Monday, October 19, 2009

حضرت خالد بن ولید حضرت امام شافعی ByMuhammadAmirSultanChisahti923016778069


حضرت خالد بن ولید
حضرت خالد بن ولیدنام
583تاریخ پیداءش
645تاریخ وفات

حضرت خالد بن ولید کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا اور آپ کا شجرہ نسب ساتویںپشت میں رسول اﷲ اور خلیفہ اول ابوبکر صدیق سے مل جاتا ہے۔

حضرت خالد بن ولید کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا اور آپ کا شجرہ نسب ساتویںپشت میں رسول اﷲ اور خلیفہ اول ابوبکر صدیق سے مل جاتا ہے۔آپکا خاندان بنی فخروم اہل قریش میں بہت مشہوراور سرکردہ تھا۔
خالد بن ولید کے سن ولادت سے متعلق مورخین میں اختلاف ہے۔قےاس ہے کہ وہ سید نا عمرفاروقکے بچپن میں ان کے ساتھ کھیلتے کودتے تھے ا ور ایک مرتبہ ہنسی مذاق میں انہوں نے حضرت عمر فاروق کی پنڈلی توڑ دی تھی اس لئے ضرورہے کہ وہ ان کے ہم عصر ہوں گے۔
اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ دونوں ہم عمر تھے تو اس حساب سے حضرت خالد بن ولید کاسن ولادت 583ءپیغمبر اسلام کے سن ولادت سے بارہ سال کے بعد کا عرصہ قرار پاتا ہے۔
حضرت خالد بن ولید ایک امیر کبیر باپ کے بیٹے تھے جس کے مکے سے طائف تک بے شمار باغات تھے اور روپے پےسے کی کسی طرح کمی نہیں تھی ۔ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں خالد نے شاہانہ اندازمیں پرورش پائی۔وہ عام طور پر امراءکے لاڈلے بیٹوں کی طرح گھوڑ سواری اور گھوڑ دوڑوغیرہ دلچسپ مشغلوں میں لگے رہتے تھے اور چونکہ وہ قریش کے بنی مخزوم ایسے ایک مشہور خاندان سے تھے ?جسے قریش کی طرف سے فوجی کیمپ کا انتظام اور فوجوں کی سپہ سالاری کی خدمت سونپی گئی تھی۔لہذاجب خالد بن ولید جوان ہوئے تو ان کے قبیلے بنی مخزوم نے یہ خدمت انہی کی تفویض کی۔واضح رہے کہ خالد بن ولید کے باپ ولید نے ہجرت نبویکے تین مہینے بعد پچانوے برس کی عمر میں انتقال کیا۔خالد فنون حرب میں لاجواب تھے۔سارے عرب میں کوئی ان کے پائے کاسپہ سالار اور تلوار کادھنی نہیں تھا۔انہوں نے اگر کہیںتربیت تو وہ صرف میدان جنگ میں?جہاں وہ اپنے باپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر دادشجاعت دیاکرتے تھے۔یہ اسی تربیت کا اثر تھا کہ خالد بن ولید نہایت دلیر?بہادراور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑنے والے نڈر سپاہی بن گئے۔
جنگ احد جس میں پہلے پہل میدان جنگ مسلمانوں نے سر کر لیا تھا?خالد بن ولید ہی کے مسلمانوں پر اچانک حملہ کرنے سے ان کی فتح شکست میں بدلی۔ جنگ احد سے ایک مدت بعد جنگ خندق کا واقعہ پیش آیا تو ان موقع پر بھی خالد بن ولید اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے میں پیش پیش تھے۔وہ خندق کے کنارے کنارےتمام دن گشت کرتے رہے?جس سے انہیں یہ معلوم ہوسکے کہ آیا خندق کا کوئی حصہ کہیں سے ایسا کمزور بھی ہے کہ جہاں سے مسلمانوں پر آسانی سے حملہ کیا جا سکے۔
اگرچہ حضرت خالد بن ولید کے اسلام لانے سے متعلق مختلف روایات ہیں ۔تاہم ان سب سنین میں صحیح 8ہجری ہے?جس میں آپ مشرف بہ اسلام ہوئے۔حضرت خالد بن ولید نے اسلام کیسے قبول کیااس کا سبب خود ان کی زبانی سنئے فرماتے ہیں :?جب اﷲتعالیٰ نے مجھ پر فضل وکرم کرنا چاہا تو اس نے مےرے دل میں اسلام کی طرف لگاو? پیداکر دیا اور مجھے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بخشی۔?
