت سامنے آئی جب ان کی فوجوں نے ہمسایہ ملک ایران میں پیش قدمی کی۔ صدر صدام کی توقعات کے برعکس یہ جنگ انہیں بڑی مہنگی پڑی 8 برس جاری رہنے والی اس جنگ میں 10 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ جنگ کے نتیجہ میں عراق کے خزانے پر بڑا بوجھ ثابت ہوئی۔

کویت پر حملہ
صدر صدام نے ہمسایہ ممالک سے اقتصادی مدد مانگی۔ انہوں نے کویت پر عراقی تیل چوری کرنے کا الزام عائد کیا اور مطلوبہ معاوضہ نہ ملنے پر اگست 1990 میں عراقی فوجیں کویت میں داخل ہو گئیں۔ صدر صدام کو یہ فوجی اقدام بڑا مہنگا پڑا ان کو توقع تھی کہ بڑی طاقتیں جنہوں نے ایران کے خلاف ان کی جنگ میں عراق کا بھر پور ساتھ دیا، ہتھیار اور وسائل فراہم کئے اب اگر ان کھل کر حمایت نہ بھی کریں تو کم از کم مخالفت بھی نہیں کریں گی۔

عراق پر اتحادیوں کا پہلا حملہ
لیکن حالات بدل چکے تھے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے خلیج میں اپنے مفادات یعنی تیل اور اسرائیل کی حفاظت ہر قیمت پر ضروری تھی۔اور اسی لیے امریکی قیادت میں آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم کے تحت امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر جنگ مسلط کر دی۔

عراق پر امریکہ اور برطانیہ کا دوسرا حملہ
11 ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ مسلسل اس بات پر مصر رہا کہ عراق کے پاس وسیع تباہی کہ ہتھیار ہیں اور برطانیہ کا کہنا تھا کہ ان ہتھیاروں کو صرف 45منٹ میں قابلِ استعمال بنایا جا سکتا ہے اس کے علاوہ عراق پر جوہری ہتھیار بنانے اور حاصل کرنے کا الزام بھی لگا اس لیے عراق پر فروری 2003 میں امریکہ نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ لیکن عراق پر امریکی حملے اور قبضے کے بعد سے اب تک ان میں سے کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔

عراق امریکی اور برطانوی گٹھ جوڑ میں شامل ملکوں کو اگرچہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی حمایت حاصل نہیں تھی اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے امریکی برطانوی گٹھ جوڑ سے کیے جانے والے دعوئوں کی تائید بھی نہیں کی تھی تاہم اس گٹھ جوڑ سے حملہ کر دیا گیا اپریل میں سقوط بغداد کے بعد صدر صدام حسین روپوش ہوگئے۔

گرفتاری
صدام گرفتاری کے وقتاس قبضے کے بعد 22 جولائی 2003 کو معزول صدر صدام کے دونوں بیٹوں کو عودے اور قوصے حسین کو عراق کے شمالی شہر موصل میں حملہ کر کے قتل کر دیا گیا۔ 14 دسمبر 2003 سنیچر کی شب مقامی وقت کے مطابق شب 8 بجے عراق کے شہر تکریت کے قریب سے ایک کارروائی کے دوران گرفتار کیا گیا۔ جس کے بعد ان پر امریکہ کی نگرانی میں مقدمہ چلایا گیا جس نے 3 نومبر کو صدام حسین کو 148 کردوں کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی۔

سزائے موت
اس فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے 30 دسمبر 2006 بمطابق 10 ذوالحجہ 1427ھ (عید الاضحی کے دن) صدر صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی۔ انہیں عراق کی اعلی عدالت نے دجیل میں 1982 میں148 افراد کی ہلاکت کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ ان افراد کو صدام حسین پر قاتلانہ حملے کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد ہلاک کردیا گیا تھا۔

صدام حسین کے ساتھ ان کے سوتیلے بھائی اور انٹیلی جنس سروس کے سابق سربراہ برزان التکریت اورسابق چیف جسٹس کو بھی پھانسی دیدی گئی۔ صدام حسین پر کردوں کے خلاف نسل کشی، جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم جیسے سنگین الزامات بھی تھے۔ دجیل مقدمے میں 7 میں سے دو ملزمان برزان التکریت( انٹیلی جنس سروس کے سابق سربراہ) اور طحہ یاسین رمضان( سابق نائب صدر) معزول صدر کے قریبی ساتھی رہ چکے ہیں۔

5 دیگر ملزمان، سابق جج الوید حامد البندیر اور بعث پارٹی کے چار سابق عہدے دار عبداللہ خادم روئد، مظہر عبداللہ روئد، علی دعیم علی اور محمد ازاوی علی پر بھی دجیل ہلاکتوں کی ذمہ داری ڈالی گئی۔ جن میں سے دو کو موت جبکہ 4 کو قید کی سزا کا حکم سنایا گیا۔ ساتویں ملزم کو ناکافی شہادتوں کی بنا پر رہا کر دیا گیا۔

