Monday, October 19, 2009

حضرت امام غزالی ByMuhammadAmirSultanChishti923016778069


حضرت امام غزالی
محمد بن محمد الغزالینام
450 ہجرتاریخ پیداءش
وجھ شھرت
امت کے طبیب اور مسیحا فلسفی، مناظر
امام الحرمین ابوالمعالی جوینی فرماتے تھے کہ ''غزالی علم کا بحر ذخائر ہیں ''۔ اٹھائیس سال کی عمر میں ہی آپ کا شمار بلاد اسلامی کے جید و چیدہ باکمال اصحاب علم و فضل میں ہونے لگا تھا۔

حضرت امام غزالی رحمة اللہ علیہ کا نام محمد ، کنیت ابو حامد اور لقب حجة الاسلام تھا۔ آپ 450 ہجری کو طوس میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم امام احمد راز کائی سے حاصل کی۔ کچھ مدت جرجان میں رہے اور امام ابو نصر اسماعیلی سے علم حاصل کیا۔ پھر نیشا پور چلے گئے اور امام الحرمین ابوالمعالی جوینی کے حلقہ درس میں شامل ہو گئے۔ وہ اپنے عہد کے عظیم ترین عالم، نیشا پور کے خطیب ، اوقاف اسلامی کے ناظم اور مدرسہ نظامیہ کے صدر مدرس تھے۔

وہ اپنے اس باکمال شاگرد پر بے حد نازاں تھے۔ اور فرمایا کرے تھے '' غزالی علم کا بحر ذخائر ہیں '' استاد گرامی کے انتقال کے بعد وہ نیشا پور سے روانہ ہوئے۔ اس وقت وہ اٹھائیس سال کے تھے لیکن اتنی کم عمری کے باوجود ان کا شمار بلاد اسلامی کے جید و چیدہ باکمال اصحاب علم و فضل میں ہونے لگا تھا۔ یہاں سے وہ ملک شاہ سلجوقی کے وزیر نظام الملک طوسی کے دربار میں پہنچے جو ان دنوں اہل فضل و کمال کا مرجع تھے۔

وہ انکے فضل و کمال سے بے حد متاثر ہوا اور انہیں عالم اسلام کی سب سے بڑی درسگاہ کی صدرارت تفویض کی۔ یہ اس دور کا سب سے بڑا اعزاز تھا۔ چنانچہ وہ بہت جلد علمی حلقوں کے مرکز توجہ بن گئے۔ ان کے علمی تبحر کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا۔ اور تشنگان علم ہر طرف سے ان کے حلقہ درس میں شریک ہونے کے لیے بغداد کا رخ کرنے لگے۔

امام غزالی رحمة اللہ علیہ کا دور فلسفہ پرستی کا دور تھا۔ یونانی فلسفیوں کی کتابیں عربی میں منتقل ہو چکی تھیں۔ اور مسلمانوں کے فکر و ذہن کو بری طرح متاثر کر رہی تھیں۔ فلسفیانہ موشگافیوں سے دین و شریعت اور اصول و عقائد کوئی چیز محفوظ نہ رہی تھی۔ دینی اصطلاحات کو نئے نئے معنی پہنائے جا رہے تھے ۔ قرآنی آیات کی نئی نئی تعبیریں کی جا رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ باطنیت کا فتنہ بھی عروج پر تھا اور باطنیوں کے ہاتھوں عالم اسلام کا کوئی دین و سیاسی رہنما اور عالم و صالح شخص محفوظ نہ تھا۔ وہ مسلمانوں کے فکر و عقیدہ کا سبوتاژ کرنے کے لیے ایک نیا علم کلام اور دین و شریعت کی نئی تعبیرات پیش کر رہے تھے۔ جو فلسفیوں کی خیال آرائیوں اور تعبیروں سے کہیں زیادہ خطرناک تھیں۔