جب حضرت ابوبکرنے عنان خلافت سنبھالاتو ایک طرف باغی اور مرتد لوگو ں نے آفت برپا کی ہوئی تھی اور دوسری طرف ایسے لوگوںکا زور بڑھ رہا تھاجو نبوت کے جھوٹے مدعی بنے بیٹھے تھے۔سیدنا ابوبکر صدیق نے اس کٹھن ساعت میں کمال ہمت اور استقامت سے کام لیا اور آپ کی نگہ انتخاب نے منکرین زکوة اور مرتدین کی سر کوبی کے لئے اولوالعزم صحابہ رسول کو مقرر کیا۔ان میں حضرت خالد بن ولید ?سیف اﷲ کا نام بھی فہرست تھا۔
حضرت خالد بن ولید سب سے پہلے طلیحہ کی سر کوبی کے لئے بھیجے گئے جس نے حجتہ الوداع کے بعد حضور پیغمبر اسلام کو بستر علالت پر دیکھ کر اپنی نبوت کا دعٰوی کر دیا تھا ۔طلیحہ کی مہم سے فارغ ہونے کے بعد خالد بن ولید نے بنی تمیم کا رخ کیا جس میں بنی یر نوع کے خاندان کی ایک عورت سجاع نبوت کا دعوی رکھتی تھی اور اس کا سردار مالک بن نویرہ تھا۔
اب خالد بن ولید کو حکم ملا کہ وہ مسیلمہ بن کذاب کی سر کوبی کریں ?جس نے حضور پیغمبر اسلام کی حیات مبارکہ ہی میں نبوت کا جھوٹا دعوی کردیا تھا اور حضور کی خدمت میں لکھا تھا تو آپ مجھے اپنی رسالت اور نبوت میں شریک کرلیں اور نصف حکومت میرے حوالے کردیں ۔
مرتدین اسلام اور منکرین زکوة سے فراغت پانے کے بعد اب حضرت خالد بن ولیدکی ان فتوحات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ جو اسلام کی حفاظت اور مدافعت کے نتیجے میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔انہیں عراق کی مہم کا سپہ سالار بنایا گیا۔
اسی دوران میں جب ہرمز کو حضرت خالد بن ولید کے آنے کا پتہ چلا تو اس نے فورا شہنشاہ ایران ارد شیر کو مدد کے لئے لکھ بھیجا اور خود ایک لشکر جرار لے کر حفیر کی طرف روانہ ہوا۔حفیر مقام بصیرہ سے چار میل کے فاصلے پر ہے۔ہرمز نے حفیر کے مقام پر اپنے لشکر کو ترتیب دیا جس میں سے لشکر کے ایک حصے نے اپنے آپ کو زنجیروں سے جکڑلیا تاکہ وہ میدان جنگ میں جم کے لڑ سکیں۔اس ثناءمیں حضرت خالد بن ولید بھی حفیر میں پہنچ گئے اور ان کے آتے ہی لڑائی شروع ہوگئی۔ہرمز نے اپنے لشکر سے باہر نکل کر حضرت خالد بن ولید کو مبارزت کی دعوت دی جسے حضرت خالد بن ولیدنے فوراقبول کر لیا۔چنانچہ دونوں میں دست بدست لڑائی کا آغاز ہو گیا۔ہرمز کی نیت یہ تھی کہ حضرت خالد بن ولید گھیرے میں لے کر شہید کر دیے جائیں ?چنانچہ ہرمز کے آدمیوں کو اس مقصد کی تلقین بھی کردی تھی لیکن حضرت خالد بن ولید نے اس سے پہلے کہ ایرانی سورماانہیں گھیرے میں لےنے کے لئے آئیں?تلوار کے ایک ہی وار میں ہرمز کا کام تمام کردیا اور پھر اس کے سورماو?ں کو موقع دیے بغیر کہ وہ حملہ کریں کمال چستی اور دانائی سے لشکر میں واپس آگئے۔ہرمز کے مارے جانے کے بعد ایرانی فوج کے حوصلے پست ہوگئے یہاں تک کے وہ میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔حفیر کے بعد پھر مسلمانوں اور ایرانیوں کی جنگ دلجہ کے مقام پر ہوئی فتح کے بعد حضرت خالد بن ولیدنے اس علاقہ کے کا شتکاروں سے کوئی تعرض نہ کیا۔ان سے محض جزیے کا مطالبہ کیا جس کی ادائیگی کا انہوں نے وعدہ کرلیا۔
