ماورالنہر میں پیدا ہوئے۔ نام بختیار قطب الدین لقب ، کاکی خطاب تھا
۔شجرئہ نسب یوں ہے۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، ابن کمال الدین بن موسیٰ بن احمد اوشی بن کمال الدین بن محمد بن احمد بن رضی الدین بن حسام الدین بن رشید الدین بن جعفر بن نفی الوجود بن علی موسیٰ رضا بن موسیٰ کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقر بن علی زین العابدین بن امام حسین بن حضر ت علی۔ کاک کہتے ہیں روٹی کو اس سے متعلق حکایات تو بڑی دلچسپ اور عجیب و غریب ہیں ۔ خلاصہ ان سب کا یہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ کی بیگم صاحبہ سے ایک روز ایک بنیے کی بیوی نے طنزاً کہ دیا کہ اگر میں تمہیں قرض نہ دوں تمہارے بچے بھوکوں مر جائیں، آپ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے قرض لینے سے روک دیا۔ اور فرمایا کہ روزانہ حجرے کے طاق سے ?بسم اللہ الرحمٰن الر حیم ?پڑھ کر جس قدر کاک کی ضرورت ہو لے لیا کریں ۔ اور بچوں کو کھلا دیا کریں ۔ چنانچہ اسی واقعے کی بنا پر آپ کاکی کے نام سے مشہور ہو گئے۔ خواجہ بختیار کاکی کاسلسہ نسب 14 واسطوں سے جناب امام حسین سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد محترم جناب خواجہ کمال الدین احمد بھی ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ خواجہ بختیار کاکی ابھی ڈیڑھ سال ہی کے تھے۔ کہ آپ کے والد ماجد انتقال کر گئے۔ اور گھر کا تمام بوجھ آپ کی والدہ محترمہ کے کندھوں پر آ ن پڑا۔ ابو حفص نام کے ایک باکمال بزرگ سے جناب خواجہ صاحب نے علوم دین حاصل کیے۔ پھر اپنی خداداد لیاقت سے تھوڑے ہی دنوں میں تبحر علمی پیدا کر لیا۔ جب خواجہ معین الدین چشتی پھرتے پھراتے اصفہان آئے تو آپ ان کے مرید ہو گئے۔ مرید کیا ہوئے۔ پھر عمر بھر کے لیے انہی کے ہو رہے۔ جب خواجہ معین الدین چشتی واپس ہندوستان آئے تو آپ سے ان کی جدائی گوارا نہ ہو سکی۔ چنانچہ آپ بھی وطن کو خیر آباد کہہ کر ملتان ہوتے ہوئے جناب شیخ بہائو الدین زکریا ملتانی اور شیخ جلال الدین تبریزی کی مہمانی میں رہ کر اپنے پیرو مرشد جناب خو اجہ معین الدین چشتی کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ سلطان شمش الدین التمش کا عہد حکومت تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ جناب خواجہ بختیار کاکی دہلی تشریف لائے ہیں ۔ اسے بزرگوں سے بڑی عقیدت اور محبت تھی۔ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ جنگل سے شہر چلے چلیں۔ اور ہمیں اپنی خدمت کرنے کا موقع دیں۔ لیکن آپ نے اس سے عذر کر دیا اور کہا کہ شہر میں پانی کی قلت ہے۔ اس لئے میرے لیے یہی جگہ مناسب ہے۔ سلطان کا قاعدہ تھا کہ ہفتہ میں دو بار ضرور خدمت میں حاضر ہوتا۔ اور اس بات کا طالب رہتا کہ آپ کسی چیز کی فرمائش کریںتو میں لا کر حا ضر کر دوں۔ لیکن آپ نے بادشاہ سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا۔ لوگ جوق درجوق آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اورفیض پاتے ۔ آپ کی برکتوں کا یہاں تک اثر ہوا کہ ایک مرتبہ جب خواجہ معین الدین آپ سے ملنے کے لیے دہلی تشریف لائے اور واپسی میں آپکو بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو ہر طرف سے خلق خدا جناب خواجہ کی خدمت میں آ ،آ کر عرض کرتی کہ بابا بختیار کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں انہیں دہلی ہی میں رہنے دیں۔ چنانچہ لوگوں کے اصرار پر آپ کو اپنا ارادہ بدلنا پڑا۔ جب شیخ الاسلام مولانا جمال الدین بسطامی کے انتقال پر مر حوم کا عہدہ خالی ہو گیا تو سلطان التمش نے آپ سے در خواست کی کہ شیخ الا سلامی کا منصب قبول فرمائیں۔ آپ نے فرمایا ہم درویشوں کو اس سے کیا تعلق؟ جناب خواجہ بختیار کاکی کا قاعدہ تھا کہ وہ اوراد و وظائف گوشہءتنہائی میں کرتے تھے۔ اور اپنے مریدوں کو بھی یہی رائے دیتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنے خلیفہ و مرید جناب شیخ فرید الدین گنج شکر سے بھی یہی فرمایا کہ اوراد و وظائف علیحدگی میں نہ کرنے سے شہرت ہوتی ہے۔ اور شہرت ہم فقیروں کے لیے سخت آفت ہے۔ خواجہ بختیار کاکی نے 234ھ میں انتقال کیا۔ اور دہلی (مہر ولی)ہی میں مدفون ہوئے ۔ طبعیت کا عالم یہ تھا کہ باوجود تنگ دست ہونے کے کبھی کسی سائل کو مایوس نہیں جانے دیا۔ لنگر خانے میں جو چیز آتی اسے فوراً فقرا و مساکین میں تقسیم کر دیتے تھے۔ اور جس روز کوئی چیز نہ ہوتی تھی خادم سے فرماتے اگر آج لنگر میں کچھ بھی نہیں تو پانی کا دور چلائو۔ تقسیم اور عطا و بخشش سے آج کا دن بھی خالی کیوں جائے۔ شان فقر یہ تھی کہ ایک مرتبہ شاہی حاجب اختیار الدین ایبک آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کئی گائون بطور نذر پیش کیے۔ آپ نے فرمایا جس کا دل اللہ کی یاد سے آبا د ہو وہ گائون لے کر کیا کرے گا۔ چنانچہ ائندہ کے لیے تنبیہ کر کے واپس کر دیے۔ آپ کے نام سے دو کتابیں بیان کی جاتی ہیں ۔ ایک دیوان ، دوسری فوائد السلوک ۔ جن میں آپ کے ملفوظات ہیں اور انہیں آپ کے خلیفہ و مرید جناب فرید الدین گنج شکر نے ترتیب دیا ہے۔
| امام احمد بن حنبل | |  | | | المجد دین ?امام المصلحین امام احمد ابن حنبل | نام | | 788ئ | تاریخ پیداءش |
| | | وجھ شھرت | | اسلامی تاریخ کی جلیل القدر اور عظیم المرتیب شخصیت |
| حنبلی مکتب فکر کے بانی اور امام ہیں 'ان کا امت کے نامور مجہتدین میں شمار ہوتا ہے 'ان کی فقہ حنفی 'مالکی اور شافعی فقہ کی طرح آج بھی عالم اسلام میں زندہ ہے۔
امام احمد بن حنبل اسلامی تاریخ کی وہ جلیل القدر اور عظیم المرتیب شخصیت ہیں جن کے پایہ استقلال میں نہ حکمرانوں کا رعب وجلال اور تازیانے لغزش پیدا کر سکے اور نہ سیم وزر کی زنجیریں قصر سلطانی کے گنبد پر اپنا نشیمن بنانے پر آمادہ کر سکیں '
جن کا نور حق وصدق سے منور کردار اہل سنت اور اہل بدعت کی شناحت کا معیار بن گیا۔دنیا انہیں المجد دین 'امام المصلحین امام احمد ابن حنبل کے نام سے جانتی ہے۔وہ حنبلی مکتب فکر کے بانی اور امام ہیں 'ان کا امت کے نامور مجہتدین میں شمار ہوتا ہے 'ان کی فقہ حنفی 'مالکی اور شافعی فقہ کی طرح آج بھی عالم اسلام میں زندہ ہے۔