صدام حسین نے عدالت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے اسے امریکی قبضے کا ایک ہتھیار قرار دیا تھا۔ مقدمے کی کارروائی کے آغاز سے ہی صدام حسین کے وکیل نے عدالتی استحقاق کے بارے میں سوالات جاری رکھے۔ اس مقدمہ کے جج کو مقدمہ کی سماعت کے دوران ملزم سے ہمدردی رکھنے کے الزام اس وقت برطرف کر دیا گیا، جب مقدمہ اپنے آخری مراحل میں تھا، اور ایک نیا جج مقرر کیا گیا۔

مقدمے کی کاروائی کے دوران صدر صدام حسین امریکی قابض فوج کی تحویل میں رہے۔ آخری دنوں میں خبر دی گئی کہ انہیں پھانسی دینے کی غرض سے امریکی قابض افواج نے عراقی نژاد انتظامیہ کے حوالے کر دیا ہے۔ ان آخری دو ایام میں عراقی کٹھ پتلی انتظامیہ کے عہدے دار اس بارے متضاد بیانات دینے لگے کہ سزا پر کب عملدرآمد کیا جائے گا، وزیر انصاف نے کہا کہ قانون کی رو سے دن ضروری ہیں۔

صدام کے مقدمے کی سماعت کے دوران ان کے تین وکیلوں کو قتل کردیا گیا جس کے بعد ان کے مکلین نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور صدام حسین نے بھوک ہڑتال کی۔ عدالتی کارروائی کے اختتام سے قبل صدام نے عدالت کو لکھے گئے ایک خط میں کہا تھا کہ ان پر مقدمہ امریکی خواہشات کے مطابق چلایا جا رہا ہے۔

صدام حسین کے خلاف عدالتی کارروائی بغداد میں خصوصی ٹربیونل میں سخت حفاظتی انتظامات کے تحت چلائی گئی۔ اس دوران پانچ ججوں پر مشتمل ایک پینل عدالتی کارروائی کا جائزہ لیتا رہا۔ بہت سے بین الاقوامی مقدمات کی طرح، صدام پر مقدمہ ان کے اپنے ہی لوگوں کے ذریعے چلایا گیا۔ صدام حسین نے پھانسی کے سزا سننے کے بعد فائرنگ ا سکواڈ کے ذریعے موت کی درخواست کی تھی۔

انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے اس قانونی عمل کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا، جس میں جرم ثابت کرنے کے لئے شکوک وشبہات سے بالاتر اس معیار کو برقرار نہیں رکھا جاتا جو عالمی مقدمات کے لئے تصور کیا جاتا ہے۔

30 دسمبر 2006 صدر صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی۔ اس سے پہلے امریکی فوجیوں نے انھیں عراقی کٹھ پتلی انتظامیہ کے سپرد کیا۔ پھانسی کا منظرہ شبکہ پر جاری کیا گیا۔ اس میں دیکھا گیا کہ پھانسی دینے والے عراقی شیعہ رہنما مقتدہ صدر کے نعرے لگا رہے تھے۔ صدام حسین کلمہ شہادت پڑھ رہے تھے کہ تختہ گرا دیا گیا۔ عالمی مبصرین نے صدام حسین کے حوصلہ کی تعریف کی ہے۔





















ذوالفقار علی بھٹو
-
ذوالفقار علی بھٹونام
05/01/1928تاریخ پیداءش
04/04/1979تاریخ وفات
وجھ شھرت
بیسویں صدی کے عظیم انقلابی رہنما
ذوالفقار علی بھٹو نے 30 برس کی عمر میں پاکستان کے وزیرتجارت بن کر برصغیر کی تاریخ میں کم عمرترین وزیر بنے کا اعزاز حاصل کیا۔

بیسویں صدی کے عظیم انقلابی رہنما ذوالفقارعلی بھٹو 5 جنوری1928ء کو سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سر شاہنواز بھٹو ایک بڑے زمیندار اور زیرک سیاستدان تھے تاہم آپ کی والدہ کا تعلق غریب خاندان سے تھا۔ سر شاہنواز بھٹو ایک برطانوی امپریل کو نسل کے رکن تھے ان کا بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح سے بھی گہراتعلق تھا۔ سرشاہنواز ریاست جو نا گڑھ کے وزیراعظم بھی رہے۔ سر شاہنواز کے دوسرے بیٹے اور ذوالفقار علی کے بھائی سکندر بھٹو بھی تھے جو28 اکتوبر1962ء کو انتقال کر گئے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو لڑکپن سے ہی سیاست کی طرف مائل تھے۔ برطانوی حکومت کے خلاف جب Quit India اور راست اقدام تحریک چلی تو نوجوان علی بھٹو اس میں شامل تھے دوران تعلیم برکلے یونیورسٹی کیلفورنیا میں بھی آپ نو ا بادیا تی نظام کے خلاف سر گرم عمل رہے۔ وہیں سے آپ نے1950ء میں اعزاز کے ساتھ پولیٹکل سائنس میں گریجویشن کی۔ ایم اے انرز کی ڈگری جو رسپوڈنٹس میں اعزاز کے ساتھ کرائسٹ چرچ اکسفورڈ سے حاصل کی ۔ بیرسٹر ایٹ لاء کی ڈگری''لنکنزان'' سے لی۔ یہ وہ ادارے ہیں جہاں سے قائداعظم نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کچھ عرصہ سو تھہمٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے لیکچرار بھی رہے، وہ پہلے ایشیائی تھے جنہیں یہ اعزاز ملا۔ پاکستان واپسی کے بعد 1953ء میںآپ کراچی میں مستقبل ان کا منتظر تھا ، وہ صدر پاکستا ن سکندر مرزا کی نظروں میںآگئے اور ان کی خواہش پر اقوام متحدہ کے 12ویں اجلاس میں پاکستانی وفد کے ممبر کے طور پرشریک ہوئے ۔ اگلے برس 1958ء میں وہ اس وفد کے سربراہ تھے۔ 30 برس کی عمر میں آپ پاکستان کے وزیرتجارت بنے توبرصغیر کی تاریخ میں کم عمرترین وزیر بنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

