Monday, October 19, 2009

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری غلام مصطفی جتوئی نام ByMuhammadAmirSultanChishti923016778069


طاہرالقادری
ڈاکٹر محمد طاہرالقادرینام
19/02/1951تاریخ پیداءش
Alive تاریخ وفات
وجھ شھرت
شیخ الاسلام اور قائدِ انقلاب کے القابات سے مشہور ہیں
طاہرالقادری پاکستان کے ایک مسلمان عالم دین اور سیاسی راہنما ہیں۔ آپ نے ایم اے کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اول پوزیشن کے ساتھ پاس کر کے نیا تعلیمی ریکارڈ قائم کیا


ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پاکستان کے ایک مسلمان عالم دین اور سیاسی راہنما ہیں جو پاکستان کے شہر جھنگ میں 1951 میں پیدا ہوئے۔ طاہرالقادری اپنے پرستاروں معتقدین میں شیخ الاسلام اور قائدِ انقلاب کے القابات سے مشہور ہیں۔ آپ نے ایم اے کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اول پوزیشن کے ساتھ پاس کر کے نیا تعلیمی ریکارڈ قائم کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ آپ نے ایل ایل بی (قانون ) کا امتحان بھی پنجاب یونیورسٹی سے اعلی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ 1986 میں پنجاب یونیورسٹی نے آپ کو Punishments in Islam, their Classification and Philosophy کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی۔

آپ نے عالم اسلام کی عظیم المرتبت روحانی شخصیت قدو الاولیا سیدنا طاہر علا الدین القادری الگیلانی البغدادی رحم اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور ان سے طریقت و تصوف کی تربیت اور روحانی فیضان حاصل کیا۔ آپ کے اساتذہ کرام میں آپ کے والد گرامی ڈاکٹر فرید الدین قادری کے علاوہ مولانا عبد الرشید رضوی، مولانا ضیا الدین مدنی، مولانا احمد سعید کاظمی، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی اور شیخ محمد بن علوی المالکی المکی (رحم اللہ علیہم اجمعین )جیسے عظیم المرتبت علماء کرام شامل ہیں۔ آپ پنجاب یونیورسٹی کے زیراہتمام کل پاکستان فی البدیہہ تقریری مقابلہ میں اول آئے اور قائدِ اعظم گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اس کے علاوہ بھی آپ نے کئی گولڈ میڈلز حاصل کئے۔

آپ پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں قانون کے استاد رہے، اور علاوہ ازیں پنجاب یونیورسٹی سینٹ، سنڈیکٹ اور اکیڈمک کونسل کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ آپ مشیرِ فقہ وفاقی شرعی عدالت پاکستان، مشیرِ سپریم کورٹ آف پاکستان، اور ماہر قومی کمیٹی برائے نصاباتِ اسلامی رہے۔ بانی و سرپرست اعلی تحریک منہاج القرآن، بانی و سرپرست اعلی پاکستان عوامی تحریک، نائب صدر الموتمر العالمی الاسلامی، جنرل سیکریٹری عالمی اتحاد اسلامی، سابق رکن قومی اسمبلی پاکستان (MNA) اور 19 سیاسی و مذہبی جماعتوں پر مشتمل اتحاد، پاکستان عوامی اتحاد کے صدر بھی رہے۔ آپ جدید و قدیم علوم کی عظیم درسگاہ منہاج یونیورسٹی لاہور کے بانی بھی ہیں۔

آپ نے پاکستان میں اور بیرونِ ملک خصوصا یورپی ممالک میں اِسلام کے مذہبی و سیاسی، روحانی و اخلاقی، قانونی و تاریخی، معاشی و اِقتصادی، معاشرتی و سماجی اور تقابلی پہلوں کو محیط مختلف النوع موضوعات پر ہزاروں لیکچرز دیئے۔ دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں وقتا فوقتا مختلف علمی و فکری اور عصری موضوعات پر آپ نے فکر افروز لیکچرز دیے۔

آپ کے لیکچرز پاکستان، عالمِ عرب اور مغربی دنیا کے مختلف ٹی وی چینلز پر بھی نشر کئے جاتے ہیں۔ آپ کئی برس پاکستان ٹیلی وژن کے فہم القرآن نامی پروگرام میں ہفتہ وار لیکچر دیتے رہے۔ آپ کی اب تک 300 سے زائد اردو، انگریزی اور عربی تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔ اِن میں سے متعدد تصانیف کا دنیا کی دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ مختلف موضوعات پر آپ کی 800 سے زائد کتابوں کے مسودات طباعت کے مختلف مراحل میں ہیں۔

آپ نے دورِ حاضر کے چیلنجوں کے پیشِ نظر اپنے علمی و تجدیدی کام کی بنیاد عصری ضروریات کے گہرے اور حقیقت پسندانہ تجزیاتی مطالعے پر رکھی، جس نے کئی قابلِ تقلید نظائر قائم کیں۔ فروغِ دین میں آپ کی تجدیدی و اِجتہادی اور اِحیائی کاوِشیں منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ جدید عصری علوم میں وقیع خدمات سرانجام دینے کے علاوہ آپ نے عرفان القرآن کے نام سے قرآن حکیم کے الوہی بیان کا لغوی و نحوی، ادبی، علمی و اِعتقادی اور فکری و سائنسی پہلوں پر مشتمل جامع اور عام فہم ترجمہ کیا، جو کئی جہات سے عصرِ حاضر کے دیگر تراجم کے مقابلے میں زیادہ جامع، منفرد اور معیاری ہے۔