امام احمد بن حنبل 788 ء میں پیدا ہوئے۔ نسلًاخالص عرب تھے۔ان کا قبیلہ بصرہ میں رہتا تھا اور ان عرب قبائل میں سے تھا جو قبیلہ شیبان سے تعلق رکھتے تھے۔امام احمد کے دادا حنبل بن بلال 'بصرہ سے خراسان چلے گئے 'وہیں اموی فوج میں شامل ہوئے اور ترقی کرتے کرتے کمانڈر بنے 'پھر سرخس کے گورنر مقرر ہوئے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے عہد میں فوج کے اعلی کمانڈر ہی گورنر مقرر کئے جاتے تھے۔
جب عباسیوں نے اہل بیت اور بنو ہاشم کے نام سے خراسان میں اپنی دعوت شروع کی 'تو حنبل اس دعوت کے ہمدردوں اور کار کنوں میں شریک ہو گئے اور اس راہ میں بڑی تکالیف اٹھائیں۔امام احمد کے والد مہمد بن حنبل بھی فوجی تھے۔ابھی امام صاحب پیدا نہیں ہوئے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا۔
امام صاحب کی والدہ مرو سے بغداد آئیں اور یہیں امام صاحب پیدا ہوئے۔ان کی والدہ بڑی باہمت اور حوصلہ مند خاتون تھیں۔ شوہر نے مختصر سی جائیداد چھوڑی تھی۔اسی پر تنگی ترشی سے گزر بسر ہوتی۔اسی طرح امام صاحب بچپن ہی سے صبر وشکر 'قناعت 'جفاکش 'بلند ہمتی 'زمانے کی مشکلات اور سختیوں کا سامنا کرنے کے خوگر ہو گئے۔
امام احمد بغداد ہی میں پلے اور پروان چڑھے۔اس زمانے کا بغداد پوری دنیا میں اسلام کا دارالخلافہ اور علم وتہذیب کا مرکز تھا 'وہاں فنون ومعارف کا بحر ذخار موجزن تھا۔بڑے بڑے علماء محدث 'زبان دان 'فقیہہ اور فلسفی موجود تھے اور علم کے پیاسے علم وفن کے اس منبع سے فیض یاب ہونے کے لئے چاروں طرف سے امڈ کر آرہے تھے۔
امام صاحب کو تو گویا یہ منبع گھر بیٹھے میسر آگیا۔ان کی والدہ خاندانی روایات کے برعکس اپنے بچے کو عالم بناناچاہتی تھیں'چنانچہ ابہی چھوٹے ہی تھے کہ مکتب میں بٹھا دئیے گئے سب سے پہلے قرآن کریم حفظ کیا۔ پھر علم لغت حاصل کیا'اس کے بعد لکھناسیکھا۔اللہ تعالیٰ نے بے پناہ حافظہ دیاتھا۔ایک بارجو کچھ پڑھتے یا سنتے'ذہن میں گویا نقش ہوجاتا 'جلد ہی انہیں مثالی طالب علم سمجھاجانے لگا۔نہایت مہذب 'لوگ اپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت ان کی مثال سامنے رکھتے۔ان کی صلاحیتیں' تقویٰ وطہارت اور اطوار وخصائل دیکھ کر اصحاب نظر کہا کرتے تھے کہ یہ بچہ اگر زندہ رہا تو اپنے عہد کا مردکامل اور اہل زمانہ کے لئے حجت بنے گا۔
ابتدائی تعلیم سے فارغ ہو کر امام احمد حدیث کی طرف متوجہ ہوئے۔بغداد کے بڑے بڑے محدثین کے آگے زانوء تلمذ تہہ کیا۔ دارالخلافے کے علمی سر چشموں سے فیض یاب ہو چکے تو بصرہ حجاز یمن شام اور جزیرے کا سفر کیا اور ہر جگہ کے نا مور محدثین سے استفادہ کیا۔امام شافعی سے پہلی ملاقات اور ان کی شاگردی کی سعادت حجاز کے پہلے سفر میں حاصل ہوئی۔
طلب حدیث کی راہ میں ہر طرح کے مصائب اور شدائد جھیلتے اور کالے کوسوں کا فاصلہ پیدل طے کر کے علم وفضل کے ان سر چشموں تک پہنچتے جن کا چرچا بلاد اسلامیہ میں دور دور تک پہیلا ہوا تھا 'چنانچہ ان کے درس میں طلبہ اور ان کے سامعین کا زبردست ازدہام ہوتا۔ شاگردوں کا خاص حلقہ وہ تھا۔جو امام صاحب کے گھر جا کر ان سے حدیث سنتا اور لکھتا۔درس کی یہ محفلین نہایت باوقار 'پرسکون اور سنجیدہ ہوتیں۔حاضرین ادب اور وقار کے ساتھ بیٹھتے۔