فلسفہ اور باطنیت کی ان بلائوں کے درمیان مسلمان ذہنی انتشار میں مبتلا حیران و پریشان کھڑے تھے۔ مسلمانوں کے دانشور طبقے کے ایک بڑے عنصر کا رجحان فلسفے کی طرف تھا جبکہ باطنیت سے خوش عقیدہ عوام الناس اور عام پڑھا لکھا عنصر متاثر تھا۔ ابتدا میں امام غزالی رحمہ اللہ علیہ خود بھی فلسفہ و تعقل پرستی کے والہ و شیدا تھے لیکن پھر شک و ریب نے بے اطمینانی پیدا کر دی۔ جو بڑھتے بڑھتے تفلسف کی اس زندگی سے بیزاری کا موجب بن گئی۔

اس بیزاری نے انہیں تحقیقی مطالعے پر راغب کیا۔ وہ ایک سال تک کتابوں کے وسیع سمندر میں ڈوبے رہے۔ اس مطالعے سے ان پر فلسفے کی نامحکمی اور عقلیات کی بے مائیگی عیاں ہو گئی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ فلسفہ اپنے دامن میں قلب و ذہن کی تشفی کا کوئی سامان نہیں رکھتا ۔ اس کی بنیاد پر قائم ہونے والے افکار و نظریات کی عمارت سطح بینوں اور کوتاہ فہموں کو چاہے کتنی ہی خوشنما اور مستحکم نظر آئے درحقیقت سخت بودی اور کھوکھلی ہے۔

حقیقی علم وہ ہے جو کتاب و سنت کے صاف و شفاف سرچشمے سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ احسنان و تصوف کے کوچے میں پہنچے اور شیخ ابو طالب مکی شیخ حارث محاسبی ، شیخ با یزید بسطامی ، شیخ جید بغدادی اور شیخ شبلی کے ملفوظات اور تصنیفات کا مطالعہ کیا اور آخر علم و تعلیم ، عزت و شہرت اور جاہ و اقبال کی زندگی کو خیر باد کہہ کر بغداد سے نکل کھڑے ہوئے۔

گیارہ سال تک دمشق ، بیت المقدس ، مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور اپنے وطن میں سخت مجاہدے اور ریاض کی زندگی گزاری ، شک و ریب اور بے اطمینانی کے تمام کانٹے نکل گئے اور دلجمعی اور سکون قلب میسر آیا۔ اس سارے عرصے میں انہوں نے خلوت و عزت گزینی پر اکتفا نہ کیا۔ انہیں مسلمانوں کے ہر طبقے کی فکری و عملی خرابیوں اور گمراہیوں سے آشنا ہونے کا موقع ملا۔

فلسفہ زدگی، متصوفین کی گمراہی، علما کی بے عملی اور متکلمین کی موشگافیوں سے اکثر طبقات کا ایمان متزلزل اور عقائد متاثر ہو چکے تھے۔ ان خرابیوں اور کمزوریوں کے حقیقی اسباب و عوامل پر ان کی گہری مشاہداتی و تجزیاتی نظر تھی۔ پھر مختلف علوم کے وسیع و جامع مطالعے اور کتاب و سنت سے گہری واقفیت کی بدولت وہ بجا طور پر محسوس کر رہے تھے کہ وہ مسلمانوں کے ان فکری و عملی امراض اور عقیدہ و اخلاق کی خرابیوں کا مداوا کرنے کی استطاعت و صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ تا ہم انہیں یہ بھی احساس تھا کہ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ بلکہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے۔ سارے زمانے کی عداوت و مخالفت کا سامنا کرنا پڑیگا۔

لیکن انہیں اپنے سوا کوئی اور مرد میدان نظر نہیں آ رہا تھا ۔ مرض وبائی صورت اختیار کر گیا تھا اور مسیحا خود بیمار تھا۔ ایک طرف کٹھن کام اور اس راہ کی مشکلات اور صعوبتیں تھیں اور دوسری طرف فرض کا احساس تھا جو انہیں میدان میں نکلنے کی دعوت دے رہا تھا ابھی وہ شش و پنج میں تھے کہ نیشا پور سے سلطان کا بلاوا آ گیا۔