اس جنگ میں چونکہ قبیلہ بکر بن وائل کے بھی کئی عربی نسل کے عیسائی مارے گئے تھے اس لئے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ایران کے دربار میں فریاد کی اور شہنشاہ اور شہنشاہ ایران ارد شیر نے بہمن جادو یہ ایک نامی گرامی ایرانی سورما کو ان کی مدد کے لئے لشکر دے کر روانہ کی۔جادویہ نے الیس کے مقام پر پہنچ کر وہاں کے حاکم حبان کو ایرانی فوج سونپ دی اور خود شہنشاہ ایران سے مشورہ کرنے مدائن چلاگیا۔
ادھر جب حضرت خالد بن ولید کو ایرانیوں کے نئے حملے کی تیاریوں کا پتہ چلا تو وہ بھی لشکر لے کر مقابلے کو چل دیے اور الیس کے مقام پر پہنچتے ہی لڑائی شروع کر دی اور اس کے پہلے کہ بہمن جادویہ واپس آئے مسلمانوں نے موقع غینمت جان کر نہایت جوش وخروش کے ساتھ بھر پور حملہ کردیا ۔ الیس کی مہم سر کرنے کے بعد اب غحرت خالد بن ولید امینیشیاکی طرف بڑھے لیکن یہاں کے باشندے غحرت خالدکی صرف اطلاع پاکر بھاگ نکلے حتی کہ شہر بالکل خالی ہوگیا۔مسلمانوں کو یہاں سے اس قدر مال غنیمت ہاتھ آیا کہ اتنا جنگ ذات السلاسل کے بعد بھی حاصل نہیں ہوا تھا۔غنیمت میں ہر سوار کو پندرہ سو درہم ملے ۔دیگر مجاہدین کو جو رقمیں ملیں وہ اس کے علاوہ تھیں۔جب حضرت خالد بن ولید نے مال غنیمت کا پانچواں حصہ فتح کی خوشخبری کے ساتھ سیدناابوبکر صدیقکی خدمت میں بھجوایا تو وہ بہت خوش ہوئے۔امینشیاکی فتح کے بعد حضرت خالدبن ولیدنے حیرہ کا رخ کیا۔وہاں کے حاکم اراذبہ نے جب دیکھا کہ خالد بن ولیدکے جنگ کے ذریعے رستگاری نہیںمل سکتی۔اس نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ وہ دریائے فرات میں بند باندھ کر اس کا سارا پانی روک لے اور دریا سے نکلنے والی نہروں میں چھوڑدے۔چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا ?جس کا نیتجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی تمام کشتیاں دلدل اور کیچڑ میں پھنس کر رہ گئیں ۔
حضرت خالد بن ولید اب یہ صورت حال دیکھ کر اراذبہ کی طرف لپکے اور ناگہانی طور پر مسلمان اس کی فوج پر حملہ آور ہوئے۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ مسلمان اپنی کشتیوں کودلدل میں چھوڑ کر بجلی کی طرح اس کی فوج تک پہنچ جائیں گے۔مسلمانوں نے اس پامردی سے ان کا مقابلہ کیا کہ ان کا ایک فرد بھی زندہ بچ کر نہ جاسکا۔حیرہ کے عیسائی معززین شہر حضرت خالد بن ولیدکی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ ان معززین کی وساطت سے ہر قلعے کے لوگوں سے ایک ایک کر کے ملے اور کہا۔افسوس ہے تم پر لوگو!تم نے اپنے آپ کو کیا سمج رکھا ہے۔اگر تم عرب ہو تو کیا تم کو زیب دیتا ہے کہ تم اپنی ہی ہم قوم لوگوں کا مقابلہ کرو۔آخر کیا وہ شے ہے کہ جس نے تمہیں اس پر ابھارا ہے اور اگر تم عجمی ہو تو کیا تم سمجھتے ہو کہ ہمارے مقابلے میں جیت جاو?گے؟
اس کے بعد حضرت خالد بن ولیدنے فرمایا ۔ہم تمہارے سامنے تین چیزیںرکھتے ہیں۔اول یہ کہ تم اسلام قبول کر لو۔دوم یہ کہ مسلمان ہونا منظور نہ ہو تو جزیہ دو ۔سوم یہ کہ اگر تمہیں یہ بھی منظوز نہ ہو تو آو?میدان جنگ میں نکل کر اپنی قسمت کا فیصلہ کر لو۔عےسائیوں نے یک زبان ہو کر کہاکہ ہم صلح کی درخواست پیش کرتے ہیں اور ایک لاکھ نوے ہزار دوہم سالانہ ادا کرنے کا اقرار کرتے ہیں۔
چنانچہ حضرت خالد بن ولیدنے اسے بہ طیب قبول کرلیا اور بڑے بڑے عیسائی سرداروں نے صلح نامہ لکھ کر ان کے حوالے کیا۔اس کے بعد عراق کے زمیندار آئے۔مصالحت کی درخواست پےش کی۔چنانچہ فلالیج سے ہرمز تک کے علاقے کے لئے بیس لاکھ درہم پر صلح ہوگئی۔اس کے علاوہ یہ بھی طے پایا کہ ال کسری کی تمام املاک مسلمانوں کی ملکیت ہوگی۔