معتزلہ کی تحریک بنو امیہ کے دور میں شروع ہو گئی تھی تاہم اسے فروغ عباسیوں کے ابتدائی عہد میں ملا۔خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے تک ایک اچھا خاصا نام نہاد روشن خیال طبقہ وجود میں آگیا اور جیسا کہ ہر زمانے میں دیکھنے میں آیا ہے اس روشن خیالی سے متاثر لوگ زیادہ تر اونچے مرفہ الحال اور غیروں کی فکری غذا پر پلنے والے دانش ور طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
یہ تحریک آزادی فکرو رائے 'آزادی ضمیر اور رواداری کے نام پر اٹھی تھی۔مگر امام صاحب اپنے موقف پر پہاڑکی طرح قائم رہے۔بغداد کا نائب حاکم اپنے آپ کو عزم وثبات کے اس پیکر کے آگے بے بس پا رہا تھا کہ مامون کا فرمان گویا اسے اس بے بسی سے نجات دلانے کی نوید بن کر آیا۔
اس نے امام صاحب کو بیڑیوں میں جکڑ کر پولیس کے ایک دستے کی حراست میں طرطوس روانہ کر دیا۔اس قافلے نے چند ہی منزلیں طے کی تھیں کہ مامون کے انتقال کی خبر ملی۔وہ اچانک بیمار ہوا اور چند روز موت و حیات کی کشمکش میں گرفتار رہ کر اپنی فرد عمل کا حساب دینے کے لئے حضور حق تعالیٰ میں پہنچ گیا تھا۔
نئے احکام صادر ہونے تک امام احمد اور ان کے جلیل القدر ساتھی کو رقہ کے زنداں میں پہنچادیا گیا۔ پھر انہیں بغداد لے جایا گیا۔ وہاں پہنچنے پر امام صاحب نے رات معتصم کے محل کے اندھیرے بندی خانہ میں رکوع و سجود میں گزاری۔ صبح ہوئی تومعتصم کا قاصد انہیں دربار میں لے گیا۔ قاضی القضا ابن ابی داؤد اور اس کے ہم مشرب بھی بڑی تعداد میں حاضر تھے امام صاحب کی حاضری سے چند لمحے پہلے دو آمیو ں کی گردنیں ماری جا چکی تھیںاور ان کے لاشے وہاں پڑے تھے۔
معتصم نے انہیںبیٹھ جانے کو کہا۔امام صاحب بیڑیوں کے بوجھ سے تھک گئے تھے ،اجازت پاکر بیٹھ گئے۔ پھر بولے : ''مجھے کچھ کہنے کی اجازت ہے ''معتصم نے کہا،''ہاں بولو!'' امام صاحب نے کہا ''میں پوچھناچاہتا ہوں کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس چیز کی طرف دعوت دی ہے ''امام صاحب کی آواز بلند ہوگئی تھی۔ کچھ دیر خاموشی طاری رہی ، پھر معتصم نے کہا : ''لا الہ الا للہ کی شہادت کی طرف !''امام صاحب نے فرمایا :'' تو میں اس کی شہادت دیتا ہو ں''
امام احمد کے منشاء کو سمجھ گیا تھا۔ چنانچہ اسے اس کے سوا کوئی جواب نہ بن پڑا کہ احمد ! میرے پیشرو نے اگر تمہیں گرفتار نہ کیا ہوتا تو میں تم سے کوئی تعرض نہ کرتا۔'' امام احمد اپنی گرفتاری کے بعد 28 مہینے تک قیدو بند کی اذیتوںمیں مبتلا رہے۔ان کو تینتیس چونتیس کوڑے مارے گئے۔
یہ سارا عرصہ امام صاحب نے بڑے حوصلے اور جرات و وقار کے ساتھ گزارا۔ آخر امام صاحب کے صبرو استقامت کے آگے ظالموں کا جبرو تشدد جواب دے گیا ، چنانچہ انہیں رہا کردیا گیا اوراس حالت میں گھر پہنچے کہ زخموں سے چور تھے۔صحت یاب ہونے پر درس حد یث پھر شروع کر دیا۔معتصم کے بعد واثق تخت خلافت پر بیٹھا۔ اس نے جسمانی ایذا تو نہیں دی ،البتہ امام صاحب کو ان کے گھر میں نظر بند کر دیا۔
اس کے مرنے کے بعد متوکل خلیفہ بنا تو فتنے کے رہے سہے بادل بھی چھٹ گئے اور مطلع بالکل صاف ہو گیا۔متوکل نے امام احمد کی نظر بندی ختم کر دی اورپچھلے مظالم کی اپنے جودو کرم سے تلافی کرنا چاہی اور انعام و عطیات سے نوازنے کی کوشش کی۔ امام صاحب جنہوں نے کوڑوں کی مار بڑے تحمل سے برداشت کر لی تھی اس تازہ آزمائش پر چیخ اٹھے کہ یہ آزمائش کوڑوں کی مار سے زیادہ سخت ہے۔