یہ گویا اشارہ غیبی تھا وہ خلوت و عزلت ترک کر کے پھر میدان علم و عمل میں پہنچ گئے اور گیارہ سال کے بعد پھر مدرسہ نظامیہ میں زینت آرائے مسند درس ہوئے مگر اس غزالی اور گیارہ سال پہلے کے غزالی میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ گیارہ سال پہلے کے غزالی محض ایک فلسفی، مناظر اور جاہ و عزت کے طلبگار ایک ایسے صاحب علم تھے جن کے سامنے متکلمانہ ، موشگافیوں ، فلسفیانہ مباحث مناظروں اور بے روح درس و تدریس کے سوا اور کوئی مقصد نہ تھا جبکہ اب وہ ایک مصلح، مجدد اور انقلابی غزالی تھے۔ امت کے طبیب اور مسیحا، جن کا ہاتھ امت کی نبض پر تھا اور جس کے امراض کے مداوا کی فکر انہیں مضطرب اور بے قرار کیے دیتی تھی۔ درس و تدریس کا شغل تھا یا تالیف و تصنیف کا سلسلہ، اب ان سب کا مقصود ایک تھا، اصلاح فکر و کردار۔

اب ان کی ساری جدوجہد فلسفے اور باطنیت کی فتنہ آرائیوں کے سد باب اور اسلامی معاشرے کی فکری و عملی کاریوں پر تنقید اور اس کی اصلاح پر مرکوز تھی۔ انہوں نے ایک طرف فلسفے کی کمزوریوں کو آشکار کیا اور استدلال کی قوت سے اسکی بے مائیگی ثابت کی، دوسری طرف باطنیت کی فکری بنیادوں پر کاری ضرب لگائی اور تیسری طرف مسلمان معاشرے کے ایک طبقے پر کڑی تنقید کی اور ان اسباب و عوامل کی نشاندہی کی جو مسلمانوں کے دینی و اخلاقی انحطاط کا سبب تھے۔ ان کے نزدیک مسلمان معاشرے میں پھیلی ہوئی ذہنی اور اخلاقی خرابیوں کے سب سے بڑے ذمے دار حکمران اور علما تھے۔

انہوں نے ان دونوں طبقات پر کڑی نکتہ چینی کی۔ مزید برآں دولت مندوں اور عوام الناس کے کردار اعمال کا ناقدانہ جائزہ لیا۔ اس طرح پورے اجتماعی نظام کے مفاسد، کمزوریوں اور امراض کی نشاندہی کی اور اس سلسلے میں نہ کسی ملامت کی پرواہ کی اور نہ کسی مصلحت اور خوف کو خاطر میں لائے۔ ان کے علم، ان کی بصیرت اور ان کے کام کی عظمت کا اندازہ کرنے کے لیے ان کی کتاب احیاء العلوم کا مطالعہ کافی ہے جسے یورپ کے اہل علم تک نے خراج تحسین پیش کیا۔

یہ کتاب عقائد و فقہ، تزکیہ نفس و تہذیب اخلاق اور احسان و تصوف کے موضوعات سے بحث کرتی ہے اور بلاشبہ اسلامی علوم کا ایک مختصر انسائیکلو پیڈیا ہے جو حق کے طلبگاروں کی تسکین کرتی ہے۔ امام غزالی رحمة اللہ علیہ کا دوسری مرتبہ مدرسہ نظامیہ میں قیام بہت قلیل تھا جس کے بعد وہ اپنے وطن طوس چلے گئے جہاں ایک مدرسہ و خانقاہ کی بنیاد ڈالی اور علم و عرفان کی روشنی پھیلانے میں مشغول ہو گئے اور بالآخر 505 ہجری میں پچپن سال کی عمر میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔

No comments:

Post a Comment