Monday, October 19, 2009

پیر نصیر الدین مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی محمد خان جونیجو


پیر نصیر الدین
پیر نصیر الدین نام
13 / 2 / 2009تاریخ وفات
وجھ شھرت
مشہور روحانی شخصیت اور شاعر
پیر نصیر الدین نصیر ایک نامور عالم دین، سکالر، قائد اتحاد امت اور عظیم شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے دینی تعلیم اپنے والد بزرگوار اور گولڑہ شریف کے علماء سے حاصل کی۔



ممتاز عالم دین، صوفی شاعر اور دربار عالیہ گولڑہ شریف کے سجادہ نشین پیر نصیر الدین نصیر جمعہ کو حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 65 برس تھی۔ انہوں نے پسماندگان میں ایک بیوہ اور تین بیٹے سوگوار چھوڑے ہیں۔

پیر نصیر الدین نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے مسجد جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے تو انہیں دل کی تکلیف شروع ہوئی انہیں فوری طور پر علی میڈیکل سینٹر لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

پیر نصیر الدین نصیر ایک نامور عالم دین، سکالر، قائد اتحاد امت اور عظیم شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے دینی تعلیم اپنے والد بزرگوار اور گولڑہ شریف کے علماء سے حاصل کی۔

بعد ازاں وہ بھارت، ایران اور سعودی عرب سمیت مصر کی عظیم درسگاہ جامع الاظہر میں بھی حصول علم کیلئے گئے۔ انہیں سلسلہ چشتیہ کی سرکردہ روحانی شخصیت کی حیثیت حاصل تھی وہ ہر سال امریکہ، یورپ، افریقہ اورمتحدہ عرب امارات کے تبلیغی دورہ پر جاتے تھے۔ ان کی 36 سے زیادہ شعری تصانیف ہیں جن میں ''رنگ نظام، فیض نسبت، پیمان شب، لطمت الغائب، دست نظر'' زیادہ معروف ہیں۔ وہ پاکستان ٹیلی ویژن کے نعتیہ مشاعروں اور محافل مسالمہ کے میر محفل ہوتے تھے۔

انہوں نے وفاقی دارالحکومت میں دینی سرگرمیوں کی ترویج میں نمایاں حصہ لیا۔ وہ سیرت کمیٹی کے سرپرست، مرکزی امام حسین کونسل کے نائب صدر، مجلس اولیائے پاکستان اور بابا فرید گنج شکر اکیڈمی کے سرپرست اعلی تھے۔ ملک بھر کی سیاسی، دینی، ادبی و سماجی شخصیات نے ان کے انتقال کو عالم اسلام کیلئے بالعموم اور پاکستان کیلئے بالخصوص ایک ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔

شاعری میں وہ حضرت جوش ملیح آبادی کے شاگرد تھے، انہیں محفل سماع سے خصوصی رغبت تھی۔ برصغیر کے نامور قوال اور نعت خواں محافل میں داد حاصل کرنے کیلئے ان کا کلام پیش کرتے ہیں۔

حمد باری تعالی
پیر نصیر الدین شاہ صاحب نصیر

کس سے مانگیں، کہاں جائیں، کس سے کہیں، اور دنیا میں حاجت روا کون ہے
سب کا داتا ہے تو، سب کو دیتا ہے تو، تیرے بندوں کا تیرے سوا کون ہے

کون مقبول ہے، کون مردود ہے، بے خبر! کیا خبر تجھ کو کیا کون ہے
جب تلیں کے عمل سب کے میزان پر، تب کھلے گا کہ کھوٹا کھرا کون ہے

کون سنتا ہے فریاد مظلوم کی، کس کے ہاتھوں میں کنجی ہے مقسوم کی
رزق پر کس کے پلتے ہیں شاہ وگدا، مسند آرائے بزم عطا کون ہے

اولیا تیرے محتاج اے رب کل، تیرے بندے ہیں سب انبیا ورسل علیہم السلام
ان کی عزت کا باعث ہے نسبت تری، ان کی پہچان تیرے سوا کون ہے

میرا مالک مری سن رہا ہے فغاں، جانتا ہے وہ خاموشیوں کی زباں
اب مری راہ میں کوئی حائل نہ ہو، نامہ بر کیا بلا ہے صبا کون ہے

ہے خبر بھی وہی مبتدا بھی وہی، ناخدا بھی وہی ہے خدا بھی وہی
جو ہے سارے جہانوں میں جلوہ نما، اس احد کے سوا دوسرا کون ہے

وہ حقائق ہوں اشیا کے یا خشک وتر فہم وادراک کی زد میں ہیں سب مگر
ماسوا ایک اس ذات بے رنگ کے، فہم ادراک سے ماوری کون ہے

انبیا علیہم السلام اولیا، اہل بیت نبی رضوان اللہ علیہم تابعین پہ جب آبنی
گر کے سجدے میں سب نے یہی عرض کی، تو نہیں ہے تو مشکل کشا کون ہے