آپ قرآن حکیم کی تفسیر پر بھی کام رہے ہیں۔ علم الحدیث میں آپ کی تالیفات گراں قدر علمی سرمایہ ہیں۔ آپ نے المنہاج السوی من الحدیث النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی ضخیم کتاب کے علاوہ دیگر کئی موضوعات پر کتبِ احادیث مرتب کی ہیں۔ آپ نے الخطب السدید فی اصول الحدیث وفروع العقید کے نام سے اصولِ حدیث پر ایک بے مثال اور جامع و مختصر ترین خطبہ تصنیف کیا جو آنے والی کئی صدیاں تشنگانِ علمِ حدیث کی سیرابی کا سامان بہم پہنچاتا رہے گا۔ آپ نے علم الحدیث کی تاریخ میں اِمامِ اعظم ابوحنیفہ (رضی اللہ عنہ) کے فنِ حدیث میں مقام کو دلائل و براہین سے ثابت کیا، اور اس باب میں صدیوں سے موجود غلط فہمیوں کا اِزالہ کیا۔

تحریک منہاج القرآن کا مرکزی سیکرٹریٹ، واقع 365 ایم ماڈل ٹان لاہورآپ کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں اِحیائے ملتِ اِسلامیہ اور اِتحادِ امت کے عظیم مشن کے فروغ کے لئے مصروفِ عمل ہے۔ آپ نے پاکستان میں عوامی تعلیمی منصوبہ کی بنیاد رکھی جو غیرسرکاری سطح پر دنیا بھر کا سب سے بڑا تعلیمی منصوبہ ہے۔ اِس میں ملک بھر میں پانچ یونیورسٹیوں، ایک سو کالجز، ایک ہزار ماڈل ہائی اسکول، دس ہزار پرائمری اسکول اور پبلک لائبریریوں کا قیام شامل ہے۔

پچھلے چند برسوں میں صرف اسکولوں کی تعداد ہی پانچ سو سے تجاوز کرچکی ہے اور اس سمت تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔ جب کہ لاہور میں قائم کردہ منہاج یونیورسٹی بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے چارٹر ہو چکی ہے۔ آپ کی قائم کردہ سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک ملک میں رواداری، برداشت اور اصول پسندی پر مبنی صحت مند سیاسی رِوایت کی تشکیل میں گراں قدر کردار ادا کر رہی ہے۔ آپ عالمِ اِسلام کی بین الاقوامی پہچان کی حامل شخصیت ہیں، جنہیں اِتحاد، امن اور بہبودِ اِنسانی کے سفیر کے طور پر پہچانا جاتا ہے؛ اور بہبودِ اِنسانی کے لئے آپ کی علمی و فکری اور سماجی خدمات کا بین الاقوامی سطح پر اِعتراف بھی کیا گیا ہے۔

تنقید
ناقدین کی نظر میں آپ سیاسی طور پر مفاد پرست واقع ہوئے ہیں۔ مختلف حکمرانوں سے مفادات حاصل کرنے کی خاطر ان سے الحاق کیا۔ مذہبی معاملات میں ان کی شعبدہ بازی کو سنجیدہ حلقوں میں ناپسند کیا جاتا ہے۔ اگرچہ آپ کی تصانیف کی تعداد زیادہ ہے، مگر علم کے طالب ان میں گہرائی نہیں پاتے۔ نظریاتی اعتبار سے سوچ محدود سمجھی جاتی ہے۔

آپ کے کچھ مسلکی مخالفین آپ کو امت کے لیے "فتنہ" گردانتے ہیں۔ آپ کی ترجمان ویب سائٹ کے مطابق، میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے موقع پر آپ کے خطاب کے دوران چاند کے ارد گرد بادلوں سے لکھا ہوا اسمِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا "معجزہ" رونما ہا جس ا وئی قطعی ثبوت موجود نہیں ہے۔

بیرونی روابط
بیرونی روابط برائے منہاج القران

























غلام مصطفی جتوئی
غلام مصطفی جتوئینام
1931تاریخ پیداءش
وجھ شھرت
غلام مصطفی جتوئی پاکستان کے سیاستدان اور سابق نگراں وزیراعظم ہیں۔
غلام مصطفی جتوئی پاکستان کے سیاستدان اور سابق نگراں وزیراعظم ہیں۔ آپ 14 اگست 1931ء کو پیدا ہوئے۔

آپ نے اپنی تعلیم کراچی گراءمر سکول سے حاصل کی اور قانون کی تعلیم کیلیے برطانیہ گئے مگر والد کی بیماری کی وجہ سے آپ کو واپس آنا پڑا۔ 1958 میں آپ مغربی پاکستان کی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔












No comments:

Post a Comment