تاہم انہوں نے اپنے دامن کو اس آلائش سے آلودہ نہ ہونے دیا۔ ایک بار انہوں نے متوکل کے بھیجے ہوئے ایک لاکھ کے خطیر عطیہ کو واپس کرتے ہوئے فرمایا : '' میں اپنے مکان میں اپنے ہاتھ سے اس قدر کا شتکاری کر لیتا ہوں ، جو میری ضرورت کے لئے کافی ہے اس بوجھ کو اٹھا کر کیا کروں گا ؟''
خیر و صلاح تدوین ھد یث ، اتباع سنت اور دفاع حق و صدق سے عبارت بھرپور زندگی گزارنے کے بعد امام احمد کا 77 برس کی عمر میں جب انتقال ہوا تو آٹھ لاکھ مرد اور ساٹھ ہزار عورتیں بادل مجروح و مخروں ان کے جنازے میں شریک تھیں۔
| شیخ الحدیث سید احمد علامہ ابو البرکات | |  | | | شیخ الحدیث سید احمد علامہ ابو البرکات | نام | | 1886 | تاریخ پیداءش |
| | | وجھ شھرت | | علم وفضل |
| آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے قائم کردہ مدرستہ قوت الاسلام (الور ) میں حاصل کی۔ پھر مراد آبادی کے مدرسہ اہل سنت مراد آباد میں داخلہ لیا
۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے قائم کردہ مدرستہ قوت الاسلام (الور ) میں حاصل کی او30 اپنے والد سے صرف ونحو ، اصول ، منطق اور فلسفہ کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر حضرت مولانا حکیم سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کے مدرسہ اہل سنت مراد آباد میں داخلہ لیا اور درس نظامیہ کی آخری موقوف علیہ کتابیں پڑھیں ۔ جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں آپ نے حضرت کے زیر تربیت مناظرہ توقیت فلکیات اور فلسفہ میں بھی مہارت حاصل کی ۔ فن طب کی کچھ کتابیں بھی حکیم سید محمد نعیم الدین حکیم حاذق سے پڑھیں ۔ پھر طب باقاعدہ تعلیم وتربیت شفاءالامراض کے منصف حکیم مولانا نور کریم کے شاگرد سے حاصل کی اور ان کے مطب مراد آباد میں مطب کی عملی تربیت بھی حاصل کی ۔ جامعہ نعیمیہ مراد آباد سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے والد سید دیدار علی شاہ سے دور ہ حدیث پڑھا اور احدیث کی خصوصی سند وتمام سلاسل اولیا ءکے معمولات وظائف کی اجازت وخلافت حاصل کی ۔ 1915ءمیں بریلی شریف حاضر ہوئے اور کچھ عرصہ اعلی حضرت فاضل بریلوی کے زیر تربیت رہے ۔ آپ دوسرے علماءکے ساتھ فتویٰ نویسی پر مامور ہوئے جس کی نگرانی اعلی حضرت خود فرماتے تھے، فتوی رضویہ کی جلد اول اور بہار شریعت کے پہلے حصے آپ کی نگرانی میںطبع ہوئے ۔ اعلی حضرت نے تمام علوم عالیہ اسلامیہ قرآن وحدیث وفقہ کی خصوصی سند اپنے دست خاص سے لکھ کر عنایت فرمائی۔ 1920ءکے آغاز میں جب حضرت سید دیدار علی شاہ مستقل سکونت کے ارادہ تشریف لائے تو آپ کی جگہ حضرت ابو البراکات جامع مسجد آگرہ کے خطیب ومفتی مقرر ہوئے ۔ یہ دور بڑا پر آشوب تھا ۔ نت نئے فتنے جنم لے رہے تھے ۔ حضرت ابو البراکات نے دوران خطابت آگرہ درس وتدریس ? وعظ ونصیحت کے سلسلے کو بحسن وخوبی انجام دیا اور مسلک اہل سنت والجاعت کی تبلیغ واشاعت کے لئے کوشاں رہے۔1933ءمیں جامع مسجد مزار حضرت داتا گنج بخش کی خطابت کے لئے آپ لاہور تشریف لائے ۔ اسی دوران میں دارالعلوم حزب الاحناف کی ابتدا ہوئی تو مولانا ابوالبرکا ت کو اس مدرسے میں مدرس مقرر کیا گیا ۔ آپ کے علم وفضل کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیل گئی اور دوسرے شہروں سے طالبان علوم دینیہ لاہور پہنچنے لگے اور آپ کے علم وفضل سے استفادہ کرنے لگے ۔ ٦٢٩١ءمیں آپ نے لوکور ورکشاپ لاہور کی مسجد میں جمعہ پڑھانا شروع کیا اور ٢٥ سال تک مسلسل یہ خدمت انجام دیتے رہے ۔ تحریک پاکستان کی حمایت ونصرت کا مرحلہ آیا تو آپ نے دو قومی نظریہ اور قرار داد پاکستان کی بھر پور حمایت کی ۔ کانگرسی علماءکی تردید اور نظریہ پاکستان کی تائید کے لئے اپنے دارالعلوم کے سالانہ جلسوں کو وقف کر دیا ۔ ٠٣ اپریل ٦٤٩١ءآل انڈیا سنی کانفرنس کا بمقام شاہی باغ فاطمان بنارس میں انعقاد ہوا اور پاکستان کی حمایت میں پر زور قرار داد منظور کی گئی اس قرار داد پر مولانا ابوالبرکات کے علاوہ تقریباًدو ہزار قرار علماءاور مشائخ نے دستخط کئے ۔ قیام پاکستان کے بعد نظام مصطفی کے قیام ونفاذاور اہل سنت کی تعمیر وتنظیم کے لئے ہر ممکن سعی فرمائی ۔ ٩٤٩١ءمیں جب پہلی دستور ساز اسمبلی قائم ہوئی تو آپ نے قرار داد مقاصد کی تربیت میں حصہ لیا اور پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ وقیام کے لئے ہر ممکن کوشش کی ۔ مولانا ابوالبرکا ت نے اپنی تدریسی وتبلیغی مصروفیات کے باوجود ہر سیاسی ودینی تحریک کا جائزہ لیا اور اپنا دینی وملی فرض کماحقہ ادا فرمایا ۔ قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد جس قدر تحریکیں اٹھیں ۔ آپ نے ان میں اپنا کردار ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی ۔ تحریک خلافت ? شدھی ? ترک موالات ? ہندو مسلم اتحاد ? مسجد شہید گنج ? خاکسار تحریک ? احرار کشمکش ? مجلس اتحاد ? تحریک آزادی ہنداور تحریک پاکستان وغیرہ جس قدر تحریکیں اٹھیں آپ نے بلاخوف شریعت اسلامیہ کی رو سے جو بات حق ثابت ہوئی اس سے عوام کو آگاہ کیا ۔ شریعت کی پابندی اور سنت رسول کی پیروی ان کی طبیعت ثانیہ تھی ۔ ہر بات اور ہر کام میں احکام شریعت کا خیال رکھتے تھے ۔ ان کی پوری زندگی سنت رسول کی تصور تھی ۔ آپ کی موجودہ تصانیف درج ذیل ہیں ۔ ١۔ فتح مبین ٢۔ دبوس المقلدین ٣۔ترجمہ تمہیدابوشکور سلمی ٤۔ مناظرہ تلون ٥۔ضیاءالقنادیل ٦۔مناظرہ ترن تارن ٧۔اثبات قبہ جات ٨۔القول الصواب آپ کے وہ فتوے جو ضبط تحریر میں آکر رجسٹرمیں درج ہو سکے وہ بھی متعدد جلدوں میں محفوظ ہیں اور ہر جلد تقریباً سوا دو سو صفحات پر مشتمل ہے ۔ آپ نے ٨٧٩١ءمیں وفات پائی اور مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف گنج بخش روڈ نزد مزار حضرت داتا گنج بخش کے احاطے میں آسود خاک ہوئے ۔ حضرت ابوالبرکات کا شمار ان معدودے چند علماءکرام میں ہوتا ہے جن کی علمی فضیلت ? تقوی وطہارت اور عظمت کردار کو اپنے پرائے سب قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آپ آسمان علم وحکمت کے مہردرخشاں تھے جس کی ضیاءپاشیوں سے ہزار طالبان رشد وہدایت فیض یاب ہوئے ۔ آپ اپنے ان اوصاف حمیدہ کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے |
|
|
No comments:
Post a Comment