اہل فکر ونظر جانتے ہیں تجھے، کچھ نہ ہونے پہ بھی مانتے ہیں تجھے
اے نصیر اس کو تو فضل باری سمجھ، ورنہ تیری طرف دیکھتا کون ہے

مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی
2
مولانا جلال الدین محمد بلخی رومینام
1207تاریخ پیداءش
1273تاریخ وفات
وجھ شھرت
محمد جلال الدین رومی مشہور فارسی شاعر تھے۔
مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی کا وطن بلخ تھا اور یہیں مولانا رومی 1207 بمطابق 604ھ میں پیدا ہوئے۔

محمد جلال الدین رومی پیدائش:1207، انتقال: 1273مشہور فارسی شاعر تھے۔ اصل نام جلال الدین تھا لیکن مولانا رومی کے نام سے مشہور ہوئے۔ کیونکہ وہ سلجوقی سلطان کے کہنے پر اناطولیہ چلے گئے تھے جو اس زمانے میں روم کہلاتا تھا۔ ان کے والد بہا الدین بڑے صاحب علم و فضل بزرگ تھے۔

ان کا وطن بلخ تھا اور یہیں مولانا رومی 1207 بمطابق 604ھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے مراحل شیخ بہا الدین نے طے کرادیے اور پھر اپنے مرید سید برہان الدین کو جو اپنے زمانے کے فاضل علما میں شمار کیے جاتے تھے مولاناکا معلم اور اتالیق بنادیا۔

اکثر علوم مولانا کو انہی سے حاصل ہوئے۔ اپنے والد کی حیات تک ان ہی کی خدمت میں رہے۔ والد کے انتقال کے بعد 639ھ میں شام کا قصد کیا ۔ ابتدا میں حلب کے مدرسہ حلاویہ میں رہ کر مولاناکمال الدین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔

مولانا رومی اپنے دور کے اکابر علما میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے۔ لیکن آپ کی شہرت بطور ایک صوفی شاعر کے ہوئی۔ دیگرعلوم میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی۔ دوران طالب علمی میں ہی پیچیدہ مسائل میں علمائے وقت مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شمس تبریز مولانا کے پیر و مرشد تھے۔

مولانا کی شہرت سن کر سلجوقی سلطان نے انھیں اپنے پاس بلوایا۔ مولانا نے درخواست قبول کی اور قونیہ چلے گئے اور بقیہ زندگی وہیں گذارکر1273 بمطابق 672ھ میں انتقال کرگئے۔ قونیہ میں ان کا مزار آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔

قونیہ میں مولانا کا مزاران کی سب سے مشہور تصنیف مثنوی مولانا روم ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک مشہور کتاب فیہ مافیہ بھی ہے۔
باقی ایں گفتہ آیدبے زباں
درددل ہر کس کہ دارد نورجان
ترجمہ:"جس شخص کی جان میں نورہوگااس مثنوی کابقیہ حصہ اس کے دل میں خودبخود اتر جائیگا"

علامہ محمد اقبال مولانا رومی کو اپنا روحانی پیر مانتے تھے۔ ان کے800 ویں جشن پیدائش پر ترکی کی درخواست پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، ثقافت و سائنس یونیسکو نے 2007 کو بین الاقوامی سالِ رومی قرار دیا۔ اس موقع پر یونیسکو تمغہ بھی جاری کرے گا۔










محمد خان جونیجو
محمد خان جونیجونام
1932تاریخ پیداءش
1993تاریخ وفات
وجھ شھرت
محمد خان جونیجو پاکستان کے وزیراعظم تھے
محمد خان جونیجو پاکستان کے وزیراعظم تھے جو 18 اگست 1932 کو پیدا ہوئے۔

محمد خان جونیجو پاکستان کے وزیراعظم تھے جو 18 اگست 1932 کو پیدا ہوئے۔

ابتدائی زندگی

آپ صوبہ سندھ کے علاقے سندھڑی میں پیدا ہوئے۔ برطانیہ سے زراعت میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ سیاسی زندگی کا آغاز اکیس سال کی عمر سے کیا۔ 1962 میں آپ کو سانگڑھ سے مغربی پاکستان سے صوبائی اسمبلی کا رکن منتحب کیا گیا۔ جولائی 1963 میں آپ کو مغربی پاکستان کا وزیر بنایا گیا۔

بطور وزیراعظم

1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں آپ نے کامیابی حاصل کی اور جنرل ضیاالحق نے آپ کو وزیراعظم نامزد کیا اور آپ نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا وٹ حاصل کر لیا۔آپ کی شہرت پاکستان کے ایماندار سیاستدان اور وزیراعظم کے ہے۔ بطور وزیراعظم کئی نکات پر جنرل ضیاالحق سے کشیدگی ہوئی جن میں اوجڑی کیمپ دھماکے کے بعد جنرل ضیاالحق نے 8 ویں ترمیم استعمال کرتے ہوئے جونیجو حکومت کو ختم کر دیا۔

وفات

کئی سالوں کی علالت کے بعد 16 مارچ 1993 کو آپ وفات پاگئے

آپ سے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو
آپ کے بعد وزیراعظم بینظیر بھٹو












No comments:

Post a Comment