دوسال کے بعد آپ نئی تخلیق پانے والے وزارت پٹرول ، قدرتی وسائل کے وزیر بنائے گئے۔1960ء میںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں آپ کو پاکستان کی ترجمانی کرنے کا جو اعز از حاصل ہوا، اسی کی بدولت آپ دنیا بھر میںممتاز مقام حاصل کرنے میںکامیاب ہوئے ۔

تین فروری 1963ء کو وزیر خارجہ کی حیثیت سے مسئلہ کشمیر پر بھر پور آواز بلند کی اور بھارت پر زور دار حملے کیے ۔ 1965ء کی جنگ کے بعد پید اہونے والی صورتحال نے آپ کو مایوس کیا روسیوں کی مصالحت او ر نگرانی میں ہونے والے معاہدے تاشقند پر مسٹر بھٹو نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور 1966ء میں وزیر خارجہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ آپ استعفیٰ کے بعد عملی سیاست میں آئے اور ایوب آمریت کو چیلنج کیا۔

30نومبر 1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی نام سے ایک جماعت بنا ئی جسے عوام نے بڑے پیمانے پر پذیرائی بخشی گلبرگ لاہور میںڈاکٹر مبشر حسن کی کوٹھی پر اس کا تاسیسی اجلاس ہوا جولوگ اس اجلا س میں شریک ہوئے ان میں نئے سیاسی ذہنوں کی اکثریت تھی ، زیادہ تر پر جوش طالب علم تھے۔ جو اہم لوگ شریک ہوئے، ان میں جے اے رحیم ، عبدالوحید کپٹر ، خورشید حسن میر ، شیخ محمد رشید ، حیات محمد ، شیر پاؤ ، امان اللہ ۔معراج محمد خانِ، حق نواز گنڈا پور ، ڈاکٹر مبشر حسن ، بیگم شاہین حنیف رامے، بیگم انور غالب ،ملک حامد سر فراز ، غازی ذکاء الدین ، کامریڈ غلام احمد ، رفیق جافوپ ۔ وغیرہ شامل تھے۔

تاسیس اجلاس میں جب اسلم گرداسپوری نے جاگیرداروں کے خلاف نظم پڑھی تو بھٹو صاحب کی طرف منہ کرکے ''معذرت کے ساتھ ''کہا جس پر بھٹو نے No معذرت '' کہہ کر ان کا حوصلہ بڑھایا اور یوں پیپلز پارٹی کا انقلابی سفر آگے کی جانب بڑھنے لگا ۔ 1970ء کے انتخابات میں بھٹو کی پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میںفقید المثال کا میابی حاصل کی اور 81 نشستیں جیت لیں۔

16دسمبر 1970ء لو ریس کورس گرائونڈ ڈھاکہ میں جنرل نیازی کی زیر کمانڈ فوج نے ہتھیار ڈالے تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور مسٹر بھٹو کوگرفتار کر لیا گیا ۔ کچھ عرصہ بعد رہا ہوئے مگر فوراً ہی ایک مقدمہ قتل میںدوبارہ حراست میں لے لیے گئے ایک انتہائی جانبدار اور مشکوک ٹرائل کے بعد بھٹو سے ذاتی عناد رکھنے والے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق کی سر براہی میں ججوںکے پینل میںآپکو سزائے موت سنائی گئی جسے بعد میں سپریم کورٹ نے اکثریتی رائے یعنی 4۔3کے اختلافی فیصلے کی صورت میں برقرار رکھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی بہن نے جنرل ضیاء الحق سے رحم کی اپیل کی جسے مسترد کر دیا گیا ۔ چار اپریل 1979ء کو یہ عہد ساز سیاست دان زندگی کی بازی ہار گیا اور راوالپنڈی کی سینٹر جیل آپ کی مقتل گاہ قرار پائی۔ یہ جیل اپنی بد نصیبی پر آج بھی نوحہ گھر ہے ۔

بقول شاعر
جس دہج سے کوئی مقتل میںگیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں




















No comments:

Post a Comment