خالدبن ولید نے عراق کا ایک بڑا حصہ فتح کرلیااور دریائے فرات کے تمام مغربی ساحل کو دشمن کے وجود سے پاک کردیا ۔حیرہ کو اسلامی مفتوحہ علاقوں کا دارالحکومت بنایا۔اب یہ لازم تھا کہ مفتوحہ علاقوں کاجونظام جنگ کے دنوں تباہ برباد ہوا۔اسے پھر سے قائم کیاجائے۔چنانچہ حضرت خالدنے اس غر ضکے لئے مختلف امراءمقرر کئے۔خراج وصول کرنا ?شہر کا نظم ونسق درست رکھنااور سرحدوں کی حفاظت کرنا ان کا فرض منصبی ٹھہرایا۔
مفتوحہ علاقوں کے انتظامات سے فراغت پانے کے بعد حضرت خالدحیرہ سے چل کر نلوجہ پہنچ گئے اور پھر وہاں سے انبار گئے?جوبغداد کے دس میل کے فاصلے پرواقع ہے۔اہل انبار کو جب خالدبن ولیدکے آنے کا پتہ چلا تو انہوں نے شہر کے اردگرد خندقیں کھود کر قلعے کے دروازے بند کر لئے اور اپنے آپ کو مضبوط سمجھتے ہوئے قلعہ بندہو کر بیٹھ گئے۔حضرت خالد بن ولیدکے حکم سے مجاہدین نے اونٹوں کو ذبح کرکے ان کی لاشوں سے خندق کو پاٹ دیا اور اس سے پل کاکام لیتے ہوئے خندق کے پار ہوگئے۔اب جونہی مجاہدین آگے بڑھے دشمن کے سپاہی پسپا ہوگئے۔
حضرت خالد بن ولیدعراق میں ایک سال دو مہینے تک رہے۔ اس تھوڑی سی مدت میں انہوں نے رومیوں اور ایرانیوںسے نئے نئے سازو سامان جنگ سے لیس لشکروں سے پندرہ لڑائیاں لڑیں اور باوجود سامان جنگ اور مجاہدین کی قلت ہونے کے سبب لڑائیوں میں مظفر ومنصور ہوئے۔
مختصراًیہ کہ حضرت خالدبن ولیدتمام دن اور رات رومیوں سے جنگ کرتے رہے ۔یہاں تک کہ رومیوں کے سالار اعظم کے خیمے تک پہنچ گئے اور یرموک فتح کرلیا۔عمرفاروقکی طرف سے معرکہ یرموک کے اختیام پردمشق کے محاصرے کے دوران سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کیے جانے کا حکم مل گیا اور آپ نے بے چون وچراتسلیم کرلیا اور بال برابر بھی دل میں کوئی فرق نہیں آنے پایا۔وہ پہلے جس جو ش و خر و ش کے ساتھ ایک سپہ سالارکی حیثیت سے دادشجاعت دیتے رہے?اب بھی اسی طرح سے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے ایک سچے مسلمان سپاہی کی طرح دشمن سے نبردآزمارہے۔
اصل میں بات اتنی تھی کہ خالد بن ولیدکا طریقہ جنگ کچھ اتنا سخت تھا کہ اسے سیدنا عمرفاروقپسند نہیں کرتے تھے اور ایک دو مرتبہ ان سے کچھ بے اختیاطی بھی ہوگئی۔اس کے علاوہ ایک شاعر کو آپ نے ایک ہزار دینارعطاکردیے تھے۔سیدنا عمرفاروقکو جب اس واقعہ کا پتہ چلا توانہوں نے خیال کیا کہ رقم کہیں مسلمانوں کے مال سے نہ سی گئی ہوجو سب مسلمانوںکی امانت ہے۔چنانچہ انہوں نے حضرت خالدبن ولیدسے وضاحت طلب کی لیکن ان کی جانب سے تاخیر ہوئی تو انہوں نے معزولی کا پروانہ بھیج دیا۔پھر جب حضرت بلال نے انہی کے عمامہ سے ان کی ہاتھ باندھ دیے توحضرت خالدنے عمرفاروقسے کہا کہ میں نے دورقم صرف اپنی جیب خاص سے دی ہے۔اس پر ان کا عذر تسلیم کر کے ان کے ہاتھ کھول دیے گئے۔
حضرت خالد کے انتقال کے بار ے میں اختلاف ہے۔کوئی کہتا ہے کہ مدینے میں فوت ہوئے اور اکثر کہتے ہیں کہ آپاپنی معزولی کے بعد حضرت عمرفاروقسے ملنے مدینے آئے اور پھر ان سے مل کر شام چلے گئے?جہاں حمص میںانہوں نے مستقل سکونت اختیار کرلی اور 21ھ بمطابق 645ءمیں آپ کا وہیں انتقال ہوا۔


حضرت امام شافعی
2
حضرت امام شافعینام
804تاریخ پیداءش
آپ بحرشریعت و طریقت کے تیراک اور رموز حقیقت کے شناسا تھے فراست و ذکاوت میں ممتاز اور نفقہ فی الدین میں یکتائے روزگار تھے۔

آپ نے تیرہ سال کی عمر میں ہی بیت اللہ میں فرما دیا تھا کہ جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو 'اور پندرہ سال کے سن میں فتویٰ دینا شروع کر دیا تھا۔ حضرت امام احمد بن حنبل آپ کابہت احترام اور خدمت کیا کرتے تھے۔ جب کسی نے یہ اعتراض کیا کہ آپ جیسے اہل علم کے لئے ایک کم عمر شخص کی مدارات کرنا مناسب نہیں آپ نے جواب دیا کہ ''میرے پاس جس قدر علم ہے اس کے معانی و مطالب سے وہ مجھ سے زیادہ با خبر ہے 'اور اسی کی خدمت سے مجھے احادیث کے حقائق معلوم ہوتے ہیں۔

اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو ہم علم کے دروازے پر ہی کھڑے رہ جاتے اور فقہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند رہ جاتا۔ اور اس دورمیں وہ اسلام کا سب سے بڑا محسن ہے۔ وہ فقہ معانی اور علوم لغت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا اور حضور اکرم کے اس قول کے مطابق کہ ہر صدی کی ابتدامیں ایک ایسا شخص پیدا ہو گا کہ اہل علم اس سے علم دین حاصل کریں گے اور اس صدی کی ابتدا امام شافعی سے ہوئی ہے ''

حضرت سفیان ثوری کا قول ہے کہ امام شافعی کے دور میں ان سے زیادہ دانشور اور کوئی نہیں۔ حضرت بلالخواص کا قول ہے کہ میں نے حضرت خضر سے پوچھا کہ امام شافعی کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے !فرمایا کہ ان کا شمار اوتاد میں ہوتا ہے۔

امام شافعی ابتدائی دور میں کسی کی شادی یا دعوت میں شریک نہ ہوتے 'مخلوق سے کنارہ کش ہو کر ذکر الہی میں مشغول رہتے 'حضرت سلیم راعی کی خدمت میں حاضر ہو کر فیوض باطنی سے فیض یاب ہوتے اور آہستہ آہستہ ایسے عروج کمال تک رسائی حاصل لی کہ اپنے دور کے تمام مشائخ کو پیچھے چھوڑ دیا۔عبدا? انصاری کا قول ہے کہ گو میرا شافعی مسلک سے تعلق نہیں لیکن امام صاحب کے بلند مراتب کی وجہ سے ان کے عقیدت مندوں میں ہوں۔

آپ کی والدہ بہت بزرگ تھیں اور اکثر لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس بطور امانت رکھوا دیتے۔ ایک دفعہ دو آدمیوں نے کپڑوں سے بھرا ہوا ایک صندوق آپ کے پاس بطور امانت رکھوایا۔

اس کے بعد ایک شخص آکر وہ صندوق لے گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد دوسرے شخص نے آکر صندوق طلب کیا تو آپ نے کہا کہ میں تمہارے ساتھی کو وہ صندوق دے چکی ہوں۔ اس نے کہا جب ہم دونوں نے ساتھ رکھوایا تھا تو پھر آپ نے میری موجودگی کے بغیر اس کو کیسے دے دیا ؟اس جملہ سے آپ کی والدہ کو بہت ندامت ہوئی لیکن اسی وقت امام شافعی بھی گھر میں آگئے اور والدہ سے کیفیت معلوم کر کے اس شخص سے کہا کہ تمہارا صندوق موجود ہے لیکن تم تنہا کیسے آگئے 'اپنے ساتھی کو ہمراہ کیوں نہیں لائے ہو۔ پہلے اپنے ساتھی کو لے آئو۔ یہ جواب سن کر وہ شخص ششدر رہ گیا۔


جس وقت آپ امام مالک کے پاس پہنچے تو آپ کی عمر سترہ سال تھی چنانچہ آپ ان کے دروازے پر اس نیت سے کھڑے رہتے۔ جو شخص امام مالک سے فتوے پر دستخط لے کر نکلتا تو آپ بغور اس کا معالعہ کرتے۔ اگر جواب صحیح ہوتا تو اس شخص کو رخصت کر دیتے اور کوئی خامی نظر آتی تو واپس امام مالک کے پاس بھیج دیتا اوروہ غور کرنے کے بعد نہ صرف اس خامی کو دور کر دیتے بلکہ امام شافعی کے عمل سے بہت مسرور ہوتے۔

خلیفہ ہارون رشید اور اس کی بیوی میں کسی بات پر تکرار ہو گئی تو زبیدہ نے کہا کہ تم جہنمی ہو اور ہارون رشید نے کہا کہ اگر میں جہنمی ہوں تو تیرے اوپر طلاق ہے۔ یہ کہہ کر بیوی سے کنارہ کشی اختیار کر لی لیکن محبت کی زیادتی کی وجہ سے جب جدائی کی تکلیف برداشت نہ ہو سکی تو تمام علماء کو بلا کر پوچھا کہ میں جہنمی ہوں یا جنتی ؟لیکن کسی کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔

امام شافعی بھی کم سنی کے باوجود ان علماء کے ساتھ تھے چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اگر اجازت ہو تو میں اس کا جواب دوں اور اجازت کے بعد خلیفہ سے پوچھا کہ آپ کو میری ضرورت ہے یا مجھے آپ کی ؟خلیفہ نے کہا کہ مجھے آپ کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم تخت سے نیچے آجائو کیونکہ علما ء کا مرتبہ تم سے بلند ہے۔ چنانچہ اس نے نیچے آکر آپ کو تخت پر بٹھا دیا۔ پھر آپ نے سوال کیا کہ تمہیں کبھی ایسا موقع بھی ملا ہے کہ گناہ پر قادر ہونے کے باوجود محض خوف الہی سے گناہ سے باز رہے ہو ؟اس نے قسمیہ عرض کیا کہ ہاں ایسے مواقع بھی آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم جنتی ہو۔ علماء نے اس کی حجت طلب کی تو فرمایاکہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ قصد گناہ کے بعد جو شخص خوف خدا سے گناہ سے رک گیا اس کا ٹھکا نہ جنت ہے ''

ایک روایت کے مطابق حاکم روم کچھ رقم سالانہ ہارون رشید کے پا س بھیجاکرتاتھا لیکن ایک مرتبہ چند راہبوں کو بھیج کر یہ شرط لگا دی کہ اگر آپ کے دینی علماء مناظرے میں ان راہبوں سے جیت گئے تو میں اپنی رقم جاری رکھوں گا ورنہ بند کر دوں گا۔ چنانچہ خلیفہ نے تمام علماء کو مجتمع کر کے حضرت امام شافعی کو مناظرہ پر آماد ہ کیا۔ آپ نے پانی کے اوپر مصلی بچھا کر فرمایا کہ یہاں آکر مناظرہ کرو۔ یہ صورت حال دیکھ کر سب ایمان لے آئے۔ جب اس کی اطلاع حاکم روم کو پہنچی تو اس نے کہا کہ یہ بہت اچھا ہوا 'اس لئے اگر وہ شخص آجاتا تو پورا روم مسلمان ہو جاتا۔

امام شافعی حافظ نہیں تھے اور کچھ لوگوں نے خلیفہ سے شکایت کر دی کہ آپ حافظ نہیں ہیں۔ اس نے بطور آزمائش رمضان میں آپ کو امام بنا دیا۔ چنانچہ آپ دن بھر میں ایک پارہ حفظ کر کے رات کو تراویح میں سنا دیا کرتے تھے۔ اس طرح ایک ماہ میں پورا قرآن حفظ کر لیا۔

آپ ایک حسینہ پر فریفتہ ہو گئے اور اس سے نکاح کرنے کے بعد صرف صورت دیکھ کر اور مہر ادا کرکے طلاق دے دی امام شافعی نے امام حنبل سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ آپ کے نزدیک عمداََنماز ترک کر دینے والا کافر ہو جاتا ہے تو اس کے مسلمان ہونے کی کیا شکل ہے ؟انہوں نے جواب دیا کہ نماز ادا کرے۔ امام شافعی نے جواب دیا کہ کافر کی تو نماز ہی درست نہیں۔ یہ سن کر آپ ساکت رہ گئے۔

ایک شخص نے آپ سے نصیحت کی درخواست کی تو فرمایا کہ دوسروں کے برابر دولت جمع کرنے کی سعی مت کرو بلکہ عبادت میں برابری کی کوشش کرتے رہو کیونکہ دولت تو دنیا میں رہ جاتی ہے اور عبادت قبر کی ساتھی ہے کبھی کسی مردے سے حسد نہ کرو کیونکہ دنیا میں سب مرنے کے لئے آئے ہیں۔

ایک مرتبہ آپ گزرے ہوئے وقت کی جستجو میں نکلے تو صوفیا کی ایک جماعت نے کہا کہ گزرا ہوا وقت تو ہاتھ نہیں آتا 'لہذا موجودہ وقت ہی کو غنیمت جا نو۔ آپ نے فرمایا کہ مجھ کو مراد حاصل ہوگئی کیونکہ تمام دنیا کا علم مجھ کو حاصل نہیں ہوا اور میرا علم صوفیاء کے علم تک نہیں پہنچا اور صوفیا ء کا علم انہیں کے ایک مرشد کے اس قول تک نہیں پہنچا کہ موجودہ وقت شمشیر قاطع ہے۔

عالم نزع میں آپ نے وصیت نامہ میں تحریر کر دیا تھا اور زبانی بھی لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ فلاں شخص سے کہنا کہ مجھے غسل دے۔ لیکن وفات کے بہت عرصہ بعد وہ شخص مصر سے واپس آیا تو لوگوں نے وصیت نامہ اور زبانی وصیت اس تک پہنچا دی۔
چنانچہ وصیت نامہ میں تحریر تھا کہ میں ستر ہزار کا مقروض ہوں۔ یہ پڑھ کر اس شخص نے قرض ادا کیا اور لوگوں سے کہا کہ غسل سے آپ کی یہی مراد تھی۔

No comments:

Post